خبرنامہ

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

ایک معاصر کی خصوصی رپورٹ کے مطابق ایک اخبار کے کالم نویس اور نواز شریف کے قریبی معتمد عرفان صدیقی کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر میں دفتر فراہم کر دیا گیا ہے۔ ابھی انہیں کوئی خاص منصب نہیں سونپا گیا کیونکہ وہ اوور ایج ہیں لیکن حکومت کے لیئے اس رکاوٹ کو بلڈوز کرنا کوئی مشکل نہیں۔
چند روز پہلے ایک معتبر ذریعے سے مجھے یہ خبر مل گئی تھی۔ مجھے اس پر خوشی ہوئی کہ چلیئے ہمارے دوست عطا قاسمی کو ان کی پسند کا عہدہ نہیں ملاتو دوسرے دوست پر ان کے شایان شان نوازش کر دی گئی ہے۔ رؤف طاہر کو بھی ریلوے میں گریڈ بائیس کی نوکری مل گئی ہے۔ ان تین حضرات میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے حامی کالم نگار ہیں۔ میں ان لوگوں کو سیاسی شعبے کے خصوصی افراد تصور کرتا ہوں اور ان سے زیادہ شفقت کا کوئی اور شوق نہیں، پہلے زمانے میں بھی قصیدہ خوانوں کے منہ اشرفیوں سے بھر دیئے جاتے تھے۔ اکبر کے نورتن تو تاریخ کا حصہ ہیں اور اس عظیم مغل حکمران کی کامیابی کا راز بھی۔ کیا عرفان صدیقی، عطا قاسمی، رؤف طاہران نورتنوں کے ہم پلہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ ان اصحاب جلیل کی کارکردگی کی بنیاد پر ہو گا، پیپلز پارٹی نے بھی اپنے قریبی اخبار نویسوں کو اعلی مناصب عطا کیئے، شیری رن اور واجد شمس الحسن کو سفارت عطا کی، حسین حقانی پرنواز شریف، محترمہ بے نظیر اور زرداری نے نظر کرم فرمائی، سید مشاہدحسین کو نواز شریف نے وزیر اطلاعات بنایا۔ اب وہ ق لیگ کے مسلمہ لیڈر ہیں۔ ملیحہ لودھی بھی سفارتی منصب تک پہنچیں۔ ایوب خان کو الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب جیسے عمائدین میسر تھے۔ ارشادحقانی، مصطفی صادق، کوثر نیازی بھی آسمان صحافت سے سیاست کی کہکشاں کا حصہ بنے۔ حیدر آباد کا سید گھرانہ بھی حکومت کے فلک پرنسل دنسل روشنی بکھیرتا رہا۔ ضیاالحق کے پاس ایک صدیق سالک کم نہیں تھے، جماعت اسلامی نے محمد اعظم فارقی بھی انہیں بخش دیئے، میں نے چند نام گنوائے، ورنہ ملکی اور عالمی تاریخ ایسے تابناک افراد سے بھری پڑی ہے جنہوں نے تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقش چھوڑے، ان میں ہٹلر کے دست راست گوئبلز کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جس نے حکومتی پروپیگنڈے کا بنیادی اصول وضع کیا کہ اتنا جھوٹ بولو کر اس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔
پیش کش تو ڈاکٹر مجید نظامی کو بھی ہوئی تھی اور وہ بھی منصب صدارت کے لیے مگر ان کا نواز شریف کو جواب تھا کہ آپ چند روز بھی میرے ساتھ ہیں گزار سکتے۔
مگر جنہوں نے گزارہ کرنا ہے، وہ من وتو کے حساب میں نہیں پڑتے۔ پی ٹی وی میں کام کم ہے او تنخواہ حدو حساب سے باہر۔ دنیا میں ہر حکومت اپنے ساتھ ایک ٹیم لاتی ہے، اسے بہت پہلے سے اپنے اپنے فیلڈ میں تجربے کی دولت سے مالا مال کر دیا جاتا ہے مگر پاکستان میں حکومتی ٹیم تجربے سے نہیں، دولت سے مالامال کرنے کے لیے تشکیل دی جاتی ہے۔
