خبرنامہ

پھولوں کی شہادت۔۔اسداللہ غالب

بسم اللہ
یہ گزرے کل کی بات نہیں ، لمحہ موجود کی کربلا کا منظر ہے۔میں نے لکھنے کے لئے جس وقت قلم اٹھایا ہے، یہی وہ وقت تھا جب دہشت گردوں نے اسلحہ اٹھایا تھااور آرمی پبلک اسکول پشاور کے ننھے منے نوخیز پھولوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کی تھی، یہ بوچھاڑاسوقت تک جاری رہی، جب تک لاشوں کے ڈھیروں پر ڈھیر نہ لگتے چلے گئے، اسکول کا ہال خون سے لت پت تھا، کلا س روم خون میں ڈوبے ہوئے تھے ا ور پرنسپل کاآفس خون میں تیر رہا تھا۔
کہتے ہیں یہ دہشت گردی کی واردات تھی، مجھے توکسی ہلاکو اور چنگیز خان کی شیطانی حرکت لگتی ہے، کچھ دہشت گردوں کے چہرے انہی سے ملتے جلتے تھے، چہرے نہ بھی ملتے ہوں، حرکت انہی جیسی تھی، شیطنت انہی جیسی تھی۔یہ ہٹلر تھے یا وہ امریکی ہوا باز جنہوں نے ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے تھے، میں نے ہیرو شیما کی یادگار دیکھی ہے، وہاں بچوں کے ٹوٹے پھوٹے ادھ جلے بستے ایک عجائب گھر میں رکھے ہیں، بچوں کی چیخیں ریکارڈ کی ہوئی ،سننے کو ملتی ہیں اور دلوں کو چیر کے رکھ دیتی ہیں۔ پشاور کے اسکول کی تین سالہ خولہ کو تو چیخنے کا موقع نھی نہیں دیا گیا تھا، اس کی ایک بوٹی بوٹی میں سینکڑوں گولیاں داغ دی گئی تھیں۔
ڈیڑھ سو بچوں کا قتل عام، ایک قیامت کا سماں تھا، مائیں اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھیں ۔
سولہ دسمبر پہلے ہی قومی سوگ کا دن ہے، ایک یوم سیاہ، پشاور کے پھولوں کو مسلا گیا تو اس کی تاریکی میں مزید اضافہ ہو گیا، دیدہ یعقوب ؑ سے آنسووں کی جھڑی ایک یوسف ؑ کے لئے لگی اور یہاں بیس کروڑ یعقوب تھے اور ان کی آنکھیں ڈیڑھ سو یوسفوں کے لئے ڈبڈبائی ہوئی تھیں، ان میں غموں سے لبریز؂، متلاطم لہریں، سونامی برپا کئے ہوئے تھیں، پتھر بھی موم ہو گئے تھے اور ایک وزیرا عظم ہی نہیں ،ساری قومی قیادت پشاور میں اکٹھی ہو گئی تھی۔سب سے زیادہ دکھی ان بچوں کا باپ تھا جنرل راحیل شریف، اس کی آنکھیں نم بھی تھیں اور سرخ انگاروں کی طرح دہک بھی رہی تھیں، وہ انتقام کے لئے تڑپ رہا تھا، حکومت اورقومی قیادت نے ایک ایکشن پلان پر انگوٹھے ثبت کئے، بزن کا اشارہ دیا اور دہشت گردوں کے خلاف ایسا آپریشن شروع ہوا کہ پھر پاک سرزمین ان بد بختوں پر تنگ ہوتی چلی گئی۔
دہشت گردی کی یہ جنگ پاکستان پر مسلط کی گئی تھی۔نائن الیون کے حوادث میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا مگر پچھلے چودہ برس سے پاکستان کو دہشت گردی کا اڈہ کہا جارہا ہے، امریکہ بھی کہتا ہے، بھارت بھی کہتا ہے ا ور افغانستان بھی کہتا ہے اور عالمی میڈیا بھی یہی پروپیگنڈہ کرتا ہے، کسی کے قلم کو حیا نہیں آتی، کسی کی زبان رکتی نہیں، پاکستان اس عرصے میں خون کے سمندر میں ڈوب گیا، اس کے ساٹھ لاکھ بے گناہ افراد شہید کر دیئے گئے مگر پاکستان پھر بھی دہشت گرد کا دہشت گرد۔ کسی کو خوف خدا نہیں، کسی کو ذار بھر حیا نہیں، پشاور کے ایک ا سکول میں ڈیڑھ سو بچے آن واحد میں تکا بوٹی کر دیئے گئے، ان میں ایک زخمی دو سال تک ہسپتالوں میں تڑپتا رہا اور دو دروز پہلے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا، ان ڈیڑھ سو بچوں کے والدین دن رات مرتے ہیں ا ور دن رات جیتے ہیں، پھر مرتے ہیں اور پھر جیتے ہیں ، نہ ان کو زندگی نصیب ہے، نہ ان کو موت آتی ہے، وہ پل صراط پر اٹکے ہوئے ہیں اور پاکستان پھر بھی ایک دہشت گرد ملک، بھارت کا وزیرا عظم اپنی زبان سے اقرار کرتا ہے کہ وہ بلوچستان میں، گلگت میں ، آزاد کشمیر میں مداخلت کرے گا، بھارت کی دہشت گرد تنظیم را کے ایجنٹ رنگے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں ، بھارت کی فوج دن رات مقبوضہ کشمیر میں معصوم افراد کو شہید کرتی ہے، ان پر پیلٹ گولیاں داغتی ہے ا ور انہیں اندھا کرتی ہے مگر بھارت کو دہشت گرد کہنے کے لئے کوئی تیار نہیں۔ اور پاکستان کو ہر کوئی دہشت گرد کہتا ہے، افغانستان میں امریکی فوج ہے، نیٹو کی فوج ہے، بھارت کی غیرا علانیہ فوج ہے مگر دنیا کا دباؤ ہے کہ پاکستانی فوج افغانستان میں دہشت گردی کا خاتمہ کرے، کوئی امریکی اور نیٹو افواج سے پوچھے کہ کی آوہ دودھ پینے والے مجنوں ہیں، کیا افغانستان میں سیر سپاٹے کے لئے آئے ہیں کہ دہشت گردوں کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں، اس افغانستان میں دہشت گردی کے کیمپ بھارت کی نگرانی میں چل رہے ہیں جہاں سے کھیپ در کھیپ دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے تھے اور موت کا کھیل کھیلتے تھے مگر پاکستان نے ایک عزم کیاا ور اس دہشت گردی کا قلع قمع کر کے رکھ دیا، پاکستانی فوج کی صلاحیتوں کو ایک دنیا نے تسلیم بھی کیا مگر ڈھاک کے وہی تین پات اور وہی گردان کہ پاکستان دہشت گرد ہے۔
آج پاکستانی قو م سانحہ پشاور کے معصوم شہدا کی یاد منا رہی ہے، ان بچوں کی قربانی ضائع نہیں جانے دی گئی، انہوں نے ہمیں وہ عزم عطا کیا جس سے کام لے کر ہم نے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے ضرب عضب آپریشن کوتیز تر کر دیا، ہم ا ن پہاڑوں، اور ان کی ایسی غاروں میں گھس گئے جہاں سے فاتحین عالم کو بھی خوف آتا تھا، مگر پاک فوج کے دلیر، شیر، گبھرو، جوان ا ور افسر اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے ان پہاڑوں ار ان چٹانوں اور ان غاروں سے ٹکرا گئے، انہیں بھی پاش پاش کیااور ان میں مورچہ زن دہشت گردوں کی بھی بیخ کنی کر دی، یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف دنیا پاکستان کے ا س کردار کی توصیف و تحسین کرتی ہے اور دوسری طرف پاکستان کو دہشت گردی کی نرسری بھی کہتی ہے۔
آج ہی وزیر اعظم میاں محمد نواشریف نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کو م،نہ توڑ جواب دیا ہے کہ سن دو ہزار تیرہ میں ہر وز پاکستان میں دھماکے ہوتے تھے، ہر روز لاشیں گرتی تھیں اور ہر روز جنازے اٹھتے تھے مگر آج راوی چین لکھتا ہے، نہ صرف پاکستانی عوام چین کی نیند سوتے ہیں بلکہ ہماری قربانیوں کی وجہ سے پوری دنا اپنے گھروں میں چین کی نیند سوتی ہے۔
میرے خیال میں یہ خراج تحسین ہے پشاور کے ننھے شہیدوں کو جن کے خون کی حدت نے ہمارا لہو گرمایا اور ہم نے دہشت گردی کا قلع قمع کر کے رکھ دیا۔ ہمیں ان شہیدوں پر فخر ہے، ان کے والدین پر فخر ہے کہ انہوں نے اتنی بڑی قربانی دی اورا س قربانی کے طفیل پاکستان ایک بار پھر امن کے خطے میں تبدیل ہو رہا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے بلا شنہہ ایک عظیم فیصلہ کیا تھااور پوری قوم کی حمایت مسلح افواج کی نذر کی تھی، وپ لمحے قیامت کے تھے جب پشاور کے اسکول مین دہشت گردی کی گھناؤنی واردات ہوئی تھی نگر وزیر اعظم کا خون کھول اٹھا اور وہ ہر کام چھوڑ کر پشاور کا پہنچے تھے ا۔نہوں نے قومی کانفرنس بلائی، سلام ہ سیایس پارٹیوں پر بھی کہ انہوں نے قزیر اعظم کی ااواز پر لبیک کہی، اور ایک اتفاق رائے کی صورت پیدا ہوئی، یہ اتفاق رائے پشاور کے معصوم شہدا کے خون کا عطیہ تھا۔