خبرنامہ

پاکستا ن میں سیاستدانوں کا بی کیوں مارا جاتا ہے….اسداللہ غالب

یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو میرے ذہن کو خلجان میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ مجھے کسی ایک سیاستدان سے ہمدردی نہیں ہے، میں کسی سیاسی پارٹی کا ممبر نہیں ہوں مگر مجھے سیاست دان بطور ادارہ عزیز ہیں۔ اگر کبھی کسی آمر کی حمایت کر بیٹھا ہوں تو مجھے اس پر سخت ندامت ہے۔

سیاسی قائدین پر دشنام طرازی کا نیک فریضہ شروع کرنے کا فیصلہ اس لمحے ہوا ہو گا جب قائداعظم نے مشرقی پاکستان کے دورے میں بریگیڈئر ایوب خان کو روز افزوں سرحدی سمگلنگ پر ڈانٹ ڈپٹ کی تھی۔
ایوب خان نے بعد میں کوئی پس پردہ اقدامات کئے ہوں گے مگر ایک روز وہ دندناتا ہوا وفاقی کابینہ میں وزیر دفاع بن بیٹھا۔ وہ اس وقت آرمی چیف بھی تھا۔ ترکی کا ماڈل اپنی بدترین شکل میں پاکستان پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ پھر اس کا راستہ روکنے والا کوئی نہ تھا۔اس نے پہلے تو جنرل سکندر مرزا کے کندھے استعمال کئے، پھر وہ خود چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گیا اور اس کے چند پہلے اقدامات میں سرفہرست یہ حکم شامل تھا کہ تجربہ کار، جہاندیدہ، بزرگ سیاستدانوں کو ایبڈو کر دیا گیا۔ ایبڈو کا مطلب آپ نااہل ہی کریں گے۔ وہ سیاست کے لئے تاحیات نااہل قرار پائے تھے۔ اورایوب خاں نے سیاستدانوں کی جگہ اپنے کور کمانڈروں کو کابینہ کے اہم مناصب پر فائز کر دیا۔
ایوب خان کو قائداعظم کی تذلیل کا ایک موقع اس وقت ملا جب صدارتی الیکشن میں اس کے سامنے محترمہ فاطمہ جناح کو اپوزیشن کا متفقہ امید وار کھڑا کیا گیا، اس الیکشن میں وہ دھاندلی ہوئی کہ خدا کی پناہ۔ مقصد یہ تھا کہ قائداعظم، بانیان پاکستان اور سیاستدانوں کی سب سے بڑی علامت کی عوامی سطح پر تضحیک کی جائے۔
یحییٰ خان دوسرے آرمی چیف تھے جو پاکستان کی بدنصیبی کی وجہ سے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن بیٹھے تھے، انہوںنے بظاہر یہ نیک نامی کمائی کہ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ شفاف الیکشن کروائے مگر وہ سیاستدانوں کا ….بی….مارنے کے موقع کے انتظار میں تھا اور یہ موقع اسے اس وقت ملا جب پاکستان میں عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی مگر یحییٰ خان نے عوامی مینڈیٹ کے مطابق اقتدار عوامی لیگ کو منتقل کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا۔یہ آپریشن پاکستان کو دولخت کرنے کا باعث بنا، یوں جنرل یحییٰ خان مشرقی صوبے کے سیاستدانوں کو متحدہ پاکستان کی سیاست سے نکا ل باہر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
جنرل گل حسن کی مجبوری تھی کہ اقتدار عوامی سیاستدانوں کو واپس کرے مگر چند برس ہی کے بعد جنرل ضیاالحق آرمی چیف بنے تو انہوںنے سیاستدانوں کا…. بی…. مارنے کے لئے ان کو سولی پر چڑھانے کے عمل کاآغاز کیا، سیاست دانوں کو کوڑے لگائے گئے، انہیں ٹکٹکیوں پر چڑھایا گیا ور پھر بھی دال گلتی نظر نہ آئی تو ایک ہائی جیکنگ کی آڑ میں سیاستدانوں کی ایک بڑی کھیپ کو ایک جہاز میں بٹھایا اور لندن بھجوا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ خس کم جہاں پاک۔ بھٹو کی بیگم نے کچھ سرگرمی دکھائی تو لاٹھیوں سے اس کی پیشانی لہولہان کر دی گئی۔ جنرل ضیا کو اپنا راستہ پھر بھی صاف نظر نہ آیا تو نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو جلاوطن کر دیا گیا۔
