خبرنامہ

پاک امریکہ تعلقات کی مرمت کا عمل…اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

آج کی بڑی اور بری خبر تو یہ تھی کہ ملک کے وزیر خزانہ کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، چھاپہ مار ٹیم اورا س کو بھیجنے والوں کو اچھی طرح علم تھا کہ اسحق ڈار ملک میں نہیں ہیں، مقصد ان کے اہل خانہ، رشتے داروں اور ملازمین کو ہراساں کرنا تھا، اور یہ ثابت کرنا تھا کہ ملک میں اصل حکمران کوئی اور ہے جوانتقام پر تلا بیٹھا ہے۔ یہ مقصد پورا ہو گیا۔ پاکستان ایک نرالی ریاست ہے جو اپنے حکمرانوں کے خون کی پیاسی ہو گئی ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، ماں ڈائن بھی ہو جائے تو سات گھروں کو چھوڑ دیتی ہے۔ چلئے یہ ایک افسوسناک ڈرامہ ہے جو اپنے کلائمکس کی طرف بڑھ رہا ہے۔
میں اس بڑے اور سنگین ایشو کو چھوڑ کر قارئین کو امریکہ لئے چلتا ہوں جہاں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو پاک امریکہ تعلقات کی مرمت کا کٹھن کام کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے راستے میں مشکلات بہت ہیںمگر وہ کوئی کسر نہیں چھوڑرہے، انہوںنے امریکی نائب صدر سے ملاقات کی ہے جس میں یہ مفاہمت ہو گئی ہے کہ دونوںملکوں کے مابین بات چیت جاری رہنی چاہئے۔ دونوں راہنماﺅں کی ملاقات میں یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ افغان مسئلے کو دو طرفہ تعلقات میں آڑے نہیں آنا چاہئے۔
وزیراعظم کو پاکستان کا مقدمہ لڑنے کا بہترین موقع کونسل آف فارن ریلیشنز (سی ایف آر) کے پلیٹ فارم پر ملا۔ یہ ایک سنجیدہ اور با وقار ادارہ ہے۔ جہاں عالمی حالات کا انتہائی گہرائی میں اور تفصیل سے تجزیہ کیا جاتا ہے، وزیراعظم عباسی کو اس ادارے میں کافی وقت ملا، ان سے ہر سوال کیا گیا اور انہوںنے بھی کھل کر قومی موقف کو واضح کیا۔ سی ایف آر کے اینکر کو لاہور کے حالیہ ضمنی الیکشن کی پوری پوری خبر تھی اور اس نے سوال پوچھا کہ امریکہ نے ایک شخص کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے مگر ضمنی الیکشن میں ان کی حمائت سے ایک امیدوار نے الیکشن لڑا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم امریکہ کو مطمئن کرنے کے لئے اس شخصیت کو نظر بند کر چکے ہیں۔ لیکن اگر کسی امیدوار نے اس شخص کی تصویریں ووٹ اکٹھے کرنے کے لئے استعمال کی ہیں تو ہمارا الیکشن کمیشن ایک آئینی اور خود مختار ادارہ ہے جو قوانین کے تحت متعلقہ امید وار کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔ایک سوال اور بھی لازمی تھا کہ کیا پاکستان حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کر رہا ہے اور ان کی خفیہ کمین گاہیں پاکستان کے اندرموجود ہیں اور کیا انہیں افغانستان پر حملوں کی آزادی حاصل ہے۔ وزیر اعظم نے کلیئر مائنڈ کے ساتھ جواب دیا کہ پاکستان میں حقانی نیٹ ورک یا کسی اور دہشت گرد گروپ کی پناہ گاہیں نہیں ہیں، پاکستان ان سب کو نیست و نابود کر چکا ہے اور اگر کسی کے پاس اس کے برعکس معلومات اور شواہدہیں تو وہ ہمارے ساتھ میز پر بیٹھے، بات کرے، ہم اسے مطمئن کریں گے اور اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔ وزیراعظم نے تفصیل سے بتایا کہ پاکستان ایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان صرف دہشت گردوں کے ہاتھوں اٹھا چکا ہے، ہمارے فوجی ا فسر، جوان اور سویلین ہزاروں کی تعداد میں شہید ہو چکے ہیں اور زخمی ہونے والے لاکھوں میں ہیں، پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کئی آپریشن کئے، اس وقت بھی رد الفساد کے نام سے خیبر ایجنسی میں ایکشن لیا جا رہا ہے، پاکستان کی یہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں ، اب صرف ہمارے عوام ہی نہیں، دنیا بھر کے عوام راتوں کو بے خوف ہو کر سکون کی نیند سو سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے ایک ا ور سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان نہیں سمجھتا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل ہے، اس لئے افغان مسئلے کو پرامن طور پر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں پاکستان اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے تیار ہے۔ ایک مرحلے پر کسی تلخ سوال کے جواب میں وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ ہم خطے میں ہر ملک کے اقتدار اعلیٰ اورا س کی خود مختاری کا حترام کرتے ہیں، اسلئے ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے اقتدارا علی اور خود مختاری کا پورا پورا احترام کیا جائے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ ڈرون حملوں پر کیا کہیں گے۔ وزیراعظم نے قومی جذبے سے جواب دیا کہ ہم ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ملک میں ان دنوں ڈرون حملوں کی بحث چھڑی ہوئی ہے، ایک غیرت گروپ ہے جو ڈرون حملوںکے خلاف دس برس تک نہیں بولا، اب اسے یکایک یاد آگیا ہے کہ ڈرون حملے کے بعد وزیراعظم کو امریکی سفیر سے احتجاجی ملاقات کرنا چاہئے تھی مگر وہ خیر سگالی کے مشن پر ان سے ملنے چلے گئے۔ ڈرون حملوں کے خلاف کچھ لوگ بولتے ضرور رہے ہیں مگر ان کا جواب فوجی ڈکٹیٹر مشرف سے لینا چاہئے جس نے ڈرون حملوں کے لئے امریکیوں کو بڑی فراخدلی سے شمسی ایئر بیس کی سہولت فراہم کر رکھی تھی اور اس کے پورے دور میں اور زرداری کے پورے دور میں ڈرون حملے تواتر سے جاری رہے حتیٰ کہ زرداری کے دور میں امریکہ نے پاکستان کے ا قتدار اعلیٰ کو اس حد تک پامال کیا کہ ایبٹ آباد پر حملہ کیا اور اسامہ بن لادن کو شہید کرنے کا دعویٰ کیا۔ جو قوم یہ سب کچھ برداشت کرتی رہی ہے، اس کی غیرت جاگ گئی ہے تو یہ بڑا معجزہ ہے۔
وزیراعظم سے ایک سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کے ٹیکٹیکل ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ پاکستان میں ایک ڈیفنس کمان اینڈ کنٹرول کا فول پروف نظام ہے، اور یہ اسی معیار کا ہے جیسا باقی جوہری طاقتوں کا۔ دوسرے یہ ٹیکٹیکل ہتھیار محدود علاقے میں استعمال کے لئے بنائے گئے ہیں اور ہماری مجبوری ہے کہ بھارت ہمیں کبھی کولڈ اسٹارٹ کی دھمکی دیتا ہے اور کبھی ہاٹ اسٹارٹ کی، اس لئے ہمیں اپنا دفاع عزیز ہے مگر یہ جوہری ہتھیار کسی طور دہشت گردوں کی دسترس میں نہیں آ سکتے، باقی دنیا کو اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کی طرف توجہ دینی چاہئے۔
کشمیر پر ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے جذباتی لہجے میں کہا کہ بھارت کی افواج کشمیر میںمظالم ڈھا رہی ہیں، کشمیری عوام حق خود اختیار ی کا مطالبہ کر رہے ہیں، ہم ان کے اس حق کی حمایت آج سے نہیں، ستر برس سے کر رہے ہیں اور یہ حق انہیں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ملنا چاہئے۔
بھارت سے تعلقات کے بارے وزیراعظم نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں، دوستی کے روابط چاہتے ہیں، بھارت کو ہمارے مثبت اشاروں کا جواب مثبت طور پر دینا چاہئے۔
اور امریکہ سے تعلقات کیسے سنوارنے کا ارادہ ہے؟ نیویارک ٹائمز کے دفاعی تجزیہ کار میزبان نے تیکھا سوال پوچھا۔
وزیراعظم نے سکون سے جواب دیا، پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ ستر برس پرانی ہے، اونچ نیچ آتی رہی ہے مگر بنیادی نکتہ دوستی کے محور پر گھومتا ہے، یہ دانش مندی نہیں ہو گی کہ افغان مسئلہ باہمی تعلقات کو یرغمال بنا لے۔