خبرنامہ

پنجاب کا نیا رنگ۔۔۔اسداللہ غالب

یہ بہار کا رنگ ہے جس نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو ایک نیا نکھار بخشا ہے۔
میرے لئے لاہور جانا ایسے ہی ہے جیسے یار لوگ دوبئی، ہانگ کانگ یا امریکہ، کینیڈا پہنچ جاتے ہیں۔شہر کے مضافات میں رہتے ہوئے شہر کی سڑکیں ور اس کے چو ک تک بھول گئے ہیں۔ آج موسم نکھرا نکھرا سا تھا، آسمان پر بادل ا ور کبھی کبھار چند بوندیں۔میں یونہی سڑکوں پر پھرتا رہا اور پتہ ہی نہ چلا کہ سہہ پہر کب ہو گئی، گھر سے بغیر باشتے کے نکلا تھا، سگنل فری سڑکوں پر ڈارئیونگ کااپنا ہی مزہ ہے، سو میں نے پنجاب کے دارالحکومت کو مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک دیکھا۔سڑکوں کے کنارے ابھی سرماکے پھولوں کا رنگ ماند نہیں پڑا، اوپر سے اوائل بہار کے صد رنگ پھولوں نے مزاج میں مستی پیدا کر دی ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ اب اگر خادم اعلی پر شوقیہ ہی تنقید کرنی ہو تو کس بہانے کی جائے۔میٹرو فراٹے بھرتی دکھائی دیتی ہے، پنڈی اسلام آباد کی میٹرو کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ بلوچستان کے سا بق وزیرا علی نواب غوث بخش باروزئی لاہور آئے تو یہاں سے ا سلام آباد چلے گئے ا ور پھر ان کی جو پہلی سیلفی فیس بک پر نظر آئی، وہ میٹرو کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھی، اسلام آباد کی میٹرو کے پس منظر میں ہرے بھرے درخت ہیں اور سبزے سے معمور پہاڑی چوٹیاں ہیں۔ ادھر ملتان کی میٹرو کی تیزی سے تعمیر کی خبریں دوستوں سے ملتی رہتی ہیں۔ان منصوبوں پر دوسرے صوبے اور اپوزیشن کے لوگ تنقید تو کرتے رہتے ہیں مگر ان کے پاس مخالفت کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں، صرف ایک واویلا ہے جیسے بچے گھر میں شور مچانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ لاہور میں اورنج ٹرین چلے گی تو اس شہر کا کلچر ہی بدل جائے گا، ہم لندن، نیویارک کی میٹرو میں تو سفر کرتے ہیں ، اب اپنے ملک کی میٹرو کا مزہ ہی کچھ اور ہو گا، بچہ جب کسی دوست کے کھلونے سے کھیلتا ہے تو اسے کچھ مزہ نہیں آتا ،مگر اسے اپنا کھلونا مل جائے توا سکی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، اب کوئی دن آتا ہے کہ ا ورنج ٹرین نہ صرف دل بہلاوے کے کام آئے گی بلکہ ایک انتہائی مصروف روٹ پر گنجان آباد علاقوں میں لاکھوں مسافروں کی بلا رکاوٹ نقل وحرکت کا باعث بھی بنے گی۔
یہ تو بڑے بڑے منصوبے ہیں۔اور سب کو نظرآتے ہیں ا ور ایک منصوبہ جو سب کو نظرآتا ہے اور سب کو پسند آتا ہے ، وہ ہے ناقص خوراک کھلانے والی بیکریوں، ہوٹلوں، ریستورانوں اور شادی گھروں کی تالہ بندی۔ ایسا تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا۔آپ گوشت ضرور خریدتے ہوں گے، میں نے توکبھی نہیں خریدا کہ مہنگا بہت ہے،کہتے ہیں کہ ا س پر ایک کوڈ لکھا ہوتا ہے،آپ یہ کوڈ اپنے موبائل کے ذریعے ایک خاص نمبر پر ارسال کریں ، آپ کوفوری طور پر جواب آ جائے گا کہ یہ گوشت قانونی طور پر ذبح کیے گئے جانور کا ہے یا نہیں۔ اب بھی آپ گدھے کھانے کے شوقین ہے تواس کا کوئی علاج حکومت کے پاس نہیں ہے۔
صوبے میں امن ومان کی صورت حال پر بھی آپ کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ پنجاب وہ صوبہ ہے جس نے دل و جان سے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کیا ہے اورا سکے ایک وزیر داخلہ نے اپنی جان کی قیمت بھی ادا کی ہے۔فرقہ واریت کے اعتبار سے بھی راوی ہر سو چین لکھتا ہے۔ وہی مسجدیں جہاں سے مخالف فرقوں کے خلاف زہر اگلاجاتا تھا ، اب ان کے لاؤڈاسپیکر خاموش ہو گئے ہیں۔
