خبرنامہ

پارلیمانی اور جمہوری بالادستی……اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پارلیمانی اور جمہوری بالادستی……اسداللہ غالب

ننانوے میں وزیر اعظم نے اپنا ایگزیکٹو اور آئینی اختیار استعما ل کرتے ہوئے جنرل مشرف کو برطرف کیااورنیاا ٓرمی چیف بھی مقرر کر دیا مگر فوج نے اکٹھ کر کے وزیر اعظم کے حکم پر عمل نہیں ہونے دیا اور الٹا وزیر اعظم کو برطرف کر دیا۔ حکومت کو بھی ڈسمس کر دیاا ور پارلیمنٹ بھی توڑ دی۔ نوازشریف نے جس شخص کو آرمی چیف مقرر کیا تھا۔ وہ آج تک مراعات سے محروم ہیں۔ حتی کہ پنشن سے بھی اور پلاٹوں کے حق سے بھی۔
جنرل مشرف نے ایک ریفرنس چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف دائر کیا مگر عدلیہ کا ا دارہ یک جان ہو گیااور ا س ریفرنس کو قابل غور ہی نہ سمجھا۔چیف جسٹس افتخار نے اپنی ٹرم بھی پوری کی اور کسی الزام کو بھی در خور اعتنا نہ سمجھا۔
عدلیہ نے وزیر اعظم کے خلاف ایک فیصلہ دیا۔نواز شریف کے پاس دو چوائس تھے ، ایک یہ کہ فوج اور عدلیہ کی سابقہ روش کے مطابق سیاستدانوں کو متحد کرتے اور یہ حکم نہ مانتے۔ مگر انہوںنے ذمے داری کا مظاہرہ کیا، اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔جس کسی عدالت نے انہیں یا ان کی اولاد کو طلب کیا، وہ ہر عدالت میں اب تک حاضر ہوتے رہے ہیں۔
اب نواز شریف اپنی پارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے ہیں تو اسکے لئے انہوںنے جمہوری راستہ اختیار کیا۔پہلے اپنی پارٹی کے دستور میں ترمیم کی،پھر پارلیمنٹ کے ذریعے آئینی اصلاحات کیں ، اب وہ عدالت سے نااہل ہونے کے باوجود اپنی پارٹی کے سربراہ بننے کے اہل ہو چکے ہیں بلکہ اس منصب کے لئے منتخب ہو چکے ہیں۔
کسی نااہل یا سزایافتہ کے لئے سیاسی پارٹی کا منصب سنبھالنے کی یہ پہلی، نادر یا واحد مثال نہیں۔ اندرا گاندھی کو ایک انتخابی عذر داری میں نااہل کیا گیا مگر وہ برابر کانگرس کی صدر رہیں، مشرف کو معزول ا ور برطرف کر دیا گیا تھا مگر انہوںنے اپنے آپ کو خود ہی بحال کر لیاا ور اگلے دس گیارہ برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد کہاگیا مگر دنیا نے اسی شخص کو نوبل ا نعام بھی دیا، یاسر عرفات کو دہشت گرد کہا گیا مگر اسی شخص کو اقوا م متحدہ کی جنرل ا سمبلی میں مدعو کر کے خطاب کی دعوت دی گئی۔سقراط کو زہر کا پیالہ پلایا گیا مگر اسے مارا نہیں جا سکا، بھٹو کو پھانسی دی گئی مگر اسے مارا نہیں جا سکا۔ بے نظیر کو دہشت گردی کا شکار کیا گیا مگر وہ زندہ ہے اور پائندہ ہے، یہ سب امر ہیں۔ کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن کی تاریخ میںکوئی وقعت نہیں ہوتی۔
بہر حال اطمینان کی بات یہ ہے کہ نواز شریف آئینی ، جمہوری، سیاسی آپشن استعما ل کر رہے ہیں۔ انہوںنے نہ عدلیہ سے ٹکر لی ہے، نہ پس پردہ قوتوں سے۔ اب وہ نیشنل ڈائیلاگ کی بات کر رہے ہیں۔یہی راستہ انہوںنے میثاق جمہوریت کی صورت میں اختیار کیا۔ اور ماضی کی غلطیوں کا کھل کر اعتراف کیا کہ دونوںپارٹیاں خفیہ طاقتوں کے ہاتھوںمیں کھیلتی رہی ہیں، انہوںنے عہد کیا کہ آ ئندہ ایسی غلطی نہیں کریں گے ، نواز شریف نے اپنا عہد نبھایا، زرداری حکومت کو پانچ سال پورے کروائے۔ زرداری البتہ ان کے ساتھ کھڑے نہیں رہ سکے۔ ا نہیں احساس ہونا چاہئے کہ الگ الگ کر کے سیاستدانوں کا قلع قمع کرنا آسان ہو جائے گا۔
