خبرنامہ

پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے روشنی کی کرن …. اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

وزیر اطلاعات و ثقافت مریم اورنگزیب نے اپنی ایک ٹویٹ میںکہا کہ انہیں یہ اعلان کرتے ہوئے اتنی خوشی ہو رہی ہے کہ پہلی بار فلم فنانس فنڈ اور فنکاروں کے ہیلتھ انشورنس کے لیے فنڈزمختص کیے گئے ہیں ۔ فلم فنانس فنڈ کے لیے 2 ارب روپے اور فنکاروں کے ہیلتھ انشورنس کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ انہیں یقین ہے کہ مشترکہ طور پر یہ اقدامات ہماری فلم انڈسٹری کی ترقی اور ہمارے ملک کے فنکاروں کی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کریں گے ۔ یہ فلموں کے ذریعے پاکستان کے بیانیہ، ورثے اور ثقافت کے فروغ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اسکرین ٹور ازم کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کریں گے ۔

حالیہ بجٹ تقریر میں نے بڑے غور سے سنی تھی ہر سال کی طرح یہ بھی لائیو نشر ہوئی،میں اس وقت حیران و ششدر رہ گیا اور میں نے ذہن پر زور ڈالا ،اس حکومت میں وہ کونسی ہستی ہے جو پاکستانی فلم کے تن مردہ میں نئی جان ڈالنے کی تمنا سے سرشار ہے ۔بہرحال وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ فلم انڈسٹری کے احیا کے لیے کئی اقدامات کیے جائیں گے مثلاًسنیما آپریشنز کو پانچ سال کے لیے ٹیکس سے چھوٹ دے دی گئی ہے ۔فیچر فلم انڈسٹری سے آمدنی پر بھی پانچ سال کے لیے اور سنیماٹوگراف آلات کی در آمد پر ایڈوانس ٹیکس سے پانچ سال کی چھوٹ دی گئی ہے ۔ڈسٹری بیوٹر، پروڈیوسر یا امپورٹر کو ادائیگیوں پر روک سے استثنیٰ اور غیر ملکی ٹی وی ڈراموں اور اشتہارات پر اعلیٰ ایڈوانس ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ سنیما ٹوگرافی کی درآمدات اور فراہمی پر سیلز ٹیکس سے پانچ سال کی چھوٹ اور ان پر کسٹم ڈیوٹی کی زیرو ریٹنگ عائد کردی گئی ہے ۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے یہ اعلانات سن کر خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی کہ کوئی تو ہے جو اس شعبے کا ہاتھ تھام رہا ہے۔میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں اور پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتاہوں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان بننے کے ایک سال بعد ہمارے یہاں پہلی فلم ریلیز ہوئی اور پھر چل سو چل۔ اردو ، پنجابی ، پشتو اور دیگر زبانوں میں فلمیں بننے لگیں اور وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان فلم انڈسٹری اپنے عروج سے ہمکنار ہوئی ۔یہ کالم پاکستانی فلم کی تاریخ پر تو نہیں ہے لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی فلموں نے بھارت کی فلموں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور ہمارے فلمی اداکاروں اور اداکاراﺅں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور برصغیر کی فلمی دنیا میں بڑا نام پیدا کیا ۔