ہمارے دانش وروں کے قلم سیاستدانوں اور مخالف حکمرانوں پرتنقید کر کے گھس جاتے ہیں مگر جب ان کو خود باری ملتی ہے تو وہ ساری چوکڑی بھول جاتے ہیں اور دوسروں کی تنقید کوخاطر میں نہیں لاتے۔نجم سیٹھی کا شمار اہل صحافت میں ہوتا ہے مگر وہ حکومتی منصب تک جا پہنچے اور پھر ایسا نشہ چڑھا کہ وہ کرکٹ بورڈ سے بھی جا چمٹے۔ میری خبر یہ ہے کہ پی ٹی وی میں جوعہدہ عرفان صدیقی کو نہیں مل سکا، اس کے لیے اوور ایج ہو نامحض ایک عذر تھا، اصل میں یہاں دونوں عہدوں پرنجم سیٹھی کو براجمان کیا جانا تھا۔ چلیئے یہ فیلڈ ان کے لیئے اجنبی نہیں ہو گا اور اگر عرفان صدیقی بھی یہاں جم جائیں تو وہ بھی پروپیگنڈے کی سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اور ایسی مہارت کہ فوج کے لیئے ان کا لفظ لفظ تیز دھارمگر سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ان کے اسلوب کے اس قدر پرستار کہ بھری محفل میں یہ کہہ اٹھے کہ میں سب کچھ مس کرسکتا ہوں، آپ کا کالم مس نہیں کرسکتا۔ شاید غالب نے ایسے موقع کے لئے کہا تھا کہ گالیاں کھا کے بھی بد مزہ نہ ہوا۔
پی ٹی وی ایک زمانے میں گھر کے ہر فرد کا پسندیدہ میڈیم تھا مگر اب مادر پدر آزاد ٹی وی چینل کا دور ہے اور پی ٹی وی کو کوئی پوچھتا تک نہیں، عرفان صدیقی کا پہلا امتحان ہی یہ ہے کہ وہ آز داد میڈیا کے مقابل پی ٹی وی پر لوگوں کا اعتماد کیسے بحال کر پاتے ہیں۔مخالف حکومت پر بڑھ چڑھ کر حملے کرنا آسان ہے مگر اپنی پسندیدہ حکومت کا دفاع انتہائی مشکل۔ اس کے لیئے بہت جھوٹ بولنا پڑے گا، مجھے نہیں معلوم کہ عرفان صدیقی اس فن سے واقف ہیں یا نہیں، میرا خیال ہے کہ نہیں۔ اور اگر انہیں کوئی مجبوری بھی درپیش ہوتو انہیں جھوٹ کا راستہ ہرگز اختیارنہیں کرنا چاہئے۔ روزی روٹی کمانے کے ہزار راستے ہیں۔
میں اپنے لکھنے والے دوستوں کا خیر خواہ ہوں۔ انہیں نت نیا منصب ملے، وہ شب وروز ترقی کے زینے طے کریں، مگر کیا جن اصولوں کا وہ زندگی بھر پرچار کرتے رہے، وہ تو پامال نہیں ہور ہے، اس کا دھیان ا نہیں ضرور رکھنا ہوگا۔
میں نے چند روز قبل حنیف رامے کے بیٹے ابراہیم رامے سے طویل گفتگو کی ہے، رامے صاحب بھی کوچہ صحافت سے ابھرے اور سیاست کی معراج تک پہنے اور پھر انہی کے لیڈر نے انہیں ایسارگڑا دیا کہ خاندان چھت اور نوالے سے محروم۔مگر حنیف رامے اپنی چیف منسٹری میں وہ وہ کام کر گئے کہ نئی دہلی کے سینکڑوں کجری وال اورتخت لاہور کے درجنوں شہباز شریف ایسے معرکے سر نہیں کر سکتے۔ ایک لکھنے والا جب حکومت کے منصب پر پہنچنے کے بعد بھی اپنی اصلیت کونہیں بھولتا اور وہ اپنے اصولوں پر چلتا ہے تو تاریخ میں اسے حنیف رامے کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ باقی سب تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوجاتے ہیں۔
حکومتی حاشیہ نشینوں سے البتہ میری ایک دست بستہ درخواست ہے کہ وہ موقع بے موقع فوج پر شب وستم سے گریز کریں کسی قیدی کو کوئی مرض لاحق ہے یا نہیں، ن لیگ کے کالم نگاروں کو فوج کے خلاف مالی خولیہ کا مرض ضرور لاحق ہے۔ احمد رضا قصوری نے تو شاید حق وکالت میں ایک انتباہ کیا ہے مگر میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ جو کوئی پلٹن میدان کا، ری پلے چاہتا ہے، وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اس منظر نامے کو دہرانے کے لیے بھارت میں اندرا گاندھی، امریکہ میں رچرڈ نکسن، سوویت روس میں کوسیگن، اسرائیل میں گولڈا میئر اور پاکستان میں جزل یحییٰ خاں کاقرآن السعدین ضروری ہے۔
کسی بھی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروالیجئے، جزل راحیل شریف کا ڈی این اے یحییٰ خاں سے میچ نہیں کرتا، ٹائیگر نیازی سے بھی نہیں کرتا۔ اس لیے آرمی بیشنگ کے کار لا حاصل سے باز رہیئے۔ اپنی اصلیت کو مت جھولیئے، ہما خاکم کہ ہستم!!(27 جنوری 2014)