خبرنامہ

پاکستان فضائی تنہائی کی طرف … اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاکستان فضائی تنہائی کی طرف … اسد اللہ غالب

اندیشہ تو یہ تھا کہ کراچی ایئر پورٹ پردہشت گردوں کا حملہ پاکستان کی فضائی تنہائی میں پہلی اور آخری کیل ثابت ہوگا،چند ایک ایئر لائنوں نے اپنے آپریشن معطل یا منسوخ کر دیئے مگر ابھی ساری دنیا کی ایئر لائنوں نے پاکستان سے منہ نہیں موڑا۔
یہ خطرہ کسی انتہائی نا تجر بے کار حکومت کو بھی محسوس ہوسکتا تھامگر پتانہیں کہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے والے اور 1981 سے اقدار اور سیاست میں شریک میاں محمد نواز شریف نے اس طرف خاص توجہ کیوں نہ کی۔ الٹا ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان آئے تو ان کی فلائٹ کو پہلے اسلام آباد کی فضا میں طواف پر مجبور کیا گیا، پھر کوئی وجہ بتائے بغیر اس کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیا گیا۔ معاصرڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق رخ موڑنے کا مشورہ وزیر ریلوے نے دیا تھا۔ دنیا کی کسی ڈکشنری میں ریلوے سے مراد ایئر لائن نہیں ہے مگر شریف اللغات سے اپنے مطلب کے معانی اخذ کیئے جا سکتے ہیں۔
اب پشاور ایئر پورٹ پر ایک طیارے پر فائرنگ کی گئی ہے جس سے عمرہ کے مقدس فریضے کی ادائیگی کے بعد وطن واپس آنے والی خاتون مسافر جاں بحق ہوگئی۔ یہ تو شہادت ہے۔ فائرنگ کرنے والوں نے اسی طرح آزادی سے اپنے مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جو انہیں کراچی ایئر پورٹ پر حاصل تھی۔
یہ پے در پے سانحے اس لیئے ہورہے ہیں کہ ملک کے وزیر داخلہ غیر اعلانیہ طور پرعضو معطل بنے ہوئے ہیں، ان کے بعض امور ایک ن لیگی ایم این اے عبدالقادر بلوچ کو سونپ دیئے گئے تھے مگر یہ محکمہ با قاعدہ نہ تو کسی اور کوسونپا گیا ہے، نہ چودھری نثار کو سرگرم عمل ہونے کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ گورنر پنجاب جو فائر بریگیڈ کا کردار ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری کو طیارے سے اتارنے میں کامیاب ہو گئے تھے، وہ حکومت کے گھر کی بھی خبرلیں اور ملک کے وزیر داخلہ کو منانے کے کوشش کریں۔ وہ خودیہ نیک کام کرنے کے قابل نہ ہوں تو چودھری نثار کے پوٹھوہاری بزرگ ملک غلام ربانی کو گلاسگو سے اضافی مدد کے طور پر طلب کرلیا جائے جو بابائے امن کے لقب کی شہرت کے حامل ہیں۔
حکومت کو مشیر شہری ہوابازی اور عملی طور پر پی آئی اے کے سربراہ شجاعت عظیم کی خیریت سے بھی عوام کو آگاہ کرنا چاہئے، ان کی عملداری میں اتنے بڑے اور سنگین سانحے رونما ہورہے ہیں کہ قوم خون کے آنسورو رہی ہے مگر شجاعت عظیم کا کچھ اتاپتانہیں۔ انہیں پچھلے چیف جسٹس نے کینیڈین شہری ہونے کی وجہ سے ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا مگر جیسے ہی چیف جسٹس ریٹائر ہوئے، یہ صاحب پھر آن وارد ہوئے اور اسی منصب پر جس سے عدلیہ نے انہیں ہٹایا تھا۔ اس سے یہ بخوبی اندازہ ہو جانا چاہئے کہ جمہوری حکومت عدلیہ کے فیصلوں کا کس قدر احترام کرتی ہے۔ دوہری شہریت میں کوئی خرابی ہے یانہیں، اس سے تو سابق چیف جسٹس نے پردہ اٹھا دیا تھا مگر مصیبت یہ ہے کہ دوہری شہریت والا پاکستانی کسی اہلیت کا مالک بھی تو ہونا چاہئے، شجاعت عظیم اگر با صلاحیت ہیں تو اس کا عملی مظاہرہ سامنے نہیں آیا بلکہ کراچی، اسلام آباد اور پشاور ایئر پورٹ پر پے در پے سانحوں نے ان کی صلاحیتوں کی قلعی کھول دی ہے۔
