خبرنامہ

پرویز رشید ہمارے درمیان۔۔اسداللہ غالب

میں وزیراطلاعات سے مانگنے تو کچھ اور گیا تھا مگر جب انہوں نے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے دفاع میں یہ کہا کہ بعض پرائمری ٹیچروں کی تنخواہ ایک لاکھ سے زائد ہوتی ہے اور بعضٖ چپراسی پچھتر ہزار ماہوار وصول کرتے ہیں۔تو میں نے بے اختیار ہو کر کہا کہ مجھے کسی پرائمری ا سکول کا ٹیچر لگوا دیں۔ مگر انہوں نے سنی ان سنی کر دی۔
پرویز رشید دفاعی معاملات میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں، بھلا لاہوری ایڈیٹروں کے کیا قابو آتے۔جو بھی سوال داغا جاتے، اسے اس انداز سے ٹھس کرتے کہ اگلے بندے کو سوال درسوال کی ہمت ہی نہ ہوتی۔
پرویز رشید ضرورت سے زیادہ فریش تھے حالانکہ پانچ گھنٹے کا سفر کر کے اسلام آباد سے آئے تھے۔ یہ لاہوریوں سے ان کے عشق کا مظہر تھا۔انہوں نے ایڈیٹروں کے ساتھ دو گھنٹے گزارے، جب وہ گئے تو ایڈیٹر مضمحل ہو چکے تھے۔
کلمات استقبالیہ میں کہا گیا کہ ہمارے مہمان وزیر اطلاعات بھی ہیں ، اور حکومت ا ور اپنی پارٹی کے ترجمان بھی،مگر مہمان نے کہا کہ وہ ان دونوں حیثیتوں کو ایک طرف رکھ کر اپنے بھائیوں کے درمیان بیٹھے ہیں۔اور یہاں بے تکلفی ا ور دوستانہ ا نداز میں گفتگو ہو گی۔
وہ اگلے بیس منٹ بے تکان بولتے رہے، ان کا مدعا یہ تھا کہ ملک کو استحکام کی ضررت ہے، مگر پہلے تو سوویت روس کے خلاف جہاد نے اس خواب کو پریشاں کر کے رکھ دیا، یہ جہاد ہماری جھولی میں کلاشنکوف کلچرا ور ہیروئن مافیا کاتحفہ ڈال گیا۔فرقہ بندی کی لعنت بھی اسی کا تحفہ تھی ا ور اب وار آف ٹیرر نے رہی سہی کسر نکال دی ہے، ہماری معیشت زیر وزبرہو گئی ہے۔مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ، بعض سیاسی کھاڑی میدان میں آن اترے، ان کے دھرنے کی وجہ سے ملک کئی ماہ پیچھے چلا گیا، اس سے دیر تو ہوئی مگر حکومت نے اندھیرنہیں ہونے دیاا ور اپنی بہترحکمت عملی سے ا س نقصان پر قابو پا لیا۔اب پردہ غیب سے پانامہ لیکس کا قصہ سامنے آگیاا ور وہ دھول اڑائی جا رہی ہے کہ خدا کی پناہ، ہم اس سے نبٹنے کی کوشش کررہے ہیں، وزیراعظم نے کسی مطالبے کے بغیر ایک کمیشن کا اعلان کیا، مگر نیک نام ریٹائرڈ ججوں پر کیچڑا چھا لا گیا، وزیر ا عظم نے سپریم کورٹ کو خط لکھا ،مگر اپوزیشن نے ٹی او آرز پر اختلاف کو اس قدر اچھالا کہ سپریم کورٹ وقتی طور پر پیچھے ہٹ گئی۔اس وقت میں نہ مانوں والی ٹیم سے واسطہ پڑا ہوا ہے ۔ دھرنے سے پہلے بھی وزیر اعظم نے مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنا دیا تھامگر اسے تسلیم نہ کیا گیا اور ملک و قوم کے چھ ماہ ضائع کر دیئے گئے۔ اب بھی میں نہ مانوں کی تکرار ہے ، اور حکومت اپنے انداز میں اس سے نبٹ رہی ہے۔
پرویز رشید بہت کچھ کہہ گئے تھے اور شاید درست کہہ گئے تھے،اسلئے سوالات شروع ہوئے تو بات ارکان ا سمبلی کی تنخواہوں ا ور مراعات میں اضافے کی طرف چلی گئی۔وزیر موصوف نے اس سوال سے جا ن چھڑانے کی کوشش یہ کہہ کر کی، کہ ا نہیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تنخواہوں کے مسئلے پر کوئی کمیٹی کام کر رہی ہے۔ لیکن اگر آپ لوگوں کے کچھ تحفطات ہیں تو میں اپنے پیٹی بھائیوں کادفاع کرنے کے لئے یہاں موجود ہوں اور پھر انہوں نے ایک تقابلی جائزہ پیش کیا کہ ارکان اسمبلی کو صرف پچھتر ہزار روپے ملتے ہیں جبکہ اسکول ٹیچروں ا ور چپراسیوں کی تنخواہیں اس سے زیادہ ہیں ا ورا س تنخواہ میں کوئی متوسط طبقے کا رکن اسمبلی دارا لحکومت میں قیام و طعام کا بند و بست نہیں کر سکتا ، چہ جائیکہ آپ ا س سے یہ توقع کریں کہ وہ اپنا ایک پارلیمانی دفتر بھی چلائے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ارکان قومی ا سمبلی کا مطالبہ تھاکہ ان کی تنخواہ ا سی ملک کے کسی صوبے کے اراکین اسمبلی کے مطابق کر دی جائے۔ انہوں نے یہ بات راز میں رہنے دی کہ صوبوں میں ارکان اسمبلی کی تنخواہیں کیا ہیں ، میں نے کہا بھی کہ آپ ہمار احق معلومات چھین رہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ خود بھی کوئی تحقیق کر لیں، میرے منہ سے نکلا کہ ا س ادھیڑ عمری میں ہمیں پڑھنے میں لگانا چاہتے ہیں۔
وزیر اطلاعات کی گفتگو سے ایک نیا نکتہ سامنے آیا کہ دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے بعدحکومت سازی کا مرحلہ آیا تو ایک وسیع تر مک مکا کیا گیا۔ مسلم لیگ ن چاہتی تو خیبر پی کے ا ور بلوچستان مں ا پنی حکومت بنا سکتی تھی مگر ہم نے اپنا یہ حق استعمال نہیں کیا اور پشاور میں تحریک ا نصاف کی حکومت بننے دی ا ور یہ بھی طے کیا کہ اسے کبھی گرانے کی کوشش بھی نہیں کریں گے، ا سی طرح بلوچستان میں قوم پرستوں کے ساتھ شرکت ا قتدار کا فارمولہ تشکیل پایا۔پرویزر شید کے بقول وزیر اعظم کی کوشش ہے کہ ملک میں ترقی ہو، شاہراہیں بنیں ، پاک چین اقتصادی کوریڈور کی تکمیل ہو، گوادر کی بندر گا پر پہلا جہاز لنگر انداز ہو چکا، اب بجلی کے منصوبوں پر دن رات کام جاری ہے، اگلے دو سال یا چار سال میں یہ مکمل ہو جائیں گے اور آج کی لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے گی، ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ چار سال بعد کس کی حکومت ہو گی مگر ہم ملک اوراسکے عوام کے مفادات کو مقدم جانتے ہیں۔
خارجہ پالیسی کے میدان میں نئی مشکلات درپیش ہیں۔ امریکی کانگریس کے تیور بدلے بدلے سے ہیں ،ا س نے ہماری امداد کو مشروط کر دیا ہے مگر پرویز رشید نے توقع ظاہر کی کہ بہتر سفارت کاری سے ہم اس رکاوٹ پر قابو پا لیں گے ،بصورت دیگر اسلحے کی منڈیاں بڑی وسیع ہیں۔
وزیر اطلاعات کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ حکومتی دورمیں جس قدر ترقی ہوئی اور آج جو زر مبادلہ کے ذخائر ہیں وہ ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔دو گھنٹے کے سوال جواب سیشن میں وزیر اطلاعات یہ نکتہ باور کرانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ محفل کو چھوڑنے سے پہلے انہوں نے واضح کیا کہ انہیں اگلے بیس منٹوں میں ا یک اور فنکشن کے لئے لبرٹی پہنچا ہے ،ا سلئے یہ تہمت نہ لگا دینا کہ میدان چھوڑ کر بھا گ نکلا ہوں۔
میں دیکھتا ہی رہ گیا ، خیال یہ تھا کہ دوبارہ اسکول ٹیچری کی درخواست کر دوں مگر وہ۔۔۔۔ یہ جا ، وہ جا۔
یہ اجلاس تو لاہور ایڈیٹرز کلب کا تھا مگر اس کا رنگ ڈھنگ پریس کانفرنس والا تھا، اگر ایک ہی دفتر سے پانچ چھ آدمی صرف رونق بڑھانے کے لئے منگوائے جائیں گے تو پھر لاہور ایڈیٹرز کلب کے اجلاس کی تہمت تو ویسے ہی تھی۔