نواز شریف نے فیصلہ تو مان لیا مگر اس فیصلے پر قانون کے د ائرے کے اندر رہتے ہوئے انہیں رد عمل دکھانے کا پورا پورا حق حاصل تھا ، چنانچہ وہ جی ٹی روڈ پر نکلے اور عوام کے جم غفیر نے ان کا استقبال کر کے ثابت کیا کہ انہیں نا اہلی کا فیصلہ منظور نہیں۔لاہور کے ضمنی الیکشن نے جی ٹی روڈ کے فیصلے پر مہر توثیق ثبت کر دی،حالانکہ ان کے خلاف ملک کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں میدان میں جمی کھڑی تھیں۔ووٹنگ میں رکاوٹ ڈالی گئی، فوج کو طلب کیا گیا جس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔بہر حال بیگم کلثوم نواز ہسپتال کے بستر سے سرخرو ٹھہریں۔ یہ تمام شواہد ان قوتوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھے جو نواز شریف کو نشان عبرت بنانے پر تلی بیٹھی ہیں، نواز شریف کا احتساب ضرور کیجئے مگر یہ احتساب ان کے اکیلے کا نہیں ہونا چاہے، اس سے انتقام کی بو آتی ہے۔ پانامہ کی لسٹ میں (4 سو) سے زائد پاکستانیوں کے نام ہیں ، کرپشن میں پٹواری ، تھانہ منشی سے لے کر اوپر تک ہر کوئی لتھڑا ہوا ہے۔ان سب کو احتساب کے شکنجے میںنہ لانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جو کوئی بھی احتساب کا سلوگن لگا رہا ہے، وہ لوگوں کو نہیں ۔ صرف اپنے ا ٓپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ اسحق ڈار بھی نواز شریف فیملی کا حصہ ہیں، سعید احمد سے بھی ان کے گھریلومراسم ہیں۔ان سب کو احتساب کی لاٹھی سے ہانکنا اور باقی کرپٹ عناصر کو کھلی چھٹی دیئے رکھنے سے کوئی شخص اس عمل کو شفاف نہیں کہے گا، جنرل مشرف پر تو امریکہ الزام لگا رہا ہے کہ وہ وار آن ٹیرر میں پیسے کھا گیا، اسی جنرل پر بے نظیر قتل کیس ہے، دیگر فوجی جرنیلوںکے رشتے داروں پر شہیدوں کے پلاٹ کھانے کے الزامات ہیں مگر انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ احتساب کا مزہ تو تب ہے جب نیب اور عدلیہ کے سامنے ہر کسی کا کیس پیش ہو اورہر کیس پر اسی تیزی اور شتابی سے فیصلہ آئے۔
اگلی بات یہ ہے کہ نواز شریف نے اپنی نااہلی کے راستے کی رکاوٹ تو جمہوری، پارلیمانی اور سیاسی طریقے سے پھلانگ لی، وہ پارٹی کے دوبارہ صدر بن گئے ، اب مجھے وہ دن زیادہ دور نظر نہیں آتا جب وہ وزارت عظمی کے منصب پر بھی پھر سے براجمان ہو سکیں گے۔ ننانوے میں انہیں جیلوںمیں ڈالا گیا، جلا وطن کیا گیا، تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے پر قدغن عائد کی گئی ، مگر یاد رکھئے ، سیاست دان کو راستے سے ہٹانے کا صرف ایک راستہ ہے کہ ا سے الیکشن میں چت کیا جائے، فی الوقت توایساچانس بھی نظر نہیں آتا کہ آج فوری لیکشن ہو جائے یا اگلے برس مئی جون میں تو ن ان میں ناقابل شکت نواز شریف کو چت کیا جا سکے ۔سیاستدان سے جان چھڑانی ہو تو اسے پھانسی بھی دی جا سکتی ہے، دہشت گردی کا نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے، آدھا ملک توڑ کر بھی کسی مخصوص سیاستدان سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے، دیکھئے نواز شریف کے خلاف جنگ کیا رخ کرتی ہے، نواز شریف کی البتہ کوشش یہی ہے کہ سیاسی، پارلیمانی، جمہوری عمل کو بالادستی حاصل رہے اور اصول کا تقاضہ یہی ہے کہ یہ راستہ ملک کی سلامتی،بقا، سیکورٹی اور استحکام کے لئے ناگزیر ہے۔