خبرنامہ

پاکستان کا بانی‘ تحریک آزادی, کشمیر کا بانی، اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاکستان کا بانی‘ تحریک آزادی, کشمیر کا بانی، اسد اللہ غالب

اس میں کیا شک ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح نے رکھی تھی ۔ایک تو انہوںنے یہ فرمایا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، دوسرے انہوں نے کشمیر میں بھارتی جارحیت کو روکنے کے لئے افواج پاکستان کو احکامات جاری کئے۔
کشمیر پاکستان کی کس طرح شہہ رگ ہے، بالکل اسی طرح جیسے بھارت کہتا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ کشمیر اس لئے بھی پاکستان کی شہہ رگ ہے کہ لفظ پاکستان میں شامل کاف کا حرف کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس لئے کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔کشمیر اس لئے بھی پاکستان کی شہہ رگ ہے کہ تقسیم ہند اور آزادی کے فارمولے کی رو سے اسے ایک مسلم اکثریتی اور پاکستان سے ملحقہ ریاست کے طور پر ہمارا ہی حصہ بننا تھا۔ یہ وہ اصول ہے جس کی بنیاد پر بھارت نے جونا گڑھ اور حیدر آباد کی ہندو اکثریتی آبادی کی ریاستوں کو بزور طاقت اپنے اندر شامل کر لیا تھا۔ حالانکہ ان کے مسلمان حکمران پاکستان سے الحاق کا اعلان کر چکے تھے۔ مگر بھارت نے ان کے اس اعلان الحاق کو جوتی کی نوک پر رکھا اور کشمیر کے ہندو مہاراجہ کے ایک جعلی اعلان الحاق کو الہامی دستاویز قرار دے دیا اورفوجی جارحیت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ جما لیاگیا۔
کشمیر پاکستان کی اس لئے بھی شہہ رگ ہے کیونکہ قائد اعظم سمجھتے تھے کہ ایک تو یہ ریاست مسلم اکثریتی آبادی والی ہے، دوسرے پاکستان سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں ، تیسرے پاکستان کو سیراب کرنے والے دریاﺅں کا منبع کشمیر ہے، ان پر بھارت کے قبضے کا مطلب یہ تھا کہ وہ جب چاہے پاکستان کو اس کے حق کے پانی سے محروم کر دے اوراس نے فوری طور پر پنجاب کو سیراب کرنے والی نہر بند کردی جس کو کھلوانے کے لئیے پاکستان کے دو بڑے سیاستدان فٹا فٹ پنڈت نہرو کی خدمت میں جا حاضرہوئے۔ نہرو پانی دینے کے لئے تو مان گیا مگر اس شرط پر کہ وہ اس پانی کا معاوضہ وصول کرے گا ااور دوسرے جب چاہے گا ، پانی روک بھی سکے گا۔پاکستان کے ان دو سیاستدانوںمیں سے ایک کی زمینوں کا پانی رک گیا تھا ، ا سلئے ا سنے یہ کڑی شرائط قبول کر لیں۔
ساٹھ کے عشرے میں پاکستان ا ور بھارت کے درمیان دریائی پانی کے جھگڑے طے کرانے کے لئے ورلڈ بنک نے ثالثی کی اور سندھ طاس کا معاہدہ عمل میں آیا۔ یہ معاہدہ سراسر غیر منصفانہ تھا کیونکہ پاکستان کو سیراب کرنے والے دو دریا ،ستلج ا ور بیاس کلی طور پر بھارت کو دان کر دیئے گئے ۔دنیا میں آج تک دریائی پانی کے جتنے بھی معاہدے کئے گئے ہیں، ان میں سے کسی دریاکوکسی ایک ملک کے تصرف میں نہیں دیا گیا جبکہ وہ دریا زیریں ملک سے گزرتا بھی ہو۔ سندھ طاس معاہدے میں اگرچہ دو دریا چناب اور جہلم کلی طور پر پاکستان کو دے دیئے گئے مگر ان کے دہانوں پر چونکہ بھارت کا قبضہ تھا ،ا س لئے اس نے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور ان دریاﺅں پر بیسیوں ڈیم تعمیر کر لئے۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ بھارت نے پاکستان کو عملی طور پر چناب اور جہلم کے پانی سے بھی محروم کر دیا۔بھارت جب چاہتا ہے ان دریاﺅں کا پانی روک کر پاکستان کی زراعت کو تباہ کر دیتا ہے اور جب ان دریاﺅں میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے تو فالتو پانی چھوڑ کر اور وہ بھی بلا اطلاع پاکستان کے وسیع علاقوںکو سیلاب میں ڈبو دیتا ہے۔
بانی پاکستان کا یہ حکم کہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے بزور طاقت آزاد کرایا جائے، اس حکم کو آج کوئی دہشت گردی کے زمرے میں شمار کر سکتا ہے مگر دوسری طرف پنڈت نہرو نے بھی اسی دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا تھا اور بزور طاقت ہی کشمیریوں کی امنگوں اور آرزوﺅں کے برعکس ان کو غلام بنایا تھا، صدر ٹرمپ اگر یہ کہتے ہیں کہ بزور طاقت سرحدیں تبدیل نہیں کرائی جا سکتیں تو بھارت نہرو کے دور ہی سے بزور طاقت اپنی سرحدیں تبدیل کر رہا ہے، ایک حق بھارت کو حاصل ہے تو پاکستان کو کیوں نہیں اور انہی صدر ٹرمپ کے ملک نے درجنوں ممالک کی سرحدیں بھی طاقت کے ذریعے تبدیل کیں اور حکومتوں کی تبدیلی تو بیسیوںکے حساب سے شمار کی جا سکتی ہے۔
سوال یہ نہیں کہ جو اصول دوسروں کے لئے جائز ہے، وہ پاکستان کے لئے جائز کیوں نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر کے سلسلے میں بانی پاکستان کے طے کردہ اصولوں کو خود ہم نے دل و جان سے قبول کیااور ہم ان پر عمل پیرا بھی ہوئے تو جواب سب کے سامنے ہے کہ دریائی پانی کی جارحیت پر پاکستان میں سندھ طاس کمیشن شروع سے آج تک خاموش ہے، جس کی وجہ سے پاکستان عالمی ثالثی کا فائدہ ا ٹھانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ اس سلسلے میں جماعت علی شاہ جو برسہا برس تک سندھ طاس کمیشن کے سربراہ رہے، انہی کے دور میں بھارت نے چناب اور جہلم پر درجنوں کے حساب سے ڈیم تعمیر کئے جن پر قبلہ شاہ صاحب نے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ ہم نے اس جرم کے ارتکاب کا سلسلہ اب بھی بند نہیں کیا۔
اب رہا کشمیر کو بزور طاقت آزاد کرانے کا حکم جو بانی پاکستان نے جاری فرمایا ، اس پر عمل کرنے سے اس وقت کے انگریز آرمی چیف نے انکار کر دیا۔میرے پاس اس امر کی تصدیق کرنے کے ذرائع نہیں ہیں کہ کیا ان صاحب نے یہ دلیل دی تھی یا نہیں کہ سرحد کے دونوں طرف انگریز ٹروپس موجود ہیں، ا سلئے وہ کوئی ایساقدم نہیں اٹھائیں گے کہ ایک طرف کے انگریز فوجیوں کے ہاتھوں دوسری طرف کے انگریز فوجی ہلاک ہوں۔ بالفرض ان صاحب نے یہ اعتراض اٹھایا بھی ہو تو ان سے پوچھا جانا چاہئے تھا کہ یہی اعتراض نئی دہلی میں بیٹھے ہوئے متحدہ انگریز کمانڈر نے نہرو کے سامنے کیوںنہ رکھا کہ اگر بھارت نے کشمیر میں جارحیت کی تو دوسری طرف کی انگریز فوج کو بھی حرکت میں آناپڑے گااور ابگریزوں کی خونریزی خود انگریزوں کے ہاتھوں عمل میں آ ئے گی۔ کیا آج تک اس متحدہ انگریز کمانڈر سے کسی نے پوچھا کہ ا س نے پاکستانی فوج کے ہاتھ پاﺅں کیوں باندھے اور بھارتی فوج کو کھلی چھٹی کیوں دی۔
