خبرنامہ

پاک فوج نرغے میں

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پاک فوج نرغے میں

نئے آرمی چیف کی تقرری سے چند گھنٹے پہلے بڑی عجلت میں خواجہ آصف کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے۔ بظاہر اس تقرری کی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے لاپتا افراد کے سلسلے میں وزیراعظم کو بطور وزیر دفاع طلب کیا تھا، وزیراعظم یا تو عدیم الفرصت ہیں یا وہ عدلیہ کے سامنے پیشی کو اپنے وقار کے منافی سمجھتے ہیں، اس لیے انہوں نے پیشی بھگتنے کے لیئے وزارت دفاع کا چارج خواجہ آصف کو دے دیا مگر خواجہ آصف کوثر تسنیم سے ملی ہوئی جوز بان فوج کے ادارے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس سے ہرکوئی اچھی طرح آگاہ ہے تو کیا یہ سمجھاجائے کہ انہیں یہ منصب بطور خاص کسی کو چھڑانے کے لیئے عطا کیا گیا ہے۔
جنرل راحیل نے وزیردفاع کو کیا سیلوٹ کر دیا کہ اب ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اس سیلوٹ کو عملی طور پر بھی ثابت کریں کہ وہ اپنے وزیرکا دل سے احترام کرتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی خواہش ہے کہ اول تو فوج کا ادارہ ہونا ہی نہیں چاہئے اور اگر ہو بھی تو صرف سلامیوں کے لیئے، بینڈ باجے کے لیئے بھل صفائی کے لیئے میٹرریڈنگ کے لیئے اور گھوسٹ اسکولوں کا سراغ لگانے کے لیئے۔
صدر زرداری کے دور میں بھارت نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کونئی دہلی کے کٹہرے میں طلب کیا، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جھٹ آرڈر دیا کہ جنرل پاشا وقت ضائع کئے بغیر دلی کا جہاز پکڑیں مگر وہ نہیں گئے تو اسے حکم عدولی قرار دیا گیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لانے کی تجویز سامنے آئی مگر یہ کہیں فائلوں میں اپنی موت آپ مرگئی۔
جنرل کیانی نے چلے جانا تھا، اس کا اعلان انہوں نے خود کیا مگر آخر وقت تک یہی پروپیگنڈا جاری رکھا گیا کہ جنرل کیانی کی بدن بولی سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ جی ایچ کیو سے رخصت ہو رہے ہیں، اس پروپیگنڈے کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ جنرل کیانی کوعہدے کا حریص ثابت کیا جائے۔ پروپیگنڈے کی اس جنگ میں وال اسٹریٹ جزل کوبھی جھونک دیا گیا، ہر ٹی وی چینل پر منہ کھولنے والا اینکر، جنرل کیانی کے لیے مزید توسیعی فیلڈ مارشلی یا جائنٹ چیف کی چیئر مینی کے آرڈر جاری کر رہا تھا، اس پروپیگنڈے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جنرل کیانی آسانی سے جانے والے نہیں اور وہ عہدے سے چمٹافرہنا چاہتے ہیں۔
نے آرمی چیف کا تقرر ہو گیا، اب کسی کو چیف بننا تھا لیکن جن لوگوں کو کیڑے تلاش کرنے کا شوق ہے وہ بہر صورت اس فیصلے پرتنقید کرتے، اگر جنرل ہارون کو یہ منصب مل جاتا تو کہا جاتا کہ وزیراعظم پر ایک ایسا شخص تھوپ دیا گیا ہے جس نے ٹرپل ون بریگیڈ کے سربراہ کے طور پر ان کے خلاف بارہ اکتوبر ننانوے کو کاروائی کی تھی، اب اگرا نہیں آرمی چیف نہیں بنایا گیا تو کسی نے نہیں کہا کہ وزیراعظم ذاتی رنجش اور پسندو ناپسند کے تحت چناؤ کیوں کرتے ہیں۔ جنرل ہارون میں ایک نہیں لاتعداد کیڑے نکال لیئے گئے ہیں، یہ کہ انہوں نے کوئٹہ کے کمانڈر کی حیثیت سے کمیٹی کے خلاف آپریشن کیا، یہ بھی کہ انہوں نے سوات آپریشن کی قیادت کی۔ کوئی یاد کر رہا ہے کہ شہبازشریف نے جلاوطنی ختم کر کے لاہور اترنے کی کوشش کی تو فلاں فوجی افسر نے انہیں دھکا دیا فلاں فوجی افسر نے انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر دوسرے جہاز میں سوار کرا کے جدہ چلتا کیا۔
