خبرنامہ

آبی جارحیت پر وفاقی وزیر جاوید علی شاہ کی بریفنگ….اسداللہ غالب

آبی جارحیت پر وفاقی وزیر جاوید علی شاہ کی بریفنگ….اسداللہ غالب

بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف میرے مرشد محترم مجید نظامی آخر دم تک سراپا احتجاج بنے رہے، ان دنوں ضیا شاہد نے اس مہم کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے اور اپنی کمک کے لئے ہفتے کے روز انہوںنے وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید جاوید علی شاہ کو سی پی این ای کی میٹنگ میںمدعو کیا ، جاوید علی شاہ جیسے پہلے سے جلے بھنے بیٹھے تھے، کہنے لگے کہ وہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں، یہ خطہ بھارت کی ا ٓبی جارحیت سے شدید متاثر ہے اور علاقے میں پانی کی کم یابی کی وجہ سے ہر طرف خاک اڑ رہی ہے،انسانوں ، حیوانوں تک کو پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں جو ایک گھاٹ پر ستلج کا گندا پانی پینے پر مجبور ہیں ، بھارت نے ستلج کا سو فی صد پانی فیروز پور ہیڈورکس پر رو ک رکھا ہے، دو نہریں تقسیم سے پہلے نکلتی تھیں ، بعد میں ایک نئی نہر،ا ندرا کینال نکال کر راجستھان تک پہنچا دی گئی ہے، اب بہاولنگر کی سرحد کے سامنے بھارت کی زمینیں سر سبز و شاداب ہیں اور ہمارے کھیت بنجر ہیں اور صحرا کا منظر پیش کرتے ہیں۔ سید جاوید علی شاہ نے کہا کہ پانی کا مسئلہ آنے والے وقتوںمیں سنگین تر ہوتا چلا جائے گا۔ماضی میں بڑی بڑی تہذیبوںنے دریائوںکے کناروں پہ جنم لیااور آج پاکستان میں ستلج کے کناروں پر پاکستانی تہذیب دم توڑتی دکھائی دیتی ہے۔پانی کی کمیابی کے مسئلے پر ہمیں بھرپور توجہ دینا ہوگی، موجودہ حکومت نے آبی ضروریات پر غور وخوض کے لئے الگ وزارت تشکیل دی ہے اورا س وزارت کا پہلا قلمدان ان کے حصے میں آیا تو وہ قوم کا شعور بیدا کرنے کے لئے میدان عمل میںنکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ضیا شاہد مبارکبا د کے مستحق ہیں کہ اس مسئلے کو کھنگال رہے ہیںاور سندھ طاس معاہدے کی شقوں کے اندر سے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے نکات تلاش کر رہے ہیں اور حقیقت میں یہ نکات معاہدے کے اندر شروع ہی سے موجود تھے مگر بھارت نے جارحانہ رویہ اختیار کیا ور پاکستان کو زرعی اور معاشی طور پر تباہ کرنے کے لئے سندھ طاس معاہدے کی ایک ایک شق کی خلاف ورزی شروع کردی۔
ہم سندھ طا س معاہدے کو ایوب حکومت کا ایک کارنامہ قرار دیتے ہیں مگر ایساکبھی نہیں ہوا کہ کسی دریا کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ ابھر اہو تو اقوام عالم کی پوری تاریخ میں کسی دریا کو کلی طور پر ایک ملک کے حوالے کر دیا جائے۔ یورپ میں دریائے ڈینیوب درجنوں ممالک سے گزرتا ہے، دریائے نیل چھبیس سو میل کا فاصلہ متعدد افریقی اور عرب ممالک میںسے طے کرتا ہے، دریائے مسی سپی اور ایمزان بھی کئی ممالک کو پانی فراہم کرتے ہیں ، ان دریائوں کے پانی کی تقسیم کے بیسیوںمعاہدے ہو چکے ہیں مگر سندھ طاس کی طرح کہیں ایسا نہیں ہوا کہ کوئی دریا کسی ایک ملک کو سونپ دیا جائے، ہمارے ہاں ایک نہیں ، تین دریا بھارت کو دان کر دیئے گئے، بیاس ، ستلج اور راوی کا سو فیصد پانی بھارت نے اپنے علاقوںمیں ڈیم بنا کر روک لیا حالانکہ سندھ طاس معاہدے میں بھارت کو صرف یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی زرعی ضرورت کو مکمل طور پر پورا کر لے مگر اس سے زائد پانی کو روکنے کاحق اسے حاصل نہیں تھا کیونکہ تینوں دریا بالا ٓخر پاکستان میں طویل فاصلہ طے کرتے ہیں اور ان دریائوں کے پانی پر نہ صرف عوام کو پینے کا پانی درکار ہے بلکہ حیوانوں کو بھی اسی پانی سے اپنی پیاس بجھانی ہے‘ اور تو اور آبی حیات کا انحصار بھی ا سی فالتو پانی پر تھا ، بھارت نے بدقسمتی سے جارحانہ راستہ اختیار کیاا ور ان تینوں دریائوں کے ایک ایک بوند پانی سے پاکستان کے عوام، جانوروں اورا ٓبی حیات کو محروم کر دیا، سندھ طاس معاہدے کی روح کے مطابق بھارت کو اس کا حق حاصل نہیں تھا۔
