خبرنامہ

ٹرمپ کے خلاف حکومت کا محتاط اور متوازن رد عمل….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

عمران خان کا کام تو طعنے دینا ہے، سو انہوں نے کہہ دیا کہ حکومت نے ٹرمپ کو کوئی مسکت جواب نہیں دیا۔
حکومت منہ اٹھا کر کوئی رد عمل نہیں دیا کرتی، اسے قومی اور ریاستی اداروں سے مشاورت کرنا پڑتی ہے اور ایک اتفاق رائے کی کیفیت میں ہی کوئی رد عمل دینا ہوتا ہے۔ حکومت نے اس عمل کی پابندی کی اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی ٹرم کے پہلے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس طلب کیا اور مشاورت کا عمل مکمل کر نے کے بعد ایک بے حد محتاط اور متوازن بیان جاری کیا ہے۔
بیان کے اہم نکات اخبارات میں تفصیل سے آ گئے ہیں، میرے نزدیک اس کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کو باور کروایا گیا ہے کہ وہ اپنی جنگ ہمارے سر پہ نہ تھوپے بلکہ افغانستان کے طول و عرض میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اڈوں کا صفایا کرے۔
یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ افغان جنگ پاکستان کی سرزمین پر نہیں لڑی جا سکتی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تویہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے امریکی صدر کا پالیسی بیان مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ مزاج کے اعتبار سے تیزی دکھانے پر مجبور ہیں مگر انہیں احساس نہیں ہے کہ عالمی طاقت کا توازن اب اس کے حق میں نہیں رہا، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ چین نے فوری طور پر امریکہ کو ہوش کے ناخن لینے کے لئے کہا اور یہی موقف روس نے بھی اختیار کیا ہے، اب دنیا کی دو سپر طاقتیں پاکستان کے ساتھ کھڑی ہیں، دوسری طرف امریکہ کے ساتھ نیٹو اور بھارت کی طاقت ہے مگر یہ طاقت تو اسے بہت پہلے سے میسر ہے، اس کے ہوتے ہوئے وہ افغانستان کو مبینہ دہشت گردی سے پاک نہیں کر سکا اور نہ اپنی افواج کو وعدے کے مطابق واپس لے جا سکا ہے۔ مستقبل میںبھی یہی طاقت امریکہ کے ہاتھ میں ہو گی، اس لئے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کوئی بڑا معرکہ مارنے کے قابل ہے یا نہیں۔ چین پہلے بھی سفارتی محاذ پر پاکستان کا ساتھ نبھا رہا ہے اور اقوام متحدہ میں جیش محمد کو دہشت گردی کی لسٹ میں شمولیت کے مسئلے کو وہ بار بار ٹیکنیکل ویٹوکر رہا ہے۔ اب امریکہ یہ دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ پاکستان کے اندر بغیر بتائے سرجیکل اسٹرائیکس کرے گا۔ مگر چین اور روس کے کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کی صورت میں اس کے لئے ان عزائم کو پورا کرنا مشکل ہی نہیں، نا ممکن دکھائی دیتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کس کو دھمکیاں نہیں دیں، داخلی طور پر وہ ہر ایک کو دھمکا چکا ہے مگر نتیجہ یہ ہوا کہ خود اسے ہی نقصان ا ٹھانا پڑا اور اب تک اس کے اہم ترین حکومتی عہدیدار مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ چین اور روس جیسی طاقتیں ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہیں مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ خود ہمارے پاﺅں کس قدر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک طرف امریکہ اور نیٹو ہماری تباہی کے منصوبے سوچ رہے ہیں اور دوسری طرف ہم خود ایک دوسرے کا گریبان چاک کر رہے ہیں، ملک میں ایک اچھی بھلی حکومت کو پٹڑی سے اتار دیا گیا ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت سے تو صرف ایک آدمی فارغ ہوا ہے مگر یہ بچگانہ سوچ ہے اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، نواز شریف کو تو جو نقصان ہونا تھا، ہو گیا مگر جو نقصان اس عدم استحکام کی سنگینی سے ملک کو پہنچ رہا ہے، اس کا مداو ا کون کرے گا، کیسے کرے گا۔ نواز شریف اور اس کی ا ولاد تو عدالتوں اور نیب میں پیشیاں بھگتتی رہے گی مگر جو پیشیاں پوری قوم کو امریکہ اور نیٹو کے سامنے بھگتنی پڑیں گی، اس میں قائدانہ کردار کون ادا کرے گا، نئے وزیراعظم کو معاملات سمجھنے اور عالمی طا قتوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنانے میں وقت لگے گا، ا س دوران امریکہ اور ینٹونے کسی خرمستی کا مظاہرہ کر دیا تو ہمارا کیا بنے گا کالیا!