بجلی کا بحران تو سارے ملک کو درپیش ہے، پنجاب بڑا صوبہ ہے، اس کی صنعت، اس کا بزنس ا ورا سکے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی، دوسرے صوبوں کا حال تومیں نہیں جانتا مگر اب پنجاب میں لوڈ شیڈنگ کے دورانییے میں نمایاں کمی واقع ہو گئی ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں، خادم اعلی نے ایک تو بجلی کی سپلائی کمپنیوں کی کارکردگی بہتر کی ہے، یہ وفاقی مسئلہ تھا مگر صوبے میں خادم ا علی کو جوابدہ ہونا پڑتا تھا،ا س لئے انہوں نے یہ مداخلت ضروری سمجھی، صرف لاہور شہر میں نئے گرڈا ور نیا سپلائی نظام نصب کیا جا چکا ہے جس کی مدد سے شہر کو مزید ڈیڑھ ہزار بجلی کسی تعطل کے بغیر فراہم کی جاسکتی ہے۔، مطلب یہ ہے کہ لائینیں ٹرپ نہیں کریں گی، ٹرانسفارمر پٹاخے نہیں ماریں گے اور میٹروں کو آگ نہیں لگنے پائے گی۔
سوال یہ ہے کہ نئی بجلی کہاں سے آئے گی، اپوزیشن کا شور ہے کہ نندی پور سے تو نہیں آئے گی مگر یہ جو درجن بھر نئے منصوبے ہیں، شیخو پورہ میں ، ساہیوال میں ،بہاولپور میں ، یہاں سے بجلی بہت جلد نیشنل گرڈ کا حصہ بنے گی۔دینہ کے نواح میں منگلا کی سطح بلند کرنے کامنصوبہ بھی مزید بجلی فراہم کرنے میں اہم کردارا دا کرے گا۔
پنجاب پر سب سے بڑا عتراض یہ ہے کہ خادم اعلی ون مین شو کے عادی ہیں، جی ہاں، درست اعتراض ہے۔ اور یہ اعتراض اس امر کا ثبوت ہے کہ خادم ا علی شبانہ روز کس قدر محنت کرتے ہیں، صبح سویرے سے شروع ہو جائیں ۔ دنیا سو جاتی ہے ا ور خادم اعلی اورا ن کے معاونین جا گ رہے ہوتے ہیں۔اب تو خیبر پی کے کی حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ شہباز میاں کی حکومت ان کے لئے رول ماڈل ہے مگر اس کی نقالی کرنے کی کسی میں اہلیت، لگن اور جذبہ موجود نہیں، جو وزیر اعلی بھری میٹنگ میں خراٹے بھرنے لگ جائے، وہ تھر میں مرنے والے بچوں کی کیا مدد کر پائے گا۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ سیلاب کی آفت میں خادم اعلی کس طرح دن رات ایک کر کے متاثرین کی دلجوئی کرتے ہیں اور پھر ان کی مستقل بحالی تک چین سے نہیں بیٹھتے۔
اور یہ تاثر تو سراسر غلط ہے کہ خادم اعلی کی کوئی ٹیم نہیں۔ کون ہے جو رانا ثناا للہ کی دھاک کا قائل نہیں اور رانامشہود نے حال ہی میں تعلیم کے سیٹھوں اور بیوپاریوں کے ساتھ جس معاملہ فہمی کا ثبوت دیا ہے، اس سے ان کی بھی صلاحیتوں کا قائل ہوناپڑتا ہے۔اور میں ان درجن بھر نوجوانوں کے نام یہاں نہیں دہرانا چاہتا جو برق رفتاری سے خادم اعلی کی پالیسیوں ا ورا حکامات پر عمل درآمد کرواتے ہیں، یہ سب خادم اعلی کی ٹیم کا سرگرم حصہ ہیں۔انہیں خادم اعلی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا اور آنے والے وقتوں میں صوبے کو ایک تربیت یافتہ سیاسی لیڈر شپ میسرآئے گی۔
اور وہ بیو رو کریٹ جن پر ہم تنقید کرتے نہیں تھکتے اور ہر قسم کا آوازہ کسنے کو ثواب سمجھتے ہیں، وہ خادم اعلی کی کامیابیوں کی بنیاد ہیں، صوبے کو نیا رنگ بخشنے میں ان کی مستعدی کا ہر کوئی معترف ہے، ان میں سے کچھ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ کتنے دنوں بعد گھر والوں کو شکل دکھاتے ہیں۔ مگر ان کی ترجیح یہ ہے کہ اس صوبے کی شکل خوب سے خوب تر ہو اوراس پر ایسانکھارآئے کہ صد رنگ بہاریں بھی رشک کریں۔
یہ کالم کسی کوپسند نہ آئے تو وہ آمد بہار کے ایک پرفضا دن کو کوسنے دے کر صبر کرلے۔ وزیرا علی سے سیاسی اختلافات میں کسی سے پیچھے نہیں رہا، یہ نظریاتی لڑائیاں ہیں مگر میں لڑائیاں بھی دوستانہ ا نداز میں لڑتا ہوں۔اور تعریف کرنے میں بخل سے کام لینا میرا شیوہ نہیں۔ اصل میں پچھلے دنوں میں نے کیپٹن شاہین بٹ کی دعوت کے باوجود وزیر اعلی کے ساتھ ایک محفل مس کی ہے، سمجھ لیجئے اس کا کفارہ ادا کر رہا ہوں۔