وزیراعظم آج کلی اختیارات کے مالک ہیں جس کے ساتھ جو چاہے سلوک کر گزریں مگر وزیراعظم سمیت ہر کوئی جانتا ہے کہ فوج میں حکم عدولی کا مطلب کیا ہوتا ہے سیدھا کورٹ مارشل، اگر حکم عدولی جائز اور قابل معافی ہوتی تو وزیراعظم سب سے پہلے جنرل ضیاالدین بٹ کی بحالی کا حکم جاری کرتے اور ساتھ ہی اپنے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال کو تمام اعزازات کے ساتھ بحال فرماتے۔ ان دو افسروں نے اس وقت کے جی ایچ کیو کے احکامات کونہیں مانا تھا۔
فوج کو مارشل لا کے نفاذ سے باز رکھنا اور بات ہے اور اس کو تھلے لگانا اور بات ہے۔ مارشل لا کا نفاذآ ئین کی خلاف ورزی ہے لیکن فوج کو ذاتی جاگیر سمجھنا بھی آئین کے منافی ہے۔ حکومت انہیں اپنادم چھلا نہیں بناسکتی۔ حکومت توینگ ڈاکٹرز کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بھٹو دور میں جنرل گل حسن کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، مصطفی کھر نے انہیں اغوا کیا اور قیدی بنا لیا اور ان کی جگہ جنرل ٹکا خان کو آرمی چیف بنادیا گیا۔ یہی گل حسن تھے جنہوں نے خصوصی طیارہ بھیج کر بھٹو کو یو این او سے بلوا کر سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے منصب پر فائز کیا تھا۔ نواز شریف نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی طرف سے پیش کردہ ایک تجویز پرناراضی کا اظہار کی اور ان سے استعفاما نگ لیا۔
کون جانتا ہے کہ ان دنوں سعید مہدی کہاں ہیں اور انہوں نے کن تمناؤں سے سرشار ہو کر نواز شریف کی خدمت کی مگر اب وہ اقتدار کی راہداریوں کے آس پاس بھی نظر نہیں آتے۔ طارق عظیم اور ان کے بھائی شجاعت عظیم ان دنوں کہاں ہیں۔ ن لیگ کی انتخابی مہم ذاتی جیب سے چلانے والے ان لوگوں کو کیا صلہ ملا۔ فوج تو پھر بھی مغضوب ہے، اس کے ساتھ حکومت جو کرے گی، وہ سب کو نظر آئے گا۔ جنرل کیانی کو کھانے کھلا کر رخصت کیا گیامگرنومبر کی ایمرجنسی پر بغاوت کیس کو بھی آگے بڑھایا جارہا ہے، ان دنوں کیانی صاحب نائب آرمی چیف تھے اور ایمرجنسی کا فیصلہ تنہا مشرف کا نہیں، ان کے بقول تمام کور کمانڈرز سے صلاح مشورے کے بعد یہ فیصلہ ہوا۔ کیا ان سب کو غداری کے مقدے کی لپیٹ میں لیا جائے گا، کیا موجودہ حکمران بھاگ بھاگ کر تر کی جاتے ہیں تو وہاں یہ سبق سیکھنے جاتے ہیں کہ فوجی جرنیلوں کو سزائیں دینے کا آسان اور تیر بہدف نسخہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی الگ فوج سے اپنا ادھار چکانے کی فکر میں ہے، ان کے لیڈر کی حکومت کا تختہ الٹا گیا اور پھر تختے پر چڑھا دیا گیا، دو مرتبہ محتر مہ کی حکومت بھی پس پردہ رہ کر فوج نے ختم کی محترمہ کو ایک فوجی حکمران کے دور میں شہید کیا گیا۔ اتنے ہی دکھ نون لیگ کی قیادت کو لاحق ہیں۔ جماعت اسلامی کے بھی تیور بگڑے ہوئے ہیں، وہ امریکی جنگ کا ساتھ دینے والی پاک فوج کونہ غازی مانتی ہے نہ شہید، فضل الرحمن تو دوقدم آگے ہیں،،وہ امریکی میزائل سے مرنے والے کتے کو بھی شہید کہتے ہیں۔ ملک میں ایک لبرل اور مادر پدر آزادطبقہ ہے جو امریکہ اور بھارت سے مال بٹورکر پاک فوج کی جان کے درپے ہے۔
نئے آرمی چیف کو پہاڑ جیسا چیلنج در پیش ہے۔ وہ عمران خان کی شہ پرامریکہ سے لڑیں بھڑیں حکومت وقت کی اطاعت گزاری میں تین سال بر کریں، بھارتی ریشہ دوانیوں کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوں یا آستین کے سانپوں کو کچلنے کی کوشش کریں، پاک فوج سخت نرغے میں ہے۔ (30 نومبر 2013ء)