بلا شبہ ہماری افواج کی طاقت ایک مسلمہ امر ہے مگر ان کی پشت پر اور ان کے شانہ بشانہ قوم کو بھی ساتھ کھڑے ہونا چاہئے، اکہتر میں فوج اور عوام کے درمیان فاصلہ تھا بلکہ دشمنی تھی اور وہ ہو گیا جس کا تصور بھی بانیان پاکستان اپنی قبروںمیں بھی نہیں کر سکتے تھے۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کو جو سکیورٹی خطرات آج درپیش ہیں ، کیا وہ اکہتر سے کم ہیں ۔ اکہتر میں ہمارا مقابلہ اکیلے بھارت سے تھا ، آج امریکہ اور نیٹو سے ہے اور ہم اعلان تو کر رہے ہیں کہ پاکستان کو امریکی فوجوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا جائے گا مگر جو قوم پندرہ برس میں ابھی تک دہشت گردی، فرقہ واریت، بوری بند لاشوں، بھتہ خوری، ہیرو ئن اور کلاشنکوف مافیا اور بھتہ خوروں سے نجات نہیں پا سکی جبکہ نیشنل ایکشن پلان متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا، تو اس کے لئے تیسری عالمی جنگ جیسے خطرے سے نبٹنا کس قدرآسان یا مشکل ہو سکتا ہے، میں تو سوچ سوچ کر وحشت کا شکار ہو چکا ہوں۔ ہمیں اپنی لڑائیاں اسی وقت یادآتی ہیں جب عالمی طاقتیں ہمیں بحیرہ عرب میں دھکیلنے کے لئے پر تول رہی ہیں۔ مشرف کو ہم نے اسوقت نکالا جب امریکہ کو ڈومور کے نخرے پورے کرانا مشکل ہو رہا تھا، مشرف چلا گیا ، نئے لوگ آ گئے، ان کو امریکی عزائم کو سمجھنے میں وقت لگا اور جب تک سمجھ آئی ، ہم نئے ایک ا ور سیاسی اور حکومتی بحران پیدا کر دیا۔ اس طرح تو عالمی شاطروں کو ہمارے اوپر چڑھائی کرنے میں آسانی پیدا ہو گئی۔ بہر حال پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور ہم ایک منتشر قوم نہیں بلکہ ایک انبوہ کے طور پر عالمی بھیڑیوں کے سامنے بے بسی کا شکار نظرآتے ہیں۔ خدا کرے کہ سیاسی اور حکومتی قیادت حالات کو اپنی گرفت میں لے سکے ۔
لگتا تو یہ ہے کہ ہماری سمت صحیح ہے۔ قدرت نے جیو اسٹریٹجک پوزیشن کے تمام فوائد سے ہمیں بہرہ مند کر رکھا ہے، چین ایک عظیم الشان منصوبہ بنا چکا ہے،ا س کے دماغ پر ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کو پروان چڑھانے کا بھوت سوار ہے اور لگتا یہ ہے کہ اب چین بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا اور معاشی ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لئے اسے عملی اقدامات کرنا پڑیں گے، اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ ہم نے بھی امریکہ کو بتا دیا ہے کہ ہمیں ٹرمپ کے بیان کا کوئی خوف نہیں۔اس کے لئے ہمارے وزیر خارجہ نے امریکہ کا دورہ ملتوی یا منسوخ کر دیا ہے اور اپنا منہ چین اور روس کی طرف موڑ لیا ہے۔ سعودی عرب مکمل طور پر ہمارے ساتھ ہے ۔ اس لئے وقتی طور پر ہم یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ خدا کرے ہمارے اقدامات اسی طرح ہوش مندی سے کئے جائیں تو ہم اپنی سیکورٹی کا تحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔ ہم وہی قوم ہیں جس نے سوویت روس جیسی سپرپاور کو شکست دی، تب امریکہ ہمارے ساتھ تھا، اب امریکہ ہمیں چیلنج کر رہا ہے اور دو عالمی طاقتیں چین اورروس ہماری پشت پر ہیں۔ یہ صورت حال ہے تو حوصلہ افزا۔ اب آپ بھی بتایئے کہ کیا محسوس کرتے ہیں، ڈرے سہمے بیٹھے ہیں، گھگیا رہے ہیں یا آپ کی آنکھوں میں نئے حوصلوں کی چمک ہے۔ داد دیجئے میاں شہباز شریف کو بھی کہ انہیں ذاتی طور پر دہشت گردی کے خطرات کا کوئی ڈر نہیں اور انہوں نے قوم کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ بھی بے خطر اور بے خوف ہو جائے۔