خبرنامہ

پلوں کے نیچے سے بہت سا خون بہہ جانے کے بعد۔۔۔اسداللہ غالب

یہ منظر نناوے میں دیکھا تھا۔ میجر جنرل راشد قریشی اور سید مشاہد حسین ہر روز مشترکہ پریس کانفرنس کرتے تھے۔یہ کارگل کا زمانہ تھا ۔
اب چہرے بدل گئے ہیں، منصبدار وہی ہیں، لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ اور پرویزرشید کندھے سے کندھا ملائے بیٹھے نظر آئے، ان کے ایک جانب ہمارے دوست، پی آئی او،راؤ تحسین بھی موجود تھے۔دعا یہ ہے کہ انجام کارگل والا نہ ہو۔
ہر طرف سے شور ہے کہ پنجاب میں فوجی آپریشن شروع ہو چکا، یہ بھی افواہیں چل رہی ہیں کہ حکومت ساتھ نہیں ہے، اور یہ افواہیں اس امر کے باوجود گردش میں ہیں جبکہ وزیر اعظم قوم سے خطاب کر چکے ، امریکہ کا دورہ منسوخ کر چکے اوراس عزم کا اظہار کر چکے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، مگر کسی کی زبان تو نہیں پکڑی جا سکتی۔
بظاہر سبھی ایک صفحے پر نظرآ ر ہے ہیں مگر نظر نہیں بھی آ رہے۔ کیوں نظر نہیں آ رہے ،ا سکی بھی معقول وجوہ ہیں ۔ پنجاب کی ترجمانی کے مدارالمہام رانا ثناا للہ اصرار سے کہتے ہیں کہ پنجاب میں دہشت گردوں کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں ، جولوگ ایسی بات کرتے ہیں وہ کسی کو(یعنی فوج کو) خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ مجھے رانا ثناا للہ سے کوئی عناد نہیں، نہ میں ا س کامتحمل ہو سکتا ہوں مگر رانا ثنااللہ یہ تو بتائیں کہ پنڈا رائیاں کس ملک کا گاؤں ہے اور اس کے قرب میں کس ملک کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ ہے، کیاپنڈا رائیاں میں ملٹری انٹیلی جنس نے ایک آپریشن نہیں کیا تھا جس میں ان دہشت گروں کو ہلاک کیا گیاجو وزیر اعظم کے محلات کونشانہ بنانا چاہتے تھے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ مرنے والے مر گئے، اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ وزیرا عظم کے گھر کو نشانہ بنانا چاہتے تھے۔ثبوت یہ ہے کہ جس انٹیلی جنس اہل کار نے اس آ پریشن میں شہادت حاصل کی، اس کے لواحقین کو ایک کروڑ روپے کی امدادد دی گئی۔ اتنا بڑا انعام آخرکوئی بہت بڑا معرکہ سر کرنے کے عوض ہی عطا ہو سکتا ہے۔مزید ثبوت درکار ہوں تو اسی آپریشن میں زخمی ہونے کے باوجود داد شجاعت دینے والے ایک افسر�آج بھی ملٹری انٹیلی جنس میں فرائض ا دا کر رہے ہیں اور وہ لاہور اورا سکے نواح کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان سے ملئے اور اپنی تسلی کر لیجئے۔
یہ کہنا آسان ہے کہ پنجاب میں کہیں پنجابی طالبان کاوجود نہیں، یہ بھی دعوی کیا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں انتہا پسندی کا نام و نشان نہیں، مگرا س حقیقت سے کیسے انکار کیا جاسکے گا کہ پنجاب میں واہگہ بارڈر نہیں، یا پنجاب میں نیول کالج نہیں، یا پنجاب میں حمید نظامی روڈ پر ایف آئی اے کا دفتر نہیں۔ یا مجید نظامی روڈ پرآئی ا یس آئی کا دفتر نہیں ، یا داتا دربار نہیں ، یا بھاٹی چوک نہیں ، یا مناواں پولیس سنٹر نہیں، یا ماڈل ٹاؤن نہیں یامون مارکیٹ ا قبال ٹاؤن نہیں ، یا گلشن اقبال پارک نہیں یاآر اے بازار نہیں یا انارکلی چوک نہیں یاایف سی کالج کا پل نہیں۔یہ تمام مقامات دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ان مقامات کو پنجاب کے جغرافئے سے کیسے کھرچا جا سکتا ہے۔
میرا مقصد رانا ثنااللہ سے کوئی مباحثہ کرنا نہیں بلکہ مجھے ا س صوبے کی فکر ہے جو میرے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔
میں مانتا ہوں کہ پنجاب ایک عرصے سے پر امن تھا مگر ہمیں مستقل طور پر امن چاہئے،قیام امن کے بغیر ہماری زندگی تو حرام ہو چکی مگر آنے والی نسلوں کی بھی خیر نہیں۔
کیا ستم ظریفی کے کہ ہم نے پنجاب کے اسکول بند کئے اور اعلان یہ کیا کہ بچوں کو سردی سے بچانا مقصود ہے اور اس سردی سے بچانے کے لئے ہم نے ان اسکولوں کے سامنے مورچے کھودے، سیکورٹی گارڈ کھڑے کئے،ان کی دیواریں بلند کیں، ان کے اوپر خاردار تاریں نصب کیں اور چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے ، کیا یہ سارے انتظامات بچوں کو سردی سے بچانے کے لئے تھے۔
کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لے توخطرہ ٹلتا نہیں۔شتر مرغ ریت میں سر دبا لے تو جان بچتی نہیں۔