اس سوال کا جواب پاکستان کے انگریز فوجی کمانڈر کے بعد آنے والے پاکستانی فوجی سربراہان کے ذمے بھی ہے کہ انہوںنے قائداعظم کے حکم کی تعمیل کا بیڑہ کیوں نہیں اٹھایا۔آج اسلم بیگ، وحید کاکڑ، جہانگیر کرامت، پرویز مشرف، پرویزکیانی اور راحیل شریف بقید حیات ہیں، وہ ضرور قوم کو بتائیں کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو حضرت قائد اعظم کے احکامات کی پیروی کیوںنہ کی گئی۔ اور ہمارے سیاستدانوںکے ذمے اس سوال کا جواب دینا ہے کہ اگر کبھی فوج نے اپنے طور پر کشمیر میں پیش قدمی کی کوشش بھی کی تو قوم نے اس کا ساتھ کیوںنہ دیا، آپریشن جبرالٹر کا ہم مذاق اڑاتے ہیں، کارگل کے لئے کمیشن بنانے کا مطالبہ ہم کرتے ہیں مگر کبھی کسی نے کشمیر پر بھارتی تسلط اور سیاچین میں جارحیت پر بھارت کی مذمت کیوںنہیں کی، کیا ا س کا مطلب یہ نہیں کہ کشمیر پر ہم صرف نعرے بازی کے شوق میں مبتلا ہیںمگر عملی طور پر کشمیریوں کی مدد کرنے ا ور اپنے دریاﺅں کے منبع واگزار کروانے کے لئے ہم سنجیدہ نہیں ہیں، کیا یہ ہماری قومی بے عملی ا ور بے حسی نہیں ہے، کیا ہم نے قائد اعظم کے فرمان کی حکم عدولی بحیثیت قوم کے نہیں کی ۔
کشمیر کے بغیر پاکستان ادھورا ہے، کشمیر کے بغیر آزادی ہند کا ایجنڈہ نا مکمل ہے۔
قائد اعظم کے حکم کی کسی نے تعمیل نہیں کی،۔ مگر جنرل ضیا نے افغانستان کی جنگ میںپاکستان کو جھونکا تو نان اسٹیٹ ایکٹرز کو درجنوں کی تعداد میں سوویت روس کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔جنرل ضیا کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ اگر ہوائی حادثہ نہ ہوتا تو وہ ان نان ا سٹیٹ ایکٹرز کو کشمیر میں داخل کردیتا۔ہمارے بھارت نواز عناصر خوش ہیں کہ جنرل ضیا کو اللہ نے اس کام کے لئے زندگی کی مہلت نہیں دی مگر نان اسٹیٹ ایکٹرز کو افغانستان میں جھونکنا اگر جائز تھا تو کشمیرمیں جھونکنا کیسے ناجائز ہو گیا اور آج ہمارے ان نان سٹیٹ ایکٹرز پر کیوں پابندیاں ہیں جو کشمیر کی آزادی کے حق میں ہیں۔ بھارت نے بھی مقبوضہ کشمیر کے ان لیڈرز کو پابند سلاسل کر رکھا ہے جو کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں ، ہمارے ا ور بھارت کے مابین فرق کیا ہوا، کچھ تو ہونا چاہئے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں اب اتنا دم خم ہے کہ ا س نے سید صلاح الدین کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ کے فیصلے کوقبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ خدا کرے، ہم حافظ محمد سعیدکو بھی رہا کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرسکیں۔