خبرنامہ

پنجاب میں شور محشر۔۔اسداللہ غالب

بعض باتوں کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے، پنجابی میں اس فن کو گویڑ لگانا کہتے ہیں۔
پہلے وزیر اعظم نیب پر برسے، پھر رانا ثنا اللہ نے تال سے تال ملائی۔وزیرا عظم نے تو ڈانٹ کے لہجے میں کہا کہ نیب شریف اور معصوم لوگوں کو تنگ کرنے سے باز رہے ۔ اے کاش ! وزیر اعظم فرشتوں جیسے معصوم لوگوں کے نام بھی گنو ادیتے۔رانا ثنااللہ نے تو ایک لکیر کھینچ دی کہ نب کو اس سے آگے قدم نہیں رکھنے دیا جائے گا۔ادھر خبریں یہ ہیں کہ نیب کے پر کاٹنے کے لئے کوئی قانون بھی لایا جا رہا ہے۔حکمران جماعت میں ایک مشاہداللہ بھی ہوتے ہیں جن کے بھائی ملکوں ملکوں پی آئے اے کے کرتا دھرتا ہیں۔انہوں نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کے سربراہ کو برطرف کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ایک وزیر اعلی ہوا کرتے تھے عارف نکئی، وہ ایک تھانے میں جا دھمکے، حوالات کھلوائی اور ایک مجرم سے کہا کہ چل اٹھ پتر!تو یہاں کیا کر رہا ہے۔اور اب یہی زمانہ آیا چاہتا ہے۔سندھ اسمبلی نے تو باقاعدہ قانون سازی کر لی ہے جس کے تحت کسی ملزم یا مجرم کو رہا کیا جاسکتا ہے۔پنجاب والے بھی ا سی پر عمل کر لیں، اسمبلی میں ان کے پاس عددی اکثریت تو ہے۔ادھر نیب کسی کو پکڑے، ادھر حکومت ا سکی رہائی کا حکم جاری کر دے۔آپ کو یاد ہو گا کہ ملک میں ایک نیشنل ایکشن پلان بنا تھا، سبھی جماعتوں نے اس پر انگوٹھا لگایا مگر جب اس پر عمل کی نوبت آئی تو یہ پخ لگا دی گئی کہ فوجی عدالتوں کو وہی کیس بھیجے جائیں گے جن کی وفاقی یا صوبائی حکومت منظوری دے گی۔اس طریق کار کے تحت فوجی عدالتوں کو جو کیس ملے اور ان پر فیصلے ہوئے، ان کی موت کی سزائیں ایک ادارہ روک دیتا ہے۔شاید قانون میں ا س کی گنجائش موجود ہو۔ویسے جو سانس کسی کی قسمت میں لکھے ہیں ،وہ تو پورے کرنے ہیں۔اور آخر پھانسی تو ہو ہی جائے گی، آج نہیں تو کل۔
یہ جو نیا کھیل شروع ہو گیا ہے،یہ خلاف توقع نہیں، اول تو رینجرز، نیب، ایف آئی اے اور خود فوج پنجاب میں کاروائی سے کترا رہی تھی، نجانے کیوں، پنجاب کوئی مقدس گائے ہے، یہاں سب فرشتے ہیں۔بس کراچی کی شامت آئی ہوئی تھی جوکہ آنی چاہئے تھی، یہ شہر نگاراں روشنیوں ا ور قہقہوں اور اجالوں کا مرقع تھا۔یہاں پہلے الطاف کے لوگ ہتھے چڑھے، پھر زرداری کے، دونوں ہی تلملا اٹھے، او ل ا ول دھمکیوں سے کام نکالنے کی کوشش کی گئی،اینٹ سے اینٹ بجا دینے کااعلان بھی ہوا ،یا خدا! یہ شخص اس مملکت پاکستان کا صدر رہا، وزیر رہا اور ایک بڑی پارٹی کا لیڈر ہے مگر ملک کے بارے میں کیا خوفناک ارادے ہیں اس کے، جب اس کی دال نہ گلی تو وہ بھاگ اٹھا ،ا س نے دیکھ لیا تھا کہ الطاف باہر بیٹھے محفوظ ہے، زرداری دوبئی کے حصار میں چلا گیا جیسے نواز شریف جدہ گئے تھے۔دونوں کو ان ملکوں میں کوئی مہربان مل گئے ہیں۔مگر شور یہ مچایا کہ ا نہیں انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور پنجاب والوں سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا۔اس پر وفاق کی حکمران پارٹی نے کہا کہ جوکچھ ہو رہا ہے، قانون کے مطابق ہو رہا ہے ۔اور اب جو قانون نے پنجاب کا رخ کیا ہے تو شور محشر برپا ہے۔پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، آبادی کے لحاظ سے تو یہاں جرائم بھی ا سی حساب سے ہوتے ہوں گے ، ان کا خاتمہ بھی تو ہونا چاہئے، خواہ وہ کوئی بھی کرتا ہو، میں یا آپ، قانون سے بالا تر کوئی نہیں، آئین یہی کہتا ہے۔ مگراس آئین کے بارے میں نواز شریف نے کہا تھا ،ا س وقت بھی وہ وزیر اعظم تھے کہ یہ آئین ان کے راستے میں رکاوٹ ہے، نوازشریف نے حکومت کاری کا فن ضیاالحق سے سیکھاجن کا سنہری فرمان تھا کہ آئین توردی کے چند کاغذوں کا ڈھیرہے، جب چاہوں انہیں پھاڑ پھینکوں۔