بے نظیر بھٹو اپریل 86ءمیں جلاوطنی ختم کرکے لاہور اتریں اور ایک فقید المثال جلوس نے ان کا استقبال کیا۔ جلوس اس قدر بڑا تھا کہ بے نظیر کے دل کی بات اس کی زبان پر آ گئی کہ اگر میں چاہتی تو ایئر پورٹ سے ملحقہ لاہور کینٹ کو آگ لگا دیتی، انہوں نے ایساکیا تو نہیں لیکن ان کے دل میں جس فریق کے خلاف جذبات مچل رہے تھے، ان کا اظہار تو کر دیا گیا۔
جنرل ضیا کے حادثے کے بعدچند آرمی چیف پس منظر میں رہ کر بادشاہ گر بنے رہے۔صدر اسحاق خان کو تو صرف استعمال کیا گیا۔مگر ایک آرمی چیف نے تو نواز شریف کو ڈنڈا دکھایا اور استعفیٰ طلب کیا، جس پر نواز شریف کوایک تاریخی تقریر کرنا پڑی، انہوں نے کہا تو یہی کہ نہ ڈکٹیشن لوں گا، نہ جھکوں گا۔ مگر ان پر دباﺅ اس قدر تھا کہ بالآخر امپائر نے اسحاق خان اور نواز شریف دونوں کو اقتدار سے باہر کیا۔ سیاست دانوںنے پاﺅں جمانے کی کوشش ضر ور کی مگر بے نظیر اور نواز شریف کو ہر بار کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کیا گیا اور ہر نگران حکومت نے احتساب کا نعرہ لگایا، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دھما چوکڑی میں پس منظر طاقتوں کو پاکستان سے نگران وزیراعظم بھی نہ ملا تو ایک ایسے شخص کو وزارت عظمی کے منصب پر بٹھا دیا گیا جو امریکی شہری تھا، جب غلطی کا احساس ہوا تواسے پاکستان کا شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔ ملک معراج خالد جیسے شخص کو بھی کرپشن کے خلاف نعرے کے ساتھ نگران وزیرا عظم بنایا گیا۔ یہی نعرہ ایک زمانے میں جنرل ضیا نے بھی اس قدر شدومد سے لگایا کہ اس کے طفیلی سیاستدانوںنے بھی یہ نعرہ اپنا لیا کہ پہلے احتساب۔ پھر انتخاب۔ حالانکہ جنرل ضیا نے نوے روز کے اندر الیکشن کا وعدہ کیا تھا، وہ ا س وعدے سے مُکر گیا اور پاکستانی عوام کے ساتھ یہ سفید جھوٹ بولنے والے جنرل ضیا نے پاکستان کے آئین میں صادق اور امین کی ایک شق ڈال دی۔ جو خود صادق اور امین نہ تھا، جھوٹا اور غاصب تھا اور ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی چڑھانے کے جرم کا ارتکاب کر چکا تھا، وہ دوسروں پر صادق اور امین ہونے کی شرط مسلط کر گیا۔
یہی کچھ جنرل مشرف نے کیا۔ اس نے دوتہائی اکثریت کے حامل نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا، ان پر پستول تان کر استعفی طلب کیا گیا مگر نواز شریف ڈٹ گئے، انہوں نے حقارت سے کاغذ کو ٹھڈا مارا اور انہیں سیف ہاﺅسوں، قلعوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بند کیا، درجنوں مقدمے بھی چلائے اور ان میں سزا بھی سنائی۔ بالآخر پوری شریف فیملی کو جلاوطن کر دیا اور حمزہ شہباز کو یر غمال کے طور پر پاکستان میں رکھا۔ اسی جنرل مشرف کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلا وطنی سے واپسی پر لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا، یہی وہ لیاقت باغ ہے جہاں پاکستان کے پہلے ا ور قائد اعظم کے سب سے بااعتماد اور قریبی ساتھی لیاقت علی خان کو بھی گولی کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ہے پاکستان میں سیاستدانوں کا قلع قمع کرنے کی ایک ہلکی سی جھلک، اس کی تفصیل لکھی جائے تو سینکڑوں جلدوں پر ایک انسائیکلوپیڈیا مرتب ہو جائے گا۔