میں یہاں فلم انڈسٹری کے چند یادگار کرداروں کانام ضرور لینا چاہوں گا ان میں سنتوش کمار ، نور جہاں ، رمیضہ ،انجمن ، سبیحہ خانم ، محمد علی ، زیبا ،دحید مراد ، ندیم ، مصطفی قریشی ، نیلو ، شبنم ،جاوید شیخ نے اپنی سحر انگیزی سے برسوں تک فلم بینوں کے دلوں پر راج کیا ۔ہماری کلاسیکل فلمیں آج بھی بہترین شمار ہوتی ہیں ،مجھے فلم مولا جٹ میں مصطفی قریشی کے یہ دو مکالمے یاد آتے ہیں ۔ایک مکالمہ ہے مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مردا ۔دوسرا مکالمہ جو زبان زد عام ہوا وہ تھا نواں آیاں ایں سوہنیا۔ ہماری فلم انڈسٹری معاشرے کے باقی شعبوں کی طرح زوال کا شکار ہونے سے نہ بچ سکی اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔ایک تو یہ کہ ہماری فلمیں ہماری حقیقی زندگی کی عکاس نہیں تھیں ۔ان میں کسی خوابوں کی دنیا کا ذکر ملتا تھا ۔ہماری فلموں کے ہیرو اور ہیروئن بار بار گانے گانے لگتے اور رقص کرنے لگتے ۔ہمارے دیہی یا شہری معاشرے میں اس طرح کے واقعات کبھی نہیں ہوئے ۔ ایسی فلموں نے الٹا معاشرے کا مزاج بگاڑنے کی کوشش کی ۔فلموں کے ہیرو تو مار دھار کے اتنے ماہر تھے کہ وہ کشتوں کے پشتے لگا دیتے تھے ۔کھیتوں میں ہر طرف گھوڑے ہی نہلاتے تھے پتا نہیں یہ کس خیالی دنیا کی باتیں کی جا رہی تھیں ۔فلموں کے زوال کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اس صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والا خال خال تھے جبکہ ہمارے مقابلے میں بھارت میں فلموں کا بجٹ کروڑوں اور اربوں کو چھو رہا تھا ۔ تیسری بڑی وجہ یہ بنی کہ ہماری فلموں کا سکرپٹ لکھنے والے تخلیقی صلاحیتوں سے عاری تھے ۔چوتھی وجہ چھوٹی سکرین بنی۔پی ٹی وی نے بڑی سکرین کو ڈکار لیا ۔پی ٹی وی کی اسکرپٹ رائیٹر اور ادا کار بے پناہ صلاحیتوں کے حامل تھے ۔میں اگر صرف ایک ڈرامے وارث کا ذکر کروں تو جس دن اس کی قسط چلتی لاہور کے قریبی بھارتی شہر امر تسر کے بازار بھی ویران ہوجاتے اور لوگ اپنی ٹی وی اسکرینوں پر نظر جما کر بیٹھ جاتے ۔فاطمہ ، ثریا بجیا سے لے کر امجد اسلام امجد اور عطا ءالحق قاسمی تک ڈرامے تخلیق کرنے والوں نے ایک نئی تاریخ رقم کر ڈالی جس کی وجہ سے شہروں اور قصبوں کے سینما گھروں اور شاہ نور جیسے فلمی اسٹوڈیوز میں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے ۔کچھ سینما تو تھیٹر میں تبدیل ہوگئے اور کچھ سپر سٹوروں کے کام آئے ۔ بعض سینما گھر گرا کر وہاں فلیٹ اور دکانیں بنا دی گئیں ۔ایک وقت ایسا آیا کہ پاکستانی فلم کا نام و نشان ہی مٹ گیا ۔اب ہم صرف ماضی کے ورثے پر ہی فخر کر سکتے ہیں ۔

شکر ہے کہ پاکستان کی کسی حکومت کو فلمی صنعت کی زبوں حالی کا احساس ہوا اور اس کے احیا کے لیے اس حکومت نے قابل ذکراور مثالی اقدامات کا اعلان کیا ہے ۔اب یہ فلمیں بنانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ ان اقدامات سے کیا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔پوری دنیا میں فلم انڈسٹری کو بے پناہ چیلنج در پیش ہیں اس کے باوجود امریکہ یورپ اور ہمارے پڑوس بھارت میں سپر ہٹ فلمیں بن رہی ہیں ۔بس ہم ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

حکومت نے اپنا کردار ادا کردیا۔ اب ہمارے زرخیز ذہنوں کو یہ چیلنج قبول کرنا چاہئے ۔