خبرنامہ

پانامہ لیکس کی کیٹ واک۔۔۔اسداللہ غالب

یہ الفاظ قومی اسمبلی کی کاروائی سے تو حذف کئے گئے مگر عوام کے ذہنوں سے نہیں۔ اور اسپیکر قومی ا سمبلی کون کون سے الفاظ کہاں کہاں سے حذف کرتے پھریں گے۔
کہا یا رباش وزیر اطلاعات پرویز رشید نے، کہ اپوزیشن کی کیٹ واک لائق دید تھی ۔میں نے نوجوان دوست تنویر نذیر کے شہر وال طلال اورعابد شیر علی کا نام لیا، اور تنویر قیصر شاہد کے شہر وال دانیال کا نام بھی لیا، ان کی وجہ شہرت تنویر قیصر کے بجائے انور عزیز چودھری ہیں۔ میری رائے تھی کہ ان تینوں کی زبان ان کے قابو میں نہیں لیکن اگر وہ بے لگام نہ ہوتے تو عمران خان کو لگام کون ڈالتا۔میں اب اپنی رائے بدلتا ہوں، چوسنی گروپ کی پھبتی ان پرصادق نہیں آتی، وہ تو مہا گرو نکلے، ان کا ڈسا تو پانی بھی نہیں مانگتا اور عمران کو تقریر کرتے جس کسی نے سرکاری ٹی وی پر دیکھا، وہ حیران تھا کہ کپتان کے ہونٹ کیوں خشک ہو رہے تھے۔
مگر پرویز رشید کی مار کوئی کوئی سہہ سکتا ہے، وہ گجھی مار مارتے ہیں،سننے والے سمجھتے ہیں کہ مزاحیہ جملہ بولا ہے ، مگر یہ مزاح نشانے پر پہنچتا ہے تو میزائل کی طرح پھٹتا ہے۔ عمران کو تو اس پر احتجاج کی بھی ہوش نہ تھی، وہ تواللہ بھلا کرے خورشید شاہ نے چیز الیا کہ کیٹ واک کا لفظٖ مناسب نہیں۔ اور اسپیکر عمران کی مد دکو آئے ، انہوں نے کیٹ واک کا لفظ کاروائی سے حذف کر دیا مگر لوگ اس لفظ کو اور اس کے محل استعمال کو انجوائے کرتے رہیں گے۔برا ہو سرکاری ٹی وی کا اس نے وہ منظر نہ دکھایا جسے شاعر نے کہا تھا کہ بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے۔
پرویز رشید کو زبا ن و بیان پر مکمل عبور حاصل ہے، ہم نے کئی وزیر ا طلاعات دیکھے اور بھگتے مگر جو انفرادیت پرویز رشید کی ہے، وہ کسی اور کو حاصل نہ ہو سکی، ان کا لوہا مخالفین بھی مانتے ہیں اور اس کا ثبوت ان کا یہ اعتراض ہے کہ پی آئی ڈی کو سرکاری پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، حیرت ہے کہ پی آئی ڈی کاا ور کام کیا ہے، وہ حکومت کا ڈھول نہیں بجائے گی تو کیا عمران خان کے جلسوں میں کرسیاں سیدھی کرے گی یا ڈی جے بٹ کے ڈھول اٹھائے گی یا عمران کے لئے تیسری دلہن تلاش کرے گی ، یہی اعتراض آئی ا یس پی آر پر کیا جاتا ہے کہ وہ پاک فوج کا ڈھول پیٹتا ہے ، تو کیا جنرل باجوہ بھارتی فوج کا ڈھول پیٹیں۔پرویز رشید کو ایک بہترین ٹیم میسر ہے ، سیکرٹری اطلاعات عمران گردیزی ا ور پی آئی او راؤ تحسین نے وہ کام کر دکھایا ہے ا ور ٹیم ورک کے طور پر کیا ہے کہ مخالفین انگشت بدنداں ہیں، اس ٹیم کی سربراہی پرویز رشید کے پاس ہے، یہ بھی تین آدمی ہیں اور سیاسی ٹیم کے بھی تین آدمی ہیں ، ان ٹیموں نے مل جل کر مخالفین کا بھرکس نکال دیا ہے اور انہیں دن میں تارے دکھا دیئے ہیں۔رن آؤٹ بھی کیا اور ناک آؤٹ بھی۔
