خبرنامہ

پاکستان کی دفاعی اور خارجی تنہائی۔۔اسداللہ غالب

پاکستان کی دفاعی اور خارجی تنہائی۔۔اسداللہ غالب
میں اندر کا بھیدی نہیں مگر لگتا ہے کہ ہم دنیا میں تنہا ہو کر رہ گئے ہیں۔امریکہ ہمیں دھیرے دھیرے چھوڑ ر ہا ہے، ہماری نکیل پہلے ہی برطانیہ کے ہاتھ میں ہے۔ہمیں ڈکٹیشن دی گئی تھی کہ بھارت کی بالا دستی قبول کرو، وہ ہم نے نہیں کی، سو بھارت نے ہمارے اوپر مسلط ہونے کے لئے کابل کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ہماری کوکھ سے جنم لینے والا بنگلہ دیش ایسے لوگوں کو چن چن کر پھانسیاں دے رہاہے جنہوں نے اکہتر میں پاکستان کی لڑائی لڑی ، ہم ان پھانسیوں پر رسمی احتجاج کے قابل بھی نہیں رہ گئے۔کہا جاتا ہے کہ چین ہمارا جگری دوست ہے مگر چین نے کبھی اپنی خاطر کسی سے لڑائی نہیں کی،ا سلئے زبانی کلامی حمائت ہی ا س سے میسرآسکتی ہے، ایران کی خاطر ہم نے عربوں کی مد دنہیں کی، نہ ہم شام میں گئے حالانکہ ہم اٹھتے بیٹھتے ترکی کی تسبیح پڑھتے ہیں ا ور ترکی دھڑلے کے ساتھ شام میں مداخلت کر رہا ہے، سعودی عرب بھی کر رہا ہے مگر ہم نے ایران کی ناراضگی کی خاطر شام سے دوری اختیار کر رکھی ہے، یہی بات یمن کے سلسلے میں کہی جا سکتی ہے، یہاں بھی ہم نے ایران کی ہمسائیگی کے پیش نظر اپنے آپ کو دلدل میں نہیں پھنسایاا ورا س پر سعودی عرب سے تعلقات خراب کر بیٹھے، مگر ایران بھی ہم سے خوش نہیں ہے، ا س نے مودی کو بلا کر چاہ بہار کا جلوہ دکھایا ہے ۔اس کی سرحد بھی ہمارے لئے محفوظ نہیں، بحرین نے ہم سے فوجی مدد مانگی ، ہم اس کے لئے تیار نہیں ہوئے، سعودی شہزادہ ہماری امدا لینے کے لئے اسلام آبادآیا، ہمارے اعلی سطحی وفود بھی ریاض کے دورے پر گئے جن میں وزیر اعظم ا ورآرمی چیف بھی شامل تھے مگر لگتا ہے کہ ہم سعودی عرب کی تمناؤں پر پورے نہیں اترے۔عرب امارات کے ایک وزیر نے ہمیں تنقید کا نشانہ بنایا ، ہم ہر ایک سے ٹال مٹول کی پالیسی پر کاربند ہیں، نہ کھل کر انکار کرتے ہیں ، نہ اقرار کی طرف آتے ہیں، امریکہ نے تو کبھی ہمارے اوپر اعتبار نہیں کیا، پھر بھی اسے ضرورت ہو تو وہ ڈالر دیتا ہے اور اپنا کام نکلوا لیتا ہے، ضرورت ختم ہو جائے تو اس کی کانگریس مشروط امدادکا بل منظور کر کے لال جھنڈی دکھا دیتی ہے۔
تو اس بھر ی دنیا میں کون ہمارا ہے، نظر تو کوئی نہیں آتا، مگر ہم بھی تو کسی کے نہیں ہیں۔اپنے دوستوں کے بھی نہیں ہیں تو ہمارا کون ساتھ نبھائے گا۔
ہمیں ا س حال کو کس نے پہنچایا، کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارا کوئی وزیر خارجہ نہیں ا ور اگر وزیر دفاع ہے تو وہ فعال نہیں۔یہ وجہ نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہماری خارجہ ا ور دفاعی پالیسی جی ا یچ کیو میں بنتی ہے ۔ میں یہ سوال براہ راست آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل باجوہ سے کر رہا ہوں کہ وہ قوم کو اعتماد میں لیں کہ آیا یہ پالیسیاں جی ایچ کیو میں بنتی ہیںیا یہ محض ایک الزام ہے، تہمت ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہماری منتخب حکومت کاخو وکوئی قبلہ ہی نہیں، وزیر اعظم پارلیمنٹ میں نہیں آتے، کابینہ کااجلاس نہیں بلاتے، کسی سے بظاہر مشاورت نہیں کرتے مگر یہ کیسے ہو گیا کہ تیسری مرتبہ اس منصب پرفائز ہونے والا شخص ملکی صورت حال سے ا س قدر بے نیاز ہو۔