خبرنامہ

پروفیسر محفوظ قطب کے ساتھ پے در پے حادثات۔۔اسداللہ غالب

ایک غیر معمولی صورت حال نے مجھے اس موضوع پر قلم اٹھانے کے لئے مجبور کیا ہے۔
پروفیسر قطب اسی کے پیٹے میں ہیں، ساری عمرتدریس اور تعلم میں گزاری، پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دنیاکے مقابل کھڑا رکھنے میں انہوں نے نمایاں کردارا دا کیا۔
ان کا خطاطی کا شوق بہت بڑی نیکی کے مترادف ہے، وہ اللہ اورا سکے رسول ﷺ کے اسمائے حسنہ تحریر کرتے ہیں اور کیا مجال کہ ایک بار کسی طرز سے لکھا ہویا جو رنگ استعما ل کئے ہوں، وہ دوبارہ کسی خطاطی میں نظرآئیں، ہر نقش نیا اور منفرد۔خطای کو انہوں نے کمائی یا شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا۔ ادھر کچھ لکھا، ادھرا س کو فریم کروایا اور ساتھ ہی کسی دوست کو ہدیہ کر دیا، دو تین برس پہلے میں نے انہیں ڈاکٹر آصف جاہ سے متعارف کروایا، وہ اپنے رفاعی اور خیراتی کاموں کے لئے چندہ اکٹھا کرتے ہیں تو زیادہ عطیہ کرنے والوں کو قطب صاحب کی خطاطی پیش کرتے ہیں،ایک ایک تقریب میں وہ لاکھوں اکٹھے کر لیتے ہیں، پروفیسر صاحب نے اپنے ایک اور دوست کو بھی پیش کش کی کہ وہ اپنے فلاحی کاموں کے لئے ان کی خطاطی کے شہہ پاروں کی نمائش لگائیں اور لوگوں سے پیسہ اکٹھا کر لیں ،مگر دوست نے یہ کہہ کر ان کا شکریہ ادا کیا کہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے اسمائے گرامی کی تجارت پر دل نہیں مانتا۔
پروفیسر بڑی دھیمی طبیعت کے مالک ہیں، بغیر ضرورت لب کشائی نہیں کرتے، ان کے گھر جانے کا کئی بارر اتفاق ہوا، کیا مجال کہ کسی کے قدموں کی آ ہٹ بھی سنائی دے، ایک بار انہوں نے بلوچستان سے آنے والے مہمان سردار غوث بخش باروزئی کی ضیافت کی، تو پہلی مرتبہ ان کے ایک پوتے کی شکل نظر آئی ا ور وہ بھی اس لئے کہ میں بھی اپنے ساتھ اپنے ایک کم عمر پوتے عبداللہ نعیم کو لے گیا تھا۔مگر عبداللہ کی دوستی سردار صاحب سے استوار ہو گئی اور جب کبھی سردار صاحب کا فون آئے تو وہ عبداللہ کے بارے میں ضرور استفسار کرتے ہیں۔پروفیسر قطب صاحب کا پوتا شاید کینیڈا سے آیا تھا، وہیں پلا بڑھا ،اسلئے دونوں بچوں میں قربت نہ پید اہو سکی۔سردار باروزئی کو یہ ضیافت رہ رہ کر یا دآتی ہے کہ ا س میں پروفیسر صاحب کے خلوص کی آمیزش زیادہ تھی۔
معافی چاہتا ہوں ، تمہید طویل پکڑ گئی۔ کہنا یہ چاہتاتھا کہ ا سطرح کے ایک نفیس انسان کو مصائب اور آلام گھیر لیں تو ایساتصور بھی ممکن نہ تھا، تقدیر کو بھی تو نیک انسانوں سے حیا کرنی چاہئے۔مگرا س کا پہیہ گردش میں آ جائے تو وہ نیک وبد اورآقا و غلام کی تمیز نہیں کرتی۔ایک روز ہم دس پندرہ دوست پروفیسر صاحب کے منتظر تھے، یہ کوئی مہینہ پہلے کی بات ہو گی، پروفیسر صاحب نے گھر سے چلتے وقت فون بھی کیا کہ بس پندرہ منٹ میں پہنچ رہے ہیں مگر پچیس منٹ گزر گئے اور وہ نہ آئے اور اب ان کا فون بھی بند مل رہا تھا۔ کہیں شام کو دیر سے ان کے ساتھ رابطہ ہو اتو بتانے لگے کہ وہ ہماری طرف آ ہی رہے تھے کہ انہیں اتفاق ہسپتال میں داخل اپنی چھوٹی بہن کی ناگہانی وفات کی خبر ملی تو وہ ا ن کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گئے۔ابھی چار ورز پہلے گل شاہ کے چودھری وحید نے فون کیا کہ رات کو پروفیسر صاحب کی بڑی بہن کا انتقال ہو گیا تھا ، انہوں نے صبح سات بجے ہی جنازہ رکھ لیا، س لئے کسی کو اطلاع نہیں دی جا سکی۔ میں حیران پریشان اگلے روز پروفیسر صاحب کے پاس پہنچا ، دعائے مغفرت کی اور پوچھا کہ آپ نے کسی کو بتایا تو ہوتا، کہنے لگے ، ذاتی دکھ پر دوستوں کو تکلیف دینے کا روا دار نہیں ہوں، یاا للہ! یہ کیسا صوفی منش انسان ہے۔لوگ تو اپنے اس طرح کے دکھ کو بھی ذاتی تشہیر کے لئے استعمال کرتے ہیں، ایک صاحب کی والدہ کی وفات ہوئی، ان کے بیٹے بھی پوتوں اور نواسوں والے تھے، مگر جنازہ کی اطلاع مرحومہ کے بھائی کی طرف سے آئی۔ ایک صاحب فوت ہوئے تو ان کا جنازہ ا ن کے سسرال سے ا ٹھایا گیا حالانکہ مرحوم کے والدین کا گھر بھی اسی شہر میں تھا۔والدین کیا سوچتے ہوں گے کہ بیٹے کا جنازہ بھی اپنے گھر سے نہ اٹھا، یہ تو جنازہ ہائی جیک کرنے کے مترادف ہے، غائبانہ جنازے تو ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن یہ کبھی نہ دیکھا تھا کہ میت کسی دوسرے کے گھر سے اٹھے۔ جن دنوں میں گاؤں میں رہتا تھا تو رواج تھا کہ جنازے کے بعد گھر والے کسی چوپال یا مسجدمیں بیٹھ جاتے تھے اور عزیز رشتے دار ایک ایک کر کے دعا کے لئے آتے رہتے، چوپال میں بیٹھنے والے حقے کا کش لگاتے اور دنیا بھر کی غیبت کا سلسلہ جاری رکھتے۔اب شہروں میں دوسرا ہی رنگ ڈھنگ ہے۔ وہی خیمے جو شادیوں پر نصب کئے جاتے ہیں،میت پر بھی وہی استعمال کئے جاتے ہیں،اسی طرح پانی کی سبیلیں، گوناں گوں مشروبات اور سبز چائے۔ بجلی کی بلا تعطل فراہمی کے لئے کرائے کے جنریٹر، میں ایک جنازے میں گیا، اس کے ساتھ و الے گھر میں ایک دوست رہتا تھا،ا سے فون کیا کہ تم کہیں نظر نہیں آرہے ہو،ا س نے کہا کہ اس وقت تو گالف کھیل رہاہوں مگر صبح یہاں قناتیں ا ور کرسیاں سج رہی تھیں، میں نے گمان کیا کہ کوئی منگنی یا شادی کی تقریب ہے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ شادی ا ور غمی کی تقریب میں کوئی فرق ہی نہیں رہ گیا۔کوئی وقت آئے گا کہ قل ا ور چہلم کی تقریب کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد ہونے لگے گی۔میجر رشید مرحوم کہا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں مردے کی ہیئت کذائی دیکھ کر کمزور دل والے بھی سینے میں درد کی ٹیسیں محسوس کرتے ہیں ،مگر یورپ میں میت کو کئی روز تک صاف کیا جاتا ہے ۔ پھرا سے سرخی پاؤڈر لگا کر بکسے میں بند کر کے گھر بھیجتے ہیں۔ہم اپنے مرنے والوں کی آ نکھوں ، کانوں اور ناک میں روئی ٹھونس دیتے ہیں۔
دکھ کوخاموشی سے جھیلنے کا وطیرہ کوئی پروفیسر قطب صاحب سے سیکھے۔انہی دنوں میں ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ ان کی قیمتی گاڑی آگے ا ور پیچھے سے بری طرح مڑی تڑی ہوئی تھی، کہنے لگے، رات کو گھر واپس آ رہے تھے، ڈرائیور کوکرائے پر منگوایا تھا،ا س نے کہیں ٹھوک دی۔بچے کا کھلونا بھی ٹوٹ جائے تو وہ چیخیں مارتا ہے مگرپروفیسرصاحب صبراور استقامت کا مجمسہ بنے بیٹھے تھے۔یکے بعددیگرے دو بہنوں کی جدائی ا ور وہ بھی طویل رفاقت کے بعد، بڑی بہن تو ماں کی جگہ ہوتی ہے اور چھوٹی بہن ویر ویر کہتے ہونٹ خشک کر لیتی ہے۔ مگر کیا مجال کہ پروفیسر صاحب نے ان پے در پے صدموں پرکسی کے سامنے آزردگی یا افسردگی کا اظہار کیا ہو ، مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ا ن کی آنکھوں کی بجائے ان کے دل و دماغ میں آنسووں کا سونامی موجزن ہو۔
اللہ ان کی محترم بہنوں کے درجات بلند کرے ا ور پس ماندگان کو جو صبرا ور حوصلہ بخشا ہے، وہ ہمیں بھی عطا کرے۔ آمین!!