پنجاب میں سب اچھا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے، اس صورت میں تو پاک فوج کو اس صوبے میں کوئی آپریشن کرنے کی ضرورت نہیں لیکن اگر پاک فوج بلوچستان سے ایک حاضر سروس بھارتی فوجی افسر کو دہشت گردی کے کرتوتوں میں ملوث ہونے کی بناپر پکڑ لے تو کیاا س کا تذکرہ زبان پر لانا حرام ہے۔یہ تو ایک بھارتی فوجی افسر پکڑا گیا ہے، ابھی کئی اور پکڑے جائیں گے ا ور میں تو چاہتا ہوں کہ جو پاکستانی ٹیم پٹھان کوٹ کی تحقیقات کے لئے بھارت گئی ہے، وہ سمجھوتہ ایکسپریس کو خاکستر کرنیو الے بھارتی فوجی افسر کرنل پروہت کوبیڑیاں لگا کر ساتھ لائے اورا سے گھناؤنے جرم کی سزا دی جائے۔
ہمیں تو بھارت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنے وزیر دفاع اور آرمی چیف کو بھی ہمارے حوالے کرے تاکہ ہم ان سے تفتیش کر سکیں کہ انہیں بلوچستا ن کی علیحدگی ا ور پاکستان کی مزید توڑ پھوڑ کی جرات کیسے ہوئی۔
پنجاب میں آپریشن ہوتا ہے یا نہیں، مسئلہ اب یہ نہیں ، مسئلہ یہ ہے کہ ہم بھارت کو نتھ ڈال کرا س کے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے یک سو ہیں یا نہیں۔ یاا سے مشرقی پاکستان والا کھیل ایک بار پھر کھیلنے کی اجازت دینا چاہتے ہیں، بھارت میں ایسا وزیر اعظم ہے جو ڈھاکہ جا کر بلند بانگ دعوی کرتا ہے کہ بنگلہ دیش کی آزادی میں ہر بھارتی شہری نے حصہ لیا، کیا خدا نخواستہ ایسا ہی ایک ا ور اعلان کوئی اگلا بھارتی وزیراعظم تو نہیں کر دے گا کہ ا س نے بقیہ پاکستان کوخاکم بدہن ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ایسٹر کی خوشیاں منانے والے خاندانوں پر جو بجلی گرائی گئی،ا س کا مقصد یہی تھا کہ ہم بلوچستان سے پکڑے جانے والے دہشت گرد بھارتی حاضر سروس فوجی افسر کا قصہ فراموش کر دیں ، گلشن پارک کے دھماکے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ملک میں اقلیتوں کو انگیخت کیاجائے کہ وہ بھی ڈی چوک میں دھرنا دیں اور پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کیا جائے، آفریں ہے ہمارے مسیحی بھائیوں کی انہوں نے قیمتی جانوں کی قربانی پر صبر وتحمل کامظاہرہ کیا اورآفریں ہے پاک فوج کی اس نے سارے فساد کے مرکزی ملزم بھارت سے نگاہیں ہٹانے کی سازش کو ناکام بنا دیا ۔
وزیر اطلاعات ا ور آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اکٹھے ایک میڈیا بریفنگ میں نمودار ہوئے۔ انہوں نے بھارتی جاسوس کی وڈیو چلائی جس میں اس نے اپنے گھناؤنے جرائم کاا عتراف کیا ہے۔اس طرح بھارت کی ایک اور سازش ناکام ہو گئی کہ پاکستان کے لوگ گلشن اقبال کے شہیدوں کے رونے دھونے میں مصروف رہیں اور جاسوس کی گرفتاری کو بھول جائیں۔مگر اس جاسوس کی گرفتاری کو پاکستان کیسے بھول جائے، دنیا میں سرگرم عمل جاسوس کی گرفتاری کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ میری یادادشت کے مطابق روس نے پشاور کے بڈا بیر اڈے سے ا ڑنے والے امریکی جاسوس طیارے یو ٹو کو نشانہ بنا کر ا س کے پائلٹ کو زندہ گرفتار کر لیا تھا۔مگر شروع میں اس کو راز ہی رکھا، جب اس نے امریکہ سے ا حتجاج کیاا ور امریکہ نے اس سارے آپریشن کی تردید کر دی تو روس نے قیدی ہوا باز کو ٹی وی ا سکرین پر پیش کر دیا،ا س وقت جو حالت امریکہ کی ہوئی تھی، آج بھارت ا س سے بدتر حالت میں ہے۔
گزشتہ روز کی میڈیا بریفنگ ایک صفحے پر نظر آنے کے لئے کی گئی، یہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ مگر ریاست کا ہر ادارہ اپنی ترجمانی الگ ا لگ بھی کرے تو پھر بھی ایک صفحے پر نظرآ سکتے ہیں۔ امریکہ میں پینٹیگان میں الگ میڈیا بریفنگ ہوتی ہے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں الگ ہوتی ہے، مجھے زیادہ خوشی ہو گی اگر جنرل باجوہ حسب معمول اپنے ٹویٹ کا سلسلہ جاری رکھیں اور وزارت اطلاعات اپنے طور پر یک جہتی کا اظہار کرے۔ مجھے یہ دکھاواہر گز پسند نہیں آیا ۔ کارگل کے دور میں یہ دکھاوا جاری رہا اور اس کا نتیجہ بھیانک نکلا، خدا ایسے انجام سے بچائے۔
ہمیں ایک صفحے پر نظرآنے کا کچھ زیادہ ہی شوق لاحق ہو گیا ہے، ہماری یہ بھی کوشش رہتی ہے کہ سول کی فوج پربرتری نظرآئے۔ہمیں ان دکھاووں سے جان چھڑا لینی چاہئے ، جس قوم میں اتحاد ہوتا ہے، وہ اندھے کوبھی نظرآ جاتا ہے