سید جاوید علی شاہ نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے کئی بار عالمی بینک سے ثالثی کے لئے رجوع کیا مگر وہاں بھارت نے یہ طعنہ دیا کہ پاکستان بلا وجہ پانی کی کمی کی شکایت کرتا ہے کیونکہ وہ کئی لاکھ ایکڑ فٹ پانی بحیرہ عرب میں بغیر کسی استعمال میں لائے پھینک رہا ہے۔ بھارت کا کہنا تھا کہ پاکستان اس پانی کو اپنے ہاں ذخیر ہ کر کے اپنی آب پاشی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے،۔ اب بھارت کے ا س مؤقف کو ہم ستم ظریفی پر ہی محمول کریں گے کیونکہ پاکستان نے لاکھ کوشش کی ، کئی بار کوشش کی کہ کالاباغ ڈیم بنا لے مگر بھارت نے پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس ڈیم کی بھرپور مخالفت کروائی اور پنجاب کے سوا باقی تینوں صوبوںمیں اسے ایجنٹ میسرآ گئے جوکالا باغ ڈیم کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔ مصیبت یہ ہے کہ سندھ والے نہ تو اس پانی کو خود کسی استعمال میں لاتے ہیں، نہ پنجاب کو اس پانی سے فائدہ اٹھانے دیتے ہیں، حالانکہ کالا باغ ڈیم کا پانی اور اس سے پید اہونے والی بجلی پورے ملک کے عوام کے استعمال میں آئے گی مگر مخالفت برائے مخالفت نے کالا باغ ڈیم کو کھلواڑ بنا کے رکھ دیا اور پاکستان ایک بڑی قدرتی نعمت سے مستفید ہونے سے محروم ہے۔ اس بریفنگ میں سندھ طاس کمیشن کے سابق سربراہ سید جماعت علی شاہ کا بار بار ذکر آیا جنہوںنے بھارت کی آبی جارحیت پر طویل عرصے تک خاموشی اختیار کئے رکھی ا ور اب ریٹائر ہو کر کینیڈا جا بسے ہیں، انہوںنے پاکستان کا سب کچھ بگاڑا مگر پاکستان ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔تاہم پاکستان نے اس عرصے میں بھارت سے یہ منوا لیا کہ وہ کشن گنگا جسے ہم دریائے نیلم کہتے ہیں، اس کے پانی کو نہیں روک سکتا، اب اگر ہمیں یہ کامیابی مل گئی ہے تو عالمی بینک میں پٹیشن دائر کر کے ہم ستلج، بیاس اور راوی سے بھی انسانی ، حیوانی ا ور جنگلی حیات کے لئے پانی حاصل کر سکتے ہیں۔
میں قارئین سے ایک سفر کا ذکر نہیں کر سکا جو میںنے ضیا شاہد اور سابق سینیٹر محمد علی درانی کے ساتھ دریائے ستلج کے معائنہ کے لئے کیاتھا، ہم ایک قافلے کی صورت میں قصور پہنچے ا ور وہاں سے ستلج رینجرز کی نگرانی اور میزبانی میں قیلو چیک پوسٹ پر پر تکلف ضیافت سے محظوظ ہوئے پھر آگے کا سفر شروع ہوا اور اس سے آگے حسین خانوالہ کو ایک طرف چھوڑتے ہوئے دریائے ستلج کے بیڈ تک پہنچے جو خالی پڑا تھاا ور اگر اس میں کہیں پانی تھا بھی تو فیروز پور شہر کی گندگی سے لبریز جس میں صنعتی فضلہ بھی شامل تھا، یہ سراسر زہریلا پانی ہے جسے حیوان پیتے ہیں تو بیماریوں کا شکار ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں، انسان پیتے ہیں تو ہیپاٹائٹس کے مرض میںمبتلا ہو جاتے ہیں ، جلد ہی ان کا جگر اور گردے جواب دے جاتے ہیں اور وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، سید جاوید علی شاہ نے کہا کہ بھارت صرف گولہ باری سے ہمارے عوام کا نقصان نہیں کرتا، بلکہ گندے نالوں کا پانی ہمارے دریائوں میں پھینک کر بھی ہمیں تباہ کر رہا ہے۔ پاکستان اس پر سخت احتجاج کرتا ہے ا ور جلد ہی ایک پٹیشن لے کر عالمی بینک کی ثالثی کے لئے رجوع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، اس ضمن میں سندھ طاس کمیشن کے موجودہ سربراہ نے ایک سمری ارسال کر دی ہے ، اس پر مکمل غورو خوض کے بعد ہم اگلا قدم اٹھائیں گے۔ سید جاوید علی شاہ کی باتیں سن کر میرے منہ سے بے اختیار نکلا کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میںتھی۔ میرے مرشد کے مشن کو آگے بڑھانے والے ابھی بہت ہیں۔ ضیا شاہد اور محمد علی درانی تو جنونیوں کی طرح اس مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