خدا وزیر اعظم کو صحت عطا کرے تو ان سے پوچھا جائے کہ ملک یکہ و تنہا کیوں ہو گیا، کہاں ہمیں اقبال نے یہ سبق پڑھایا تھا کہ چین وعرب ہمارا، سار جہاں ہمارا اور کہاں حالت یہ ہے کہ سارے جہان کی چڑھائی ہم پرہے، کبھی ورکنگ باؤنڈری اور کنٹرول لائن پر بھارت مارتا ہے، اب افغان فوج نے ہمیں مارنا شروع کر دیا ہے،اور کون رہ گیا ہے جو ہمیں نہیں مار رہا، کیا ہمارا والی وارث کوئی نہیں ۔
ہمارا پانی بھارت نے چوری کر لیا، بلکہ ڈنکے کی چوٹ ڈاکہ ڈالا۔ بھارت ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنا رہا ہے اور ہم اپنے بچے کھچے دریا سندھ پر ڈیم بنانے کا نام لیں تو تین صوبے ہمیں گلے سے پکڑ لیتے ہیں ، واپڈا کے چیئر مین نے آبی قلت کا ایک موازنہ پیش کیاا ور سینٹ کے چیئر مین نے ان کے لتے لئے اور بھی کوئی تھا جس نے اپنا غصہ نکالا، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ڈیم بنانے کی مخالفت ہو رہی ہے، اور اگرہم بھاشہ ڈیم بنانا چاہیں تو بھارت اعتراض کرتا ہے کہ یہ متنازع خطے کشمیر میں ہے۔لیجئے ،سب سمجھ میںآگیا کہ ہمارے لوگ کس کے کہنے پر کالا باغ یا کسی اور ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں، یہ لوگ بھارت کی انگلیوں پر ناچ رہے ہیں۔اگر یہ غلط ہے تو انہیں کہیں کہ وہ اس کی تردید کریں اور یہ بتائیں کہ ڈیم سے انہیں کیا رنجش ہے۔ بجلی نہ ہو، لوڈ شیڈنگ ہو، پینے کو پانی نہ ہو، فصلیں سیراب کرنے کے لئے بھی پانی نہ ہو تو یہ لوگ بڑے خوش۔ نہال۔
بھارت ہمارے اندر بھی گھس چکا ہے، اس نے بیرونی دنیا ہی سے ہمیں نہیں کاٹا، بلکہ ہمیں ایک دوسرے سے بھی کاٹ کر رکھ دیا ہے، وہ جب چاہتا ہے ہم ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈال لیتے ہیں۔سونیا گاندھی نے تو کہا تھا کہ اب ہمیں پاکستان پر فوجی جارحیت کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہم نے ثقافتی جارحیت سے اسے زیر کر لیا ہے۔سونیا کے اس دعوے کو جھٹلانے کے لئے میرے پاس ایک بھی دلیل نہیں۔
اکہتر میں کیا ہو اتھا، قوم بٹی ہوئی تھی، سول ا ور فوج ایک صفحے پر نہیں تھی، اب پھراسی بدقسمتی نے ہمیں آن لیا ہے، فوج اکیلی لڑ رہی ہے ا ور ہم سب فوج سے لڑ بھڑ رہے ہیں ، لڑتے نہیں تو اس کی مدد بھی نہیں کر تے۔امریکہ میں ٹرمپ نے نقشہ ہی بدل دیا ہے، وہ ایسی انتہا پسندانہ سوچ کاپرچار کر رہا ہے جس پر امریکی فوج پہلے ہی سے کاربند ہے، ہمارا عمران خان کہتا ہے کہ ہماری افغان پالیسی غلط ہے، چلئے بھئی یہ غکط ہے تو آپ بنی گالہ کی فیکٹری سے کوئی ایسی پالیسی بنا دو کہ بھارت بھی ہم سے خوش رہے، ایران بھی،افغانستان بھی ، سعودی عرب بھی، امریکہ بھی۔لاہور ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے والے ایک مسافر کے پاس شاید کوئی منفرد پالیسی ہو، وہ مال روڈ پراپنی زنبیل کھول کر بیٹھیں گے، اور کیا لکھوں، میرے تو ہو ش و حواس ہی گم ہیں۔