خبرنامہ

پاکستان کی تنہائی ، جنرل باجوہ کاا عتراف۔۔۔اسداللہ غالب

مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی کہ جنرل باجوہ نے جرمن ریڈیو سے انٹرویو میں ان سوالوں کا جواب دیا یے جو سوالات مجھ سمیت پاکستانی میڈیا کے ذہن میں کھلبلی مچاتے ہیں مگر ان سوالوں کا جواب ہمیں جنرل موصوف دے میسر نہیں آتا، کہ وہ بہ بے حدمصروف ہو چکے ہیں۔
جنرل باجوہ سے کیا سوالات ہوئے اور انہوں نے کیا جواب دیئے،ا سکی تفصیل آپ آج ہی کے اخبارات میں پڑھ سکتے ہیں۔
مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی کہ جنرل باجوہ نے ایک خوفناک اعتراف کیا کہ دنیا نے دہشت گردی کی لڑائی میں پاکستان کو یکہ و تنہا چھوڑ دیا۔
اور مجھے اس اعتراف پر کوئی تعجب بھی نہیں ہوا کیونکہ پاکستان کے ساتھ یہ کھیل بار بار ہو چکاہے، پاکستان کو شاید لطف آتا کہ وہ ایک سوارخ سے بار بار ڈسا جائے۔
افغان جہاد ختم ہوا تو بھی پاکستان کے ساتھ یہی ہوا ، تب بھی امریکہ ا س خطے سے بھاگ گیا تھا، افغانستان کا ملک متحارب دھڑوں کے خون سے سرخ ہوتا رہا اور پاکستان ان دھڑوں کی لڑائی کی تپش سے جہنم بنتا چلا گیا۔
پاکستان بار بار اس لیے ڈسے جانے سے لطف اندوز ہوتا ہے کہ ا س میں بعض طبقات منفعت کماتے ہیں، ان کو ثمرات ملتے ہیں، ان کے اندرونی ا ور بیرونی بنک اکاؤنٹس لبا لب بھر جاتے ہیں ۔ باقی ملک اورا سکے عوام پر کیا بیتتی ہے،ا ن کی بلا سے۔ افغان جہاد کے بعد پاکستان کلاشنکوف، ہیروئن اور فرقہ واریت کے جہنم میں سلگتا رہا،یہ بھی منفعت بخش کام تھا، گھاٹے کوسودا کون کرتا ہے،خسارہ تو صرف ملک اورا س کے بے چارے عوام کے مقدر میں لکھا ہے۔
دہشت گردی کی موجودہ جنگ میں کودنے کے لئے جنرل مشرف نے کسی سے مشورہ نہیں کیا، یہی الزام ہے ناں جنرل پرویز مشرف پر تو ان کے بعد کے آرمی چیف جنرل کیانی نے اس جنگ کو کیوں فل اسٹاپ نہیں لگایا، اس وقت کی حکومت جس میں صدر زرداری ا ور وزیر اعظم گیلانی شامل ہیں، اور ان کی پوری پارلیمنٹ بھی ، انہوں نے اسے کیوں نہیں روک دیا بلکہ الٹاا سے پاکستان کی جنگ کہہ ڈالا،ا سلئے کہہ ڈالا کہ اس میں ان کی لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تھا، سب فوجی ا ور سول قائدین ایک لمحے کے لئے بھی نہ سوچ سکے کہ محترمہ کو جن لوگوں کے ہاتھوں شہید کروایا گیا ، وہ کسی کے آلہ کار بھی تو ہوسکتے تھے ، اور اس سے پاکستان کی نئی قیادت کو بدھو بنایا جا سکتا تھا۔
ہم بدھوبننے میں راحت محسوس کرتے ہیں کیونکہ اس کے عوض ہمارے بعض لوگوں کو معاوضہ ملتا ہے ا ور یہ بہت بھاری معاوضہ ہے۔ڈالر کی چمک کا مقابلہ کون کر سکتا ہے، یہ آ نکھیں خیرہ کر دیتا ہے۔
میاں نواز شریف تو بظاہرا س جنگ کو جاری رکھنے کے حق میں نہ تھے، وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔اس کے لئے کئی کمیٹیاں تشکیل پائیں، مگر عین ا س دوران ایک ڈورن چلا جس میں بیت اللہ محسود کو نشانہ بنا دیا گیا۔ اس ڈرون حملے نے پاکستان مین ایک تلخ بحث کا آغاز کر دیا، یہ کہا گیا کہ شہید وہ ہیں جو امریکی ڈرون میں مرتے ہیں اور وہ شہید نہیں ہیں جو ا مریکی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوتے ہیں، یہ کہنا تھا جماعت ا سلامی کے امیر منور حسن کا، اس سے بھی بری اور بڑی بات مولانا فضل الرحمن نے کی۔ مولانا پر تو کوئی معترض نہ ہو امگر جماعت اسلامی سے کہا گیا کہ وہ اپنے امیر کے بیان پر معذرت کرے، جماعت کی شوری کا اجلاس ہو ا، جس کے بعد لیاقت بلوچ نے کہا کہ جماعت معذرت کے لئے تیار نہیں ۔یہ پہلے آثار تھے جن سے پتہ چلتا تھا کہ دہشت گری کی جنگ لڑنے والے اپنے ہی ملک میں تنہا ہو تے جا رہے ہیں، وہ تو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے بے گناہ پھولوں جیسے بچوں کو شہید کیا گیا تو قوم نے دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا فیصلہ کیا۔ دہشت گردی کی جنگ میں تیزی آ گئی اور اب جب کہ یہ جنگ جیتی جا چکی ہے۔ امریکہ، یورپ، بھارت میں لوگ سکون کی نیند سوتے ہیں تو ایک بار پھر وہی ہوا۔دہشت گرد سانپ یاا ونٹ کی طرح زخمی ہیں اور وہ موقع پاتے ہی پاکستان سے انتقام لیں گے، امریکی ا ور نیٹو افواج اور ان کے ممالک ان کی پہنچ سے باہر ہیں ، یا پھر پاکستانی عوام ہیں جو بے بس ہیں، نہتے ہیں اورآسانی سے شکار کئے جا سکتے ہیں۔ان کا نام امجد صابری قوال بھی ہو سکتا ہے۔
جنرل باجوہ نے کوئی نیا انکشاف نہیں فرمایا، کہ پاکستان تنہا رہ گیا ہے بلکہ یہ ایک اعتراف حقیقت ہے، ہمارے اجتماعی قومی جرم کااقرار ہے۔
پاکستان کی موجودہ تنہائی میں صرف بیرونی دنیا کا ہی کردار نہیں بلکہ کچھ ہم نے خود بھی یہ ثواب کمایا ہے، ہم اپنے کسی دوست کے کام نہیں آئے،سعودی عرب کو ٹکا سا جواب، بحرین کو صاف انکار، ایران سے عدم اعتماد کے رشتے اور چین پر آنکھیں بند کر کے اعتماد، چین نے ایک کوریڈور بنانا ہے،ا س کے فائدے سب کے علم میں ہیں جو چین کو ہوں گے مگر پاکستان کو کوئی ایک فائدہ کیا ہو گا، آج تک کسی نے نہیں بتایا، صرف یہی کہا کہ یہ ضرور بنے گا اورا س کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔ یہ کوریڈور کونئی چیز نہیں، شاہراہ قراقرم برسوں پہلے سے بن چکی ہے،اس سے پاکستان میں کتنی خوش حالی آئی، اور اگر یہ شاہراہ گوادر تک وسیع ہو جاتی ہے تو پاکستان کو ایک دو تین چار پانچ ، کیا کیا فوائد ہوں گے، یہ تو کسی نے بتایا ہی نہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی یک رخی ہو گی تو ہم نے تنہائی کا شکار نہیں ہونا تو اور کیا ہو گا۔
ایک خوفانک انکشاف جنرل باجوہ نے ا ور کر دیا کہ ڈرون کی پیشگی اطلاع کے لئے ہمارے پاس کوئی ٹیکنالوجی نہیں تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ اگر حکومت اور عوام خطرات مول لینے کو تیار ہوں تو پاک فوج اور پاک فضائیہ یہ ڈرون گرا سکتی ہے، اگر حملے کے بعد گرانا ہے تو کیا فائدہ ۔
جنرل باجوہ نے ان سارے سوالوں کا جواب دیاہے جو مجھ سمیت ملکی میڈیا کے زہن میں کلبلاتے رہتے ہیں مگر جنرل باجوہ نے ان کا جواب دینے کے لئے ایک غیر ملکی یعنی گورے چینل کو منتخب کیا، کاش ! خدا ہمیں بھی گوری نسل سے پیدا کرتا تو تبھی جنرل باجوہ ہمیں بھی دستیاب ہو جاتے۔
جنرل باجوہ کا انٹرویو بعد از مرگ واویلا ہے، اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ نجانے یہ محاورے ہماری ڈکشنریوں میں کیوں درج ہیں۔