ایک تھیوری یہ ہے کہ حکومت چونکہ پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیئے اس کے پاس خریدار بھی موجود ہے، اس لیے وہ ملکی ایئر لائن کی حالت کو سدھارنے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پی آئی اے کی جگہ ایک ن لیگی رکن اسمبلی اور وفاقی وزیر کی ملکیتی ائیر لائن کو پنپنے کے لیے حالات سازگار بنائے جارہے ہوں مگر ملک کے ائیر پورٹس کو لاحق خطرات کی وجہ سے امکان تو یہ ہے کہ پوری دنیا کی ایئر لائنیں دڑکی لگا جائیں۔ اس پس منظر میں جو شخص پی آئی اے خریدے گا یا وفاقی وزیرکی نجی ایئر لائن کہاں سے پرواز کرے گی اور کہاں اترے گی۔
پاکستان کی سفارتی تنہائی تومحتاج وضاحت نہیں۔ حکمران لے دے کے چین یا ترکی کے دورے کر سکتے ہیں، صدر کے لیئے دور پار کا کوئی افریقی ملک تلاش کیا گیا۔ امریکہ تو خیرات میں ہی دورہ دے سکتا ہے۔ بھارت کی طرف بھی حکومت للچائی نظروں سے دیکھتی ہے مگر مودی صاحب نے اپنی ٹی پارٹی میں ہی مدعو کیا، سرکاری دورے کی ابھی تک دعوت نہیں دی۔ ایک طرف پاکستان اس طرح دنیا سے کٹتا چلا جارہا ہے۔
دوسری طرف ایئر پورٹوں پرسکیور یٹی کے ناقص بلکہ نہ ہونے کے برابر انتظامات کی بناپر ہم فضائی مقاطعہ کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ ہر طرف سے ہمارا حقہ پانی بند ہو گیا تو پھر لانچوں کا سفرہی باقی رہ جائے گا اور معلوم نہیں کہ حکومت کی مہربانی سے اس کا سلسلہ بھی کب تک چل پائے گا۔
وزیراعظم ایک طرف کہتے ہیں کہ وہ ملک کو ترقی کی طرف گامزن کر رہے ہیں مگر یہ تو ترقی معکوس کا عالم ہے۔ ان کا گلہ ہے کہ اپوزیشن ان کی ٹانگ نہ کھینچنے اور سرمایہ کاروں کوفرار پرمجبور نہ کرے مگر وزیراعظم نے آج تک نہیں بتایا کہ ان کے ہونہار فرزند بیرونی ممالک کے بجائے پاکستان میں کب سرمایاکاری شروع کریں گے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ سابق چیف جسٹس کے بیٹے کے بجائے حسین نواز کو بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ کا چیئر مین لگایا جا تا۔ شاید وہ بیرونی سرمایہ کاروں کے سامنے کوئی ذاتی مثال قائم کر کے انہیں اس پس ماندہ مگر قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے میں سرمایہ کاری پر راغب کر سکتے۔ ویسے سابق چیف جسٹس کے فرزند عالی مقام بھی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی شہرت نہیں رکھتے، اگر میری معلومات ناقص ہوں تو وہ براہ کرم تصحیح فرما دیں۔
پچانوے کی بات ہے، اقوم متحدہ کی گولڈن جوبلی میں شرکت کے بعد میں محترمہ بے نظیر کے ساتھ وطن واپس آرہا تھا، راستے میں انہوں نے اپنے خصوصی کیبن میں بلایا اور شکوہ شروع کر دیا ملکی میڈیا ان کے خلاف غلط سلط پروپیگنڈا کر رہا ہے کوئی فرانسیسی محلات کی خبریں اچھال رہا ہے کوئی سرے محل کے افسانے تراش رہا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ نے ملک کے اندر کوئی مرغی خانہ ہی کھولا ہوتا تو لوگ سمجھتے کہ آپ پاکستان کو سرمایہ کاری کے لائق سمجھتی ہیں مگر آپ اپنی جیب سے ملک میں ایک دھیلہ بھی نہیں لگائیں گی تو پھر باتیں تو بنیں گی۔
جس ملک کے وزیر خزانہ کا بھی زیادہ کاروبار دوبئی اور دوسرے ملکوں میں ہو، اس کے بارے میں باہر کی دنیا کی کیا رائے ہوگی اور اگر پے در پے ملک کے ائیر پورٹ پر حملے ہورہے ہوں اور حکومت ان کی وزیر داخلہ کو شوکاز نوٹس جاری کرے، نہ وزیر شہری ہوابازی کوکٹہرے میں لائے تو لامحالہ شک گزرتا ہے کہ کسی دن حکومت کہے گی کہ لاؤ ہماری گدڑی، ہم تو چلے پردیس۔
حکومت کو بڑھتی ہوئی فضائی تنہائی کے خطرے کا کوئی درد کیوں لاحق نہیں۔ (26 جون 2014ء)