خبرنامہ

پاکستانی وکی لیکس اور میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاکستانی وکی لیکس اور میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر

پاکستانی وکی لیکس کا سلسلہ چند روز پہلے شروع ہوا ایک ہی کیبل تین روز کے وقفے سے دوبارہ چلائی گئی، اس خیال سے کہ پہلی کیبل پر کسی کی نظر شاید نہ پڑی ہو۔ یہ وکی لیکس میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کے بارے میں ہیں۔ وہ 1971 کی جنگ میں شہادت کے عظیم مرتبے پر سرفراز ہوئے، اس بات کو چالیس برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اپنے شہیدوں کا تذکرہ جتنا بھی کیا جائے کم ہے اورنئی نسل کے لیے توان کے عظیم کارناموں کو بار بار اجاگر کرنا اور بھی ضروری ہے لیکن وکی لیکس میں میجر شبیر شریف کے ایک جرم کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور ان سے یہ جرم نشان حیدر حاصل کرنے سے پہلے سرزد ہوا۔ میجر شبیر شریف کا جو جرم پاکستانی وکی لیکس نے دو مرتبہ دہرانے کی ضرورت محسوس کی ہے، وہ ہے ایک ٹریفک حادثہ جس میں کسی کی جان نہیں گئی بلکہ خودشبیر شریف کی ٹانگ پر زخم آئے البتہ فوجی جیپ کو ضرور خراشیں آئیں۔ میجر شبیر نے جیپ کی مرمت اپنی جیب سے کروادی اور جس سویلین گاڑی کو حادثے میں نقصان پہنچا تھا، اس کا نقصان بھی خود ہی پورا کردیا گرفوج کے نظام کے تحت ان کے خلاف انکوائری چل پڑی تھی۔ یہ انکوائری مشہور زمانہ کمانڈو بریگیڈیئر ٹی ایم کے پاس بھی گئی اور ایک اور افسر کو بھی انکوائری افسر مقرر کیا گیا جس نے انکوائری سے معذرت کر لی وکی لیکس میں اس معذرت کی وجہ بیان نہیں کی گئی مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد ایک میجر جنرل نے سزا کے طور پر میجر شبیر کی سینیارٹی میں چھ ماہ کی کمی کردی۔
فوج اور سول کی زندگی میں ٹریفک حادثات روز کا معمول ہیں، سی حادثے پرکسی کو سزامل جاتی ہے اورکسی حادثے کا مجرم سزا سے بچ نکلتا ہے۔ میجر شبیر شریف کو ان کے جرم کی سزا مل گئی تو آج چالیس برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعداس حادثے پر مبنی کیبل افشا کرنے کا مقصد کیا ہے۔ یہ سجھنے کے لیے ذہن پر زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ ٹریفک حادثہ اور وہ بھی جس میں کسی شخص کا نقصان نہیں ہوا، اس کے تذکرے کی ضرورت کیا اور کیوں پڑ گئی۔ کیا صرف اس لیئے کہ ایک تو میجر شبیر نشان حیدر پانے والا قوم کا ہیرو ہے۔ دوسرے وہ موجودہ آرمی چیف کا بڑا بھائی ہے، ایک طرف تو ہیرو کامذاق اڑا کر قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاسکتی ہے۔ مشرف دور میں نہ جانے ہمارے میڈیا کے سر پر کیا بھوت سوار ہوا کہ فوج کی تحقیر کے لیئے راشد منہاس شہید نشان حیدر کا یہ کہ کر مذاق اڑایا گیا کہ ان کے واقعہ میں اصل ہیرو بنگالی ہوا بازتھا جسے بنگلہ دیش کی حکومت نے بعد از مرگ بہادری کا سب سے بڑا اعزاز دیا۔ راشد منہاس کے بعد اگلا ٹارگٹ میجر شبیر شریف ہے جس کے ٹریفک حادثے کا تذکرہ تین دن کے وقفے سے دہرایا گیا ہے، اس سے موجودہ آرمی چیف کوکس قدر کوفت محسوں ہوئی ہوگی، اس کا علم صرف انہیں ہی ہو سکتا ہے۔ میں پانچ سو کلومیٹر دور بیٹھاان کی نفسیاتی،ذہنی اورقلبی کیفیت کو پڑھنے سے قاصر ہوں۔ پاکستانی وکی لیکس کا خالق انتہائی خوش نصیب ہے۔ ایک ہی روز اسے اور اس کے والد کو بنگلہ دیش اور پاکستان نے اعلی ترین سول اعزازات سے نوازا۔ والد صاحب کو تمغہ چالیس برس گزر جانے کے بعد عطا کیا گیا ہے، ان کی سائی نیشن میرے سامنے نہیں ہے۔ لیکن یہ وہی جنگ ہے جس میں میجر شبیر شریف نے مغربی محاذ پر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی فوج کے دانت کھٹے کیئے تھے اور یہی بھارتی فوج مشرقی محاذ پر پاک فوج سے نبردآزما تھی اور جس نے قائداعظم کے پاکستان کو دولخت کیا۔ اس جارحیت کے بطن سے بنگلہ دیش نے جنم لیا جو آج ایک طرف اپنے تمغے ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہا ہے، دوسری طرف کچھ لوگوں کو پھانسی چڑھارہا ہے۔
