خبرنامہ

پانامہ لیکس۔۔ حمزہ شہباز کی استقامت کوخراج تحسین۔۔۔اسداللہ غالب

سلطان میسور کو تاریخ شیر میسور کے نام سے یاد کرتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کا نشان بھی شیرہے۔
تحریک انصاف نے میرے کالموں کے جواب میں جن گالیوں سے مجھے نواز اہے،اس نے مجھے بھی شیر بنا دیا ہے۔
آج مجھے حمزہ شہباز کا ذکرکرنا ہے جس کا نام پانامہ لیکس میں نہیں آیا، ویسے حمزہ کے والد شہباز شریف کا بھی کوئی ذکر پانامہ لیکس میں نہیں ہے۔
مگر حمزہ شہبازکا ذکر کرتے ہوئے مجھے شیر میسور کی یادکیوں آئی، یہ بلا وجہ نہیں ہے۔
ایک نامور ہندو مفکرنے شیر میسور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر سلطان میسور ہندو ہوتا تو اسے ہم شیو اجی کامرتبہ دیتے۔ یہ ہے خراج تحسین دشمنوں کی طرف سے۔
یہ بھی سلطان میسور کا قول ہے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی ،گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔
.یہ سب کچھ آپ کے علم میں ہے مگر شاید آپ کو یاد نہ ہو کہ انگریزوں کے خلاف تیسری جنگ میں دو ہفتے کے محاصرے کے بعد سلطان کو صلح نامے پر مجبور ہونا پڑا تھا، اس صلح نامے کی رو سے اسے سلطنت کے وسیع علاقے سے دست بردار ہونا پڑاا ور اپنے دو بیٹے دشمن کو یرغمال کے طور پر حوالے کرنے پڑے۔
حمزہ شہباز نے بھی شیر میسور کے انہی دو بیٹوں کی طرح جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹرکے یرغمالی کی حیثیت سے کئی برس گزارے۔یہ وہ وقت تھا جب شریف خاندان کو جلا وطن کر دیا گیا تھا،اور شرط یہ تھی کہ وہ دس برس تک وطن واپس نہیں آ سکیں گے، جدے میں جلاوطنی کے دور میں شریف خاندان کے بزرگ نے وفات پائی اور ان کے بیٹوں اور خاندان کے دیگر افراد کو میاں محمد شریف کے جنازے ا ور تدفین تک میں شمولیت کی ا جازت نہ دی گئی۔
یہ قیامت سے بڑھ کر قیامت کامنظر تھا ۔
شریف خاندان کی جلاوطنی کے زمانے میں اکیلا حمزہ شہباز شریف پاکستان مں تھا، اسے ضمانت کے طور پر یہاں رکھا گیا تھا، یہ ایک ڈکٹیٹر کی شرط تھی ، حمزہ شہباز کو کم سنی میں ایک ابتلا سے گزرنا پڑا،۔ نہ اس کے پاس والدین میں سے کوئی تھا ، نہ کوئی اور بہن بھائی۔سبھی اس سے ہزاروں میل کی دوری پر تھے۔حمزہ کو یہ اجازت بھی نہ تھی کہ وہ جدہ جا سکے ا ور اپنے والدین کے پاؤں چھو سکے۔ اس کے والد شہباز شریف نے بڑی کوشش کی تھی کہ وہ جلا وطنی ا ختیار نہ کریں مگر انہیں زبردستی جہاز پر بٹھا دیا گیا تھا۔میاں شہباز کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے، کمر کی تکلیف الگ تھی، انہیں علاج کے لئے نیویارک کا سفر کرنا پڑا۔ اور وہ اس پردیس میں تنہا تھے۔جی ہاں یکہ و تنہا۔
لاہور میں ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے قلب وجگر پر کیا کیا بجلیاں گر رہی تھیں، اور اس کا والد اپنے آپ کو کس حد تک مجبور محض سمجھ رہا تھا، اس کا احساس ڈکٹیٹر کو نہیں تھا۔
حمزہ شہباز سے اس کا آبائی گھر بھی چھین لیا گیا تھا۔ وہ چھت کے سہارے سے بھی محروم کر دیا گیا تھا، اس کے خاندان کی صنعتی ایمپائر کا بڑا حصہ حکومت کے کنٹرول میں چلا گیا تھا، اس نوجوان کو اپنی روزی روٹی کے لئے بھی ہاتھ پاؤں مارنے تھے اور زمانے کے گرم و سرد تھپیڑوں کو بھی برداشت کرنا تھا۔