قائداعظم سے ایک گناہ سرزد ہو گیا کہ انہوں نے ایک فوجی بریگیڈئر پر کرپشن کا الزام لگایا، بعد میں یہ الزام صرف اور صرف سیاست دانوں پر ہی لگتا رہا اورآج بھی نواز شریف پر کرپشن کے الزام کا ہی مقدمہ چلا۔ عمران خان، جہانگیر ترین اور پانامہ لیکس میں شامل سینکڑوں دوسرے پاکستانی بھی اس مقدمے کی زد میں آئیں گے، ابتدا میں شریف فیملی کا قلع قمع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان کے سر پہ حدیبیہ کی تلوار لٹکی ہوئی ہے، اگر آج شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم منتخب ہو جاتے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ حلف لینے سے بھی پہلے نیب انہیں اپنے ریفرنسوں میں طلب کر لے۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر ختم ہو گا، مشرقی صوبے کے پاکستان کے بانی سیاستدانوں کا قلع قمع یوں کیا گیا کہ انہیں پاکستان سے ہی کاٹ کر پرے پھینک دیا گیا۔ اب رہ گئے بچے کھچے بقیہ پاکستان کے سیاستدان تو ان کی قسمت داﺅ پر لگی ہوئی ہے۔اگر پاکستان نے چلنا ہے تو ان سیاست دانوں کا وجود بھی ناگزیر ہے ا ور اگر چودھری نثار سچ کہتے ہیں تو ہماری بربادیوں کے فیصلے آسمانوں پر ہورہے ہیں اور صادق اور امین فرشتے پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کر کے ہی دم لیں گے۔
پاکستان کی طرح دنیا کے کسی بھی ملک میں سیاست دانوں کابحیثیت ادارہ انتقامی احتساب نہیں کیا گیا، امریکہ میں نکسن کاا حتساب ہو ااور وہ خود ہی چلا گیا، ابھی برطانیہ میں ڈیوڈ کیمرون بریگزٹ کا ریفرنڈم ہارا تو وہ خود ہی مستعفی ہو گیا، ان دو مثالوں کے علاوہ بھی اکا دکا مثالیں ضرور ہوں گی مگر ہر ملک کو سیاسست دان ہی چلاتے ہیں ۔ اور اگر کسی ملک نے دنیا کے نقشے پر رہنا ہے تو اسے سیاستدان ہی چلائیں گے، فرشتے یہ فریضہ نہیں سنبھال سکتے۔
میں دکھی ا ور بوجھل دل سے بتانا چاہوں گا کہ قائد اعظم پر بھی کرپشن کا الزام لگانے والے اسی پاکستان میں موجود ہیں، مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے لاہور کے ایک عہدیدار نے ایک محفل میں یہ الزام تراشی کرتے ہوئے کوئی ذرا بھی جھجک محسوس نہ کی کہ ان کے پاس قائد اعظم کے قبضوں اور الاٹ منٹوں کے شواہد موجود ہیں۔ اس پر محفل میں سخت ہنگامہ برپا ہو گیا اور نوائے وقت کے ایک سینیئر لکھاری منظوراحمد تو ان کے گریبان کی طرف جھپٹ پڑے۔
قائد اعظم کی جائیدادوں پر آج کس کا قبضہ ہے، اس کی تحقیق ضرور کی جانی چایئے۔
مولانا سمیع الحق نے خطبات مشاہیر اور مکاتیب مشاہیر کئی جلدوں میں مرتب کئے ہیں، ان میں پاکستان کی ایک عدالت میں اس شخص پر غداری کے مقدمے کی روداد شامل ہے جس نے قبل از پاکستان قائداعظم کو کافراعظم کہا تھا، عدالت نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ الفاظ کہے تھے، اس نے جواب دیا کہ میںنے یہ الفاظ ایک بھرے جلسہ عام میں کہے تھے، اب دو تین ججوں کے سامنے ان لفاظ کو دہراتے ہوئے مجھے کوئی خوف لاحق نہیں۔
یہ شخص بھی صادق اور امین کے معیار پر قائداعظم کو پرکھ رہا ہو گا۔
یہ ہے قومی سیاستدانوں کے باپ، قوم کے باپ کا حشر، بھائی اور بھولے نواز شریف! تم کس باغ کی مولی ہو۔