خبرنامہ

پی آئی اے جیسے قومی ادارے پر سیاست۔۔۔اسداللہ غالب

پی آئی اے پر سیاسی لیڈروں اورا س ادارے کے ورکروں نے جس انداز سے سیاست چمکائی ہے، اس نے جسد قومی کو تار تار کر دیا ہے۔حکومت اس کی نجکاری کرنا چاہتی تھی، اسے ملتوی بھی کر دیا گیا مگر جن لوگوں نے تخریب اور دہشت پھیلانے کا ٹینڈر بھر رکھا تھا، وہ نچلے کیوں بیٹھتے، انہوں نے ہڑتال کا اعلان کر دیا، وزیر اعظم نے اس ادارے کو لازمی سروس میں شامل کیا، مگر اس حکم کی دھجیاں بکھیر دی گئیں،یہ ایسے ہی ہے کہ حکومت کہے کہ لال بتی پر ٹریفک کو بہرصورت رکنا ہے مگر لوگ اس ہدائت کو جوتی کی نوک پر رکھیں ، پھر جو حشر ہو گا،اس کا تصور ہر کوئی کر سکتا ہے، پی آئی اے میں ہڑتال ا ور احتجاج کا نتیجہ لاشیں گرنے کی صورت میں نکلا، ہر ایجی ٹیشن کو اپنی کامیابی کے لئے لاشیں درکار ہوتی ہیں ،کسی کی جان چلی جائے مگر مفاد پرستوں کو کیا پروا۔وہ جنازے پڑھتے ہیں، نعرے بازی کرتے ہیں اور نئے دھرنوں کا اعلان کر دیتے ہیں، اس دھماچوکڑی میں جماعت ا سلامی بھی پیچھے نہ رہی ، پی ٹی آئی تو موقع کے انتظار میں رہتی ہے، عمران خان کے منہ سے جھاگ بہہ نکلی اور وہ شہر شہر گھوم گئے، وہ بلوچستان بھی گئے جہاں چند روزپہلے قومی یک جہتی کا شاندار مظاہرہ دیکھنے میں آیا تھا، وزیر اعظم ا ور آرمی چیف نے ایک جیپ میں سