خبرنامہ

پاکستانی ٹیکسٹائل کے خلاف بھارتی دہشت گردی۔۔۔اسداللہ غالب

اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی۔ بھارت کے بارے میں سوچنے لگیں توتن ہمہ داغ داغ شدم والی کیفیت نظرآتی ہے۔
پروفیسر سید محفوظ قطب کامیں اکثر ذکر کرتا ہوں، وہ ٹیکسٹائل کی دنیا کے قطبی ستارے ہیں ا ور خطاطی کے شعبے میں بھی انہوں نے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں، وزیر اطلاعات اور ڈی جی آئی ا یس پی آر کی میڈیا بریفنگ میں نے ان کے ساتھ بیٹھے دیکھی یا سنی۔ پروفیسر صاحب حیران تھے کہ ہماری قوم کو بھارت کی سمجھ کب آئے گی ، وہ توہر شعبے میں ہمیں پچھاڑنے پر تلا ہوا ہے ا ور خاص طور پر پاکستانی ٹیکسٹائل کو تباہ کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ بھی ا س کی دہشت گردی کاایک پہلو ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ ہم نے اس کا ایک جاسوس پکڑا ، یہ تو ایک معرکے کی بات ہے، یہ شخص اگر بے نقاب نہ ہوتا توپاک چین اقتصادی راہداری کو شدید نقصان پہنچا چکا ہوتا، اس نے اپنا نیٹ ورک بلوچستان کی تما م بندرگاہوں تک بچھا رکھا تھا اور خود نیک نام بن کر ایرانی بندر گاہ چاہ بہار میں جیولر بنا بیٹھا تھا۔یہ توہماری آئی ایس آئی کو داد دیجئے یا دعا دیجئے کہ اس نے ا سے بلوچستان میں داخل ہوتے ہی دھر لیا،ا ورا س طوطے کو مجبور کیا کہ وہ بولے اورسارے بھید کھول دے۔اس کی اعترافی وڈیو ساری دنیا نے سن لی ہے۔ بھارت نے پہلے تو ا س امر کی تصدیق کی کہ وہ را کا ایجنٹ ہے اور بھارتی بحریہ کا ا علی افسر ؂بھی مگر اب کہہ رہا ہے کہ اس کو اعترافات پر مجبور کیا گیا ہے۔بھارت سے کوئی پوچھے کہ اگر را کا یہ ایجنٹ تخریب کاری ا ور دہشت گردی پر مامور نہیں تھا تو کیا وہ بلوچستان کے ساحلوں کی تفریح گاہوں سے محظوظ ہونے آیا تھا۔بد قسمتی سے ابھی ہمارے ساحل ہونو لولو یا ہوائی یا برائٹن کے معیار کو نہیں چھوتے۔
پروفیسر محفوظ قطب نے اپنی اصل پٹاری کھولی ۔ کہنے لگے ابھی کل کی بات ہے کہ ہماری حکومت کی کاوشوں ا ور دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی قوم کی قربانیوں کے صلے میں یورپی یونین نے ہمیں جی ایس پی پلس کا درجہ دیا جس سے یورپی مارکیٹوں تک ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کی رسائی ہو گئی۔ اور ان پر عاید ڈیوٹیاں واپس لے لی گئیں۔ ا س سے پاکستانی معیشت کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، ہم سوچ رہے تھے کہ یورپی مارکیٹوں پر ہم چھاجائیں گے اور اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ مگر بھارت بڑا کایاں ملک ہے،ا سنے فوری طور پر اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات پر برآمدی ڈیوٹیاں ختم کر دیں اور مزید برآں ری بیٹ کی شرح میں غیر متوقع حد تک اضافہ کر دیا، بھارتی حکومت نے اپنے ٹیکسٹائل برآمدکنندگان سے کہا کہ وہ انہی ممالک میں مال بھیجیں جہاں پاکستان کو نئی نئی رسائی حاصل ہوئی ہے۔ہندو لالہ کاروبار میں تو تاریخی طور پر ہوشیاری ، مکاری اورعیاری کا مظاہرہ کرتا ہے مگر جب اسے حکومتی سرپرستی اور اشیر باد بھی حاصل ہو گئی توا س نے پاکستان کو مات دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پاکستان کے لئے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ بھارتی قیمتوں کا مقابلہ کر پاتا کیونکہ بھارت میں نہ تو بجلی کا بحران ہے ا ور نہ بجلی کی مہنگائی کا کوئی مسئلہ ہے۔
پاکستان کے اندر بھی کسی نے بھارت کی اس سازش کو سمجھنے یا اس کامقابلہ کرنے کی کوشش نہ کی ، اب ہر کام آئی ایس آئی پر تو نہیں چھوڑا جا سکتا، کچھ ذمے داری سول ڈھانچے کی بھی بنتی ہے مگر ہم نے غفلت کا مظاہرہ کیا۔ پروفیسر محفوظ قطنب نے انتہائی دکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کا ستر فیصد حصہ پنجاب میں ہے جہاں بجلی اور گیس کا سنگین تریں بحران درپیش ہے جبکہ باقی صوبوں میں بلا کسی روک ٹوک کے ساتھ گیس اور بجلی فراہم کی جا رہی ہے مگر تینوں صوبوں میں صرف تیس فیصد ٹیکسٹائل کی صنعت کام کر رہی ہے۔ ا س طرح پنجاب کے صنعتکار کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔یہی وہ صوبہ ہے جس کی زراعت اور معیشت کو تباہ کرنے کے لئے بھارت ایڑی چوٹی کازور لگا رہا ہے، پاکستانی منڈیاں بھارتی آلو اور بھنڈی سے لے کر سوتی دھاگے اور کپڑے تک سے بھری ہوئی ہیں اور ہم نے اس قومی نقصان سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، ہمارے وزیر تک یہ مانتے ہیں کہ بھارت نے کشمیر کے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کے ہرے بھرے کھیتوں کو بنجر ویرانوں میں تبدیل کر دیا ہے۔مگر ہماری قومی قیادت اس بھارتی شیطنت کا راستہ روکنے کے لئے سرگرم عمل نظر نہیں آتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت ہمارا ہمسایہ ہے، ہمیں اس سے اچھے تعلقات رکھنے چاہیں مگربھارت اوچھے تعلقات کو بڑھاوا دے رہا ہے۔اور اسے ایک ہی فکر لاحق ہے کہ کس طرح پاکستان کی معیشت کو تہہ و بالا کرناہے۔
بھارت کے سر پر بھوت سوار ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کو کس طرح برباد کیا جائے۔اسے ہر سال اس میں کامیابی مل رہی ہے، پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں رفتہ رفتہ کمی اواقع ہو چکی ہے۔ پروفیسر محفوظ قطب کے پاس مکمل ا عداد وشمار موجود ہیں، ان کے مطابق چین، بنگلہ دیش، ویت نام ، امریکہ، پرتگال،اٹلی جاپان اور دیگر درجن بھر ممالک کو پاکستانی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 2012 کے مقابلے میں2014 تک کمی ہی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ قدرت بھی ہم پر مہربان نہیں اور ہماری کپاس کی فصل مختلف کیڑے مکوڑوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔سال رواں کے لئے سرکاری پیشین گوئی کے مطابق ہماری کپاس کی فصل پچھلے سال کے مقابلے میں پچیس فی صد کم ہونے کا اندیشہ ہے۔اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری اپنی مارکیٹیں بھارتی سوتی دھاگے ا ور ہر قسم کے کپڑے سے بھری ہوئی ہیں۔
پاکستان سے بھارت کی پرخاش کوئی نئی بات نہیں، بھارتی لیڈر تو پہلے روز ہی سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان معیشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا ۔وہ جو کہتے ہیں کہ کجھ سانوں وی مرن د اشوق سی۔ہمارے لوگ بھارتی مال کے لئیے مرے جاتے ہیں اور شادی بیاہ کے کپڑوں تک کی خریداری کے لئے بھارت کی طرف بھاگتے ہیں۔ بھارتی فلموں نے ہمارے رجحانات کو بدل کر رکھ دیا ہے اور اگر ہم نے ا س ثقافتی یلغار پر قابو پانے کی کوشش نہ کی تو بھارت معیشی طور پر ہمیں مفلوج بناکر رکھ دے گا۔اگرچہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں مگر معیشت کو سنبھالے بغیر ہمیں اپنی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ میں ناکامی کا سامنا ہو سکتا ہے، بھارت نے ہر محاذ کو تیز تر کر دیا ہے۔ہمیں بھی چوکسی دکھانے کی ضرورت ہے ا ور من حیث القوم ہمیں بھارت کی سازشوں کا توڑ کرنے کے لیئے یک سو ہونا چاہئے۔ ورنہ ہماری داستانیں کسی نئی اور کرم خوردہ الف لیلہ تک محدود ہو کر رہ جائیں گی۔خدا نخواستہ!!