تاریخ کا پہیہ بڑا بے رحم ہوتا ہے مگر حمزہ نے اس جبر کا مقابلہ استقامت کے ساتھ کیا۔ نہ اس نے کوئی چیخ وپکار کی، نہ چاہ یوسف سے کوئی صدا بلند کی۔نہ ا س نے فرار کی کوئی کوشش کی۔ آج ذرا زرداری صاھب کو دیکھئے جو کہتے تھے کہ ہم نے ہمیشہ رہنا ہے ا ور جرنیل نے تین برس بعد چلے جانا ہے،جو کہتے تھے کہ اسے چھیڑا گیا تو وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ، سب کچھ زیرو زبر کر کے رکھ دیں گے مگر وقت آیا تو دم دباکر بھاگ نکلے۔ اور ایک حمزہ شہباز کو دیکھئے کہ اس نے کس پہاڑ جیسے حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ تاریخ جب کبھی دلیر انسانوں کی فہرست مرتب کرے گی تو اس میں حمزہ شہباز کا ذکر ضرور ہو گا۔
آج حسین نواز اور حسن نواز اور مریم نواز پر الزامات دہرائے جا رہے ہیں مگر کوئی حمزہ شہباز پر انگلی نہیں اٹھا سکا۔حسین ، حسن اور مریم پر الزامات کا نتارا بھی ہو ہی جائے گا مگر اسی خاندان کے جس نوجوان کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگا تو وہ داد کا مستحق تو ضرور ہے۔اس کو شاباش نہیں دے سکتے تو کم از کم یہ تو مانئے کہ وہ ایک ثابت قدم نوجوان ثابت ہوا۔پانامہ لیکس میں اس کا کوئی ذکر نہیں آیا، یہ ا س کی ثابت قدمی اور استقامت کا ایک بین ثبوت ہے۔
چلئے اسے خراج تحسین نہ بھی پیش کریں، ایک مظلوم تو مانیں۔
رہا پانامہ لیکس کا قصہ تو اس لسی میں پانی ملاتے جائیں ، کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، کسی کو بدنام کر نے کے لئے پانامہ لیکس یا وکی لیکس کے حوالوں کی بھی کیا ضرورت ہے، بس منہ کھولیں اور زبان سے شعلے اگلیں اور سیاسی مخالفوں پرکیچڑ اچھالنا شروع کر دیں۔دھرنا دیں ا ور استعفے مانگ لیں، کچھ بھی ہاتھ نہ آئے تو ایک شادی ا ور رچا لیں۔یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
پانامہ لیکس نے جو دھول اڑانا تھی، اڑا لی، اصل میں تو پانامہ لیکس والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے، اگر ان کے سب دعوے سچے بھی ہیں تو بھی انہوں نے پرائیویسی کے قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے لوگوں کے بنک اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کر لی ہے، یہ تو ایک صریح جرم ہے،اور میرا اندازہ ہے کہ پانامہ حکومت نے ا سی جرم کی تحقیقات کاآغازکر دیا ہے۔ اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ ان الزامات کی جانچ پڑتال صحافیوں کا ایک گروپ کر چکا ہے تو سوال یہ ہے کہ صحافی ہونے سے یہ کہاں سے حق حاصل ہو گیا کہ آپ کسی کی پرائیویسی میں منہ ماریں، کیا کوئی صحافی میرے، آپ کے والدین یا شادی شدہ بہن، بیٹی کے بیڈروم میں کیمرہ نصب کر نے کا حق رکھتا ہے۔اور اسے ا س کی وڈیو چلانے کی اجازت دی جا سکتی ہے، اگر نہیں تو بادی النظر میں پانامہ لیکس میں ملوث صحافیوں کا اگلا مقام جیل ہے۔اوراس ڈرامے کا ڈراپ سین اسی منطقی انجام پر ہونا چاہیے۔
میرا ایک سوال پاکستانی میڈیا سے ہے، کیا پانامہ لیکس میں صرف تین نام ہیں، حسین، حسن اور مریم ، کیا دوسو اور لوگ بھی ا س فہرست میں شامل نہیں ، ان کے خلاف کیچڑ اچھالنے کی ہمت ہمارے صحافیوں کو کیوں نہیں ہو رہی۔بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو سیف اللہ سے ڈرتا ہے، جہانگیرتریں سے سے ڈرتا ہے۔
اوراگر حمزہ شہباز کا نام ا س فہرست میں نہیں ہے توہمارے میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس نوجوان کو خراج تحسین پیش کرے اور اسے مسٹر کلین کا سرٹی فیکیٹ عطا کرے جس کا وہ بجا طور پر مستحق ہے۔ میں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا۔اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر کی بے گناہی کے لئے بھی میں سینہ تان کر گواہی کے کٹہرے میں کھڑا ہوا، یہ میرا فرضتھا، کسی پر احسان نہیں۔میں اپنا فرض ادا کرتا رہوں گا۔بلا رو رعائت، بلا جھجک، اور بلا خوف و خطر۔