خبرنامہ

پانامہ لیکس کی دھول۔۔۔اسداللہ غالب

بھٹو کی برسی کے موقع پر پانامہ لیکس نے بھٹو کے المئے کا ذکر اذکارپس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ ا سلئے کہ لوگوں کو ایک بار پھر سوئس اکاؤنٹس، سرے محل اور قیمتی ہار یاد آگیا ہے ۔اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی میں شرکت کے لئے محترمہ بے نظیر نیویارک جا رہی تھیں، لندن سے جہاز روانہ ہوا تو نجم سیٹھی ہمارے وفد میں آن شامل ہوئے، وہ کہیں ہانگ کانگ یا سنگا پور سے طویل سفر کر کے آئے تھے۔ پروٹوکول کے مطابق آصف علی زرداری ہمارے کیبن میں آئے ا ور ایک ایک صحافی سے ہاتھ ملانے لگے، جب وہ نجم سیٹھی کے پا س پہنچے تو انہوں نے ان کی نیلی جینز کی پینٹ میں ہاتھ ڈال کر پوچھا کہ بتاؤ کہ تمہارے پیٹ میں زیادہ دولت ہے یا میرے پیٹ میں۔کیبن میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔نیویارک سے واپسی کے سفر میں محترمہ نے مجھے ، حامد میر، چودھری غلام حسین اور سید سجاد بخاری کو اپنے مخصوص کیبن میں مدعو کیا، وہ پھنکار رہی تھیں کہ میڈیا غلط سلط رپورٹ شائع کر رہا ہے ا ور ان کی بیرون ملک دولت کے بارے میں من گھڑت قصے اچھال رہا ہے۔میں نے محترمہ سے کہا کہ جہاں تک میرے اخبار نوائے وقت کا تعلق ہے تو اس نے نہ کسی خبر میں نہ کسی ا دارتی تجزئے میں ان الزامات کا ذکر کیا ہے، سجاد بخاری صاحب آپ کی پارٹی کے اخبار مساوات کے ایڈیٹر ہیں، حامد میر سے آپ کی دوستی ہے تاہم میں نے ان کے اخبار جنگ میں بھی ایسی کوئی خبر ابھی تک نہیں دیکھی، غلام حسین ایک زمانے میں جنرل ضیا الحق کی آنکھ کا تارا تھے، اب شاید آپ کی آنکھ کا تارا بن گئے ہیں،ا سلئے آپ جو باتیں کر رہی ہیں ، ان کا ہم چاروں سے کوئی تعلق نہیں، بہتر یہ ہو گا جو اخبار یا ایڈیٹر یہ خبریں چھاپ رہا ہے، آپ انہی سے بات کریں اور میڈیا کو بحیثیت مجموعی گالی نہ دیں کیونکہ یہ خلاف حقیقت ہے، میں نے یہ بھی کہا کہ آپ کے خاوند آپ سے زیادہ دلیر ہیں، انہوں نے پچھلے حصے میں بیٹھے نجم سیٹھی کی پینٹ کھینچ کر سوال کیا تھا کہ کس کے پیٹ میں زیادہ دولت ہے،ظاہر ہے انہی کاا خبار ایسی خبریں شائع کر رہا ہے،آپ بھی انہیں بلالیں ا ور ان سے احتجا ج کر لیں،محترمہ نے ایساہی کیاا ور نجم سیٹھی ایک عرصے تک مجھ سے ناراض رہے کہ آپ نے میری حجامت کروا دی، میرا کہنا تھا ،کہ ہم لوگ صرف آپ کی وجہ سے ایک وزیرا عظم کی بے جا تنقید کیوں سنیں، آپ جانیں اورو زیر اعظم جانیں۔
ایک زمانہ گزر گیا، نجم سیٹھی نے کئی پلٹے کھائے اور اب بھی وہی بتا سکتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو اور زرداری کے فرانسیسی محلات کہاں گئے، ان کی سوئس دولت کون لے اڑااور ان کا طلائی ہار کس کے گلے میں ہے۔مشرف دور میں محترمہ نے حکومت سے ایک ڈیل کی، اسے این آرا و کا نام دیا گیا، مطلب یہ تھا کہ محترمہ پر اب کوئی الزامات نہیں ہیں اور ان سے کسی طرح کی باز پرس نہیں کی جائے گی، ان تمام جرائم میں شریک آصف علی زرداری ملک کے منصب صدارت پر پانچ برس تک فائز رہے، ان کے دور میں ایک چیف جسٹس نے این آرا و کو کالعدم قرار دے دیا اور وزیر اعظم سے کہا کہ وہ زرداری کے خلاف سوئس مقدمات کو زندہ کرنے کے لئے چٹھی لکھیں ، وزیر اعظم نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا ، ان کا خیال تھا کہ منصب صدارت زرداری کو ہر قسم کے احتساب سے تحفظ دیتا ہے مگر چیف جسٹس نے اس دلیل کو قبول نہ کیاا ور توہین عدالت کے جرم میں وزیرا عظم کی چھٹی کرا دی۔
یہ تھا سوئس اکاؤنٹس اور دیگر الزامات کا انجام۔اس کے بعد اب پانامہ لیکس میں ان کا ذکر آیا ہے مگر کیا فائدہ ، محترمہ ان الزامات کا جواب دینے کے لئے اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔
پانامہ لیکس نے وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کو آف شور کمپنیوں کے لئے مورد الزام ٹھہرایا ہے۔یہ کاروبار کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔غیر ملکی قوانین کی رو سے سرمایہ کاری کرتے ہوئے یہ سوال نہیں پوچھا جاتا کہ آپ یہ پیسہ کہاں سے لے کر آئے ہیں۔ہاں، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ پیسہ ڈرگ یا اسلحے کی تجارت یا دوسرے غیر قانونی ذرائع سے کمایاگیا ہے تو پھر متعلقہ قوانین حرکت میںآتے ہیں، اس ضمن میں ہم ایک ڈرامہ الطاف حسین کے خلاف کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں، ان کے گھر سے بہت بڑی رقم زرمبادلہ کی شکل میں برآمدہوئی۔ابھی تک ا س ڈرامے کا ڈراپ سین نہیں ہو اا ور خدشہ یہ ہے کہ کوئی نتیجہ سامنے بھی نہیں آ سکے گا۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کا خاندان سب کی نظروں میں ہے ، اگر ان میں سے کسی نے بھی منی لانڈرنگ کی ہوتی تو برطانونی قانون ضرور حرکت میںآتا، مگر حسین نواز نے کہا ہے کہ وہ جائز طور پر کاروبا کر رہے ہیں، بیرون ملک ان کی باز پرس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اندرون ملک ٹیکس قوانین کی رو سے وہ ایک غیر ملکی شہری ہیں ،ا سلئے یہاں ان پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ ٹیکس اسٹیٹ منٹ فائل کریں ا ور کسی کے سامنے جوابدہ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ٹیکس چوری کے جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔پانامہ لیکس کے مطابق مریم نواز کو حسین نواز کے کاروبار کا ٹرسٹی ظاہر کیا گیا ہے،ا گر یہ سچ بھی ہے تو ایک ٹرسٹی کسی صورت کاروبار کا مالک تصور نہیں کیا جاتا۔
شریف خاندان کے نقادوں کو ایک سوال کا جواب ضروردینا ہو گا کہ آپ ایک منتخب اور دو تہائی اکثریت کے حامل وزیر اعظم کی حکومت توڑتے ہیں ، پھر انہیں جلاوطنی کے عذاب میں دھکیل دیتے ہیں تو یہ کہاں لکھا ہے کہ وہ بیرون وطن بیٹھ کر سڑکوں پر بھیک مانگیں ، اگر ان میں ذرابھی قابلیت اور صلاحیت ہے تو وہ دوستوں کے عطیات کے ساتھ کوئی بھی کاروبار کر سکتے ہیں، خود میں نے سن دوہزار میں نیویارک کے چارا صحاب کے ساتھ مل کر ایک اخبار کی اشاعت کا اہتمام کیا، اس کاروبار کو امریکی قوانین کے تحت رجسٹر کیا گیا۔اورا سکا اکاؤنٹ بھی کھولا گیا۔بیرون ملک لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی موجود ہیں جو کوئی نہ کاروبار کر رہے ہیں اور ان میں سے بعض کے کارباری حجم پر ہم فخر کرتے ہیں۔
مگر ہمیں صرف اعتراض برائے اعتراض کی عادت ہے اور اس سے ہماری جان نہیں چھوٹ سکتی۔عمران خان تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں مگر عمران خان کے بارے میں بیرون ملک کئی ایسے سوالات ہیں جن کا وہ مارے شرمندگی کے جواب نہیں دے سکتے۔ اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔اور شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر نہ ماریں
خالی خولی بیانات سے رائی کا پہاڑ نہیں کھڑا کیا جا سکتا۔شریف فیملی پر پہلا وار بھٹو نے کیا۔پھر مشرف نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس کے گیارہ سالہ دور میں کوئی عدالت شریف فیملی کو ایک پائی کی کرپشن کا مجرم نہیں ٹھہرا سکی۔ایک فیملی کے احتساب کی تاریخ نصف صدی تک دراز ہو چکی ہے، بلیم گیم نے ملک کو عدم استحکام کے سوا کچھ نہیں دیا۔
پانامہ لیکس میں کوئی نئی بات نہیں ،ا س سے پہلے وکی لیکس بھی آ چکیں، ان کی وجہ سے دنیا کے منظر نامے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکی ۔پانامہ لیکس تو محض الزام تراشی کا پلندہ ہے پھر بھی پانامہ لیکس میں نواز شریف ا ور شہباز شریف پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔ تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔!!