میں سمجھتا تھا صرف شہید زندہ ہوتے ہیں ،مگر نوائے وقت کا جمعرات اور جمعہ کا اداریہ پڑھ کر احساس ہوا کہ میرے مرشد مجید نظامی ابھی زندہ ہیں، حیات ہیں، جو باتیں ان ادارئیوں میں لکھی گئیں، وہ میرے ذہن میں بھی آئیں مگر میری ہمت نہ پڑی کہ میرے مرشد میری پشت پر موجود نہ تھے، یہ میری خام خیالی تھی۔نوائے وقت کی للکارمیں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔اور اس نے بر وقت عوام کو خبردار کر دیا کہ یہ جو باتیں نیب کو مخاطب کر کے کہی گئی ہیں ، یہ تو کسی اور کو سنائی جا رہی ہیں۔ اور میرا خیال ہے ، خیال ہی نہیں تجزیہ ہے کہ یہ ملک کی بد قسمتی ہے کہ اس ٹکراؤ کی نوبت قریب تر آ گئی ہے جس سے ہمیں بچنا چاہئے تھا۔یہ ملک اب مزید کسی اندرونی تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مشرقی پاکستان والے وفاق سے ٹکرا گئے تھے، ان کی پشت پر بھارت تھا، اندرا گاندھی تھی، جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ تھا۔ جنرل جیکب تھا۔اس ٹکراؤ سے ملک دو لخت ہو گیا۔اب دو لخت ہونے والی صورت نہیں ، اب تو ہم صرف ایک لخت ہیں اور اس لخت کے ٹکڑے برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں، میں خدا نخواستہ کا لفظ استعمال نہیں کر رہاکیونکہ ہم خود اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں جس پر ہمارا بسیرا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا۔ا س کا اندازہ کسی کو کیوں نہیں۔
زرداری کو اٹھتے بیٹھتے ہم برا بھلا کہتے ہیں مگر آفریں ہے اس پر کہ ا س کے دور میں تصادم کے کئی یقینی مواقع آئے مگرا سنے سر جھکا کر گزارہ کیاا ور اپنی پانچ سالہ ٹرم پوری کی، پاکستان میں اس حکومت کے سوا کسی ا ور نے ابھی تک اپنی ٹرم پوری نہیں کی ۔ مشرف کا دعوی تھا کہ ا س کے دور میں اسمبلیوں نے ٹرم پوری کی مگر یہ مارشل لا کا دور تھا۔ زرداری کا دور جمہوری تھاا ور کسی مارشل کی چھتری اس کے سر پہ نہ تھی مگر کیری لوگر بل،ریمنڈ ڈیوس،ایبٹ آباد آپریشن،میمو گیٹ پر فوج سے یقینی ٹکراؤ کو روکا گیا۔ یہ اس شخص کی کامیابی تھی، میاں نواز شریف دو بار فوج سے ٹکرا چکے، اب تیسری بار وزیرا عظم بنے ہیں، انہیں تو کسی پٹواری یا تھانہ محرر سے بھی متھا نہیں لگانا چاہئے، وقت انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے ا ور توقع ہے کہ وزیر اعظم نے بھی بہت کچھ سیکھا ہو گا۔مشرقی پاکستان میں ہماری فوج نے وہاں کے عوام کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے، بھارتی جنرل اروڑہ کے سامنے ڈالے تھے۔ اس لئے زرداری کی یہ سوچ قابل ستائش اور قابل عمل نہیں کہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، اس اینٹ سے تو اپنا ہی سر پھوڑ سکتے ہیں ا ور خدا ایسے برے وقت سے بچائے۔
عوام بہر حال احتساب چاہتے ہیں، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ جو حکومت پی آئی اے نہیں چلا سکتی،ا سٹیل مل نہیں چلا سکتی، وہ موٹر وے، میٹرو اورا ورنج ٹرین کیوں چلانے پر مصر ہے۔