پاک فوج آج بھی بھارتی جارحیت کی زد میں ہے۔ بلوچستان میں بھارتی فوج نے پراکسی جنگ شروع کر رکھی ہے،سوات اور مالاکنڈ میں فوجی آپریشن کے دوران دہشت گردوں کی جو لاشیں ملیں، ان کے جسمانی اعضا کے معائنے سے پتا چلا کہ وہ مسلمان نہیں تھے۔
بھارت نے 1971 کی طرح پاکستان کی رائے عامہ کو ایک بار پھر تقسیم کر دیا ہے۔ عوام کا ایک طبقہ اپنی فوج کی تحقیر و تذلیل کو مشغلے کے طور پر اپنائے ہوئے ہے۔ ہمارے سیاسی لیڈروا ہگہ کی لکیر مٹانے کے چکر میں ہیں، کوئی کہتا ہے کہ بارڈر ساری رات کھلا رہنا چاہئے۔ کوئی یورپی یونین کی طرز پر برصغیرکوویز افری بنانا چاہتا ہے۔ن لیگ، پی پی پی، جماعت اسلامی، جے یوآئی، طالبان اور میڈیا کے لوگ فوج سے اپنا اپنا ادھار چکانا چاہتے ہیں۔ جب تک جنرل مشرف اقتدار میں تھے تو وہ ان عناصر کا تختہ مشق بنے رہے، جنرل کیانی نے عزت بچانے کی بڑی کوشش کی مگر لا پتا افراد کے مسئلے پر ان کو زچ کر دیا گیا، اب جنرل راحیل آئے ہیں تو ان کے بھائی کے ٹریفک حادثے کا تذکرہ چھیڑ کر ان کو چڑانے کی کوشش شروع کر دی گئی ہے۔
مجھے یہ ساری کوششیں رائیگاں نظر آتی ہیں، اس لیئے کہ اکا دکا وکی لیکس کے نشر ہونے سے فوج کو بڑاڈنٹ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس کے لیئے ایک ٹی وی چینل مخصوص کرنے کی ضرورت ہے جس پرفوج کے خلاف دیئے جانے والے فتوے بریکنگ نیوز کے طور پر چلائے جائیں۔ یہ زمانہ گوئبلز کا ہے، جھوٹ اس قدر بولو کہ سچ معلوم ہونے لگے۔ مولانا مودودی کے اس فتوے سے ابتدا کی جاسکتی ہے کہ کشمیر کا جہاد حرام ہے، اس فتوے کی تان منور حسن کے فتوے پرتوڑی جائے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکی جنگ کا ساتھ دینے والے پاکستانی شہری نہیں ہیں، مزید مرچ مصالحے کے لیے فضل الرحمن کا فتوی بار بازنشر کیا جائے کہ امریکی میزائل سے کتا بھی مرے گا تو شہید ہو گا۔ پچھلے چھیاسٹھ برس میں فوج اور پاکستان کی نظریاتی اساس پر ایک سے ایک بڑھ کر حملہ ہوا ہے، ان کو بھی بار بار دہرایا جائے۔ اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے کسی جرنیل، بریگیڈیر یا کرنیل کی گاڑی کا جعلی نمبر پلیٹ کی وجہ سے چالان کیا جائے تو اس کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی جائے، لاپتا افراد کے مسئلے پر احتجاجی رشتے داروں پر چوبیس گھنٹے کیمرے مرکوز رکھے جائیں۔ اور ایک ایسی تفتیشی سیل بنایا جائے جس کا کام ہی یہ ہو کہ وہ نشان حیدر اور دیگر فوجی اعزازات پانے والوں کے جرائم کی ٹوہ لگائے، انسان آخر تو خطا کا پتلا ہے کہیں نہ کہیں تو پاؤں پھسل ہی جاتا ہے، ان جرائم کی تفصیل اور ان کی انکوائری رپورٹوں سے قوم کو آگاہ کیا جائے تاکہ عوام۔۔ اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویروں کا انسانی روپ بھی دیکھ سکیں۔
اس سے پہلے انسانی وکی لیکس کا معرکہ آر اانکشاف یہ تھا کہ اسامہ بن لادن کے پاس ایٹمی اسلحے کا ڈھیر ہے۔ آپ کی ہی کیوں چھوٹ گئی ہے۔ (28 دسمبر 2013ء)