پرویز رشید دوستوں کے دوست ہیں اور دشمنوں کے ساتھ دشمنی نبھانے کا بھی ان کاا پنا ایک سلیقہ ہے۔پہلے وہ پانچ سال شہباز شریف کے ساتھ کام کرتے رہے، وہ ان کے غیرا علانیہ نفس ناطقہ تھے اور اب توانہوں نے وزیرا عظم کے دفاع کا حق ادا کر دیا ہے۔وہ گروپ بندی کے قائل نہیں، نہ وہ کسی سے حسد کرتے ہیں، نہ ان کا کوئی حاسد سامنے آیا ہے، ہاں ، تحریک انصاف ان کی صلاحیتوں پر رشک ضرور کرتی ہے۔
یہ دور آزادی صحافت کے کلائمیکس کا ہے۔ ایک طرف نت نئے ٹی وی چینل دھاڑ رہے ہیں، دوسری طرف پرنٹ میڈیا میں گوناں گوں تبصرے ہیں اور تیسری طرف بیرونی مفادات کے لشکروں کی یلغار ہے۔ پرویز رشید کے ہوتے ہوئے ابھی تک کوئی چھو ٹا بڑاٹکراؤ بھی سامنے نہیں آیا۔ کوئی صحافی جیل نہیں گیا، کسی اخبار رسالے کا ڈیکلریشن ضبط نہیں ہوا، کسی پریس کی تالہ بندی نہیں کی گئی ۔پیمرا کے اپنے اصول اور ضابطے ہیں اور چینلز مالکان کے لئے اس نے بھی کوئی بڑابحران کھڑا نہیں کیا۔دھرنے کے دوران ہر شخص کو گالی گلوچ تک کی آزادی تھی، پرنٹ ا ور الیکٹرانک میڈیا دونوں پر۔ اب سوشل میڈیا کا نیا دور شروع ہوا ہے، ایک ٹویٹ سے ہیڈ لائینیں بن جاتی ہیں ، اور دن رات ایک حشر بپا ہے، اس شور میں تحریک انصاف والے منہ زور دکھائی دیتے ہیں مگر اچھا ہوا کہ حکومت ان کی زبان میں ان کاجواب نہیں دیتی ، ویسے سوشل میڈیا کی کوئی اخلاقیات نہیں،اردو، پنجابی اور انگریزی یا ہندی میں کسی کو بھی بے نقط سنائی جا سکتی ہیں۔ حکومت اس میدان میں محتاط قدموں سے چل رہی ہے ۔ وہ چاہے تو گندی زبان استعمال کرنے والوں کو پکڑ کر حوالات کا رستہ دکھا سکتی ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی ڈیجیٹل شناخت کو چھپا سکتا ہے تو ٹیکنالوجی کے ریڈار سے وہ ہر گز نہیں چھپ سکتا۔ مگر حکومت نے یہ ریڈار چالو ہی نہیں کیا۔ موجاں کرو۔آپ کو ایک ا یسا وزیراطلاعات مل گیا ہے جو ٹھندا ٹھار ہے۔اور سدا بہار ہے۔
اپنے دھیمے اور ٹھہرے لب و لہجے کے ساتھ پرویز رشید نے ایک ایسی جنگ جیت لی ہے جو ابتدا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی جا رہی تھی۔ عمران خان پھنکار رہا تھا ، زرداری کو انتقام کا موقع مل گیا تھا اورا س نے تازہ دم بلاول کا رسہ کھول دیا جس نے استعفے کے مطالبے کو اس تواتر سے دہرایا کہ لوگوں کو اس نومولود پر ہنسی آنے لگی، مگر خورشید شاہ کا کچھ پتہ نہ چل رہا تھا کہ وہ کس کی بولی بول رہا ہے،ا سی لئے اس سے سوال کیا گیا ہے کہ وہ میٹر ریڈر سے ترقی کرکے دولت مند کیسے بن گیا۔ حکومت نے اسی زبان میں جواب دیا جو اپوزیشن نے ایجاد کی تھی، اپوزیشن کے لئے ا س زبان کو سمجھنا مشکل نہ تھا ، اب وہ آئیں بائیں شائیں کر رہی ہے، بغلیں جھانک رہی ہے، مگر گریبان میں منہ ڈالنے کے لئے ابھی بھی تیار نہیں۔ اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں۔ٹاک شوز میں پرویز رشید سے اپوزیشن کا ٹاکرا جاری ریا تو پانامہ لیکس کا قصہ بر سر زمین طے ہو جائے گا۔ اپوزیشن کو اس کی اپنی پڑ جائے گی، وہ صفائیاں دیتی رہے گی اور کوئی ا س کی سننے والا نہیں ہو گا۔اسے کہتے ہیں بولتی بند کرنا۔
اسی لئے میں نے کہا کہ پرویز رشید جیسا وزیر اطلاعات کوئی کوئی ہوتا ہے۔ہر کوئی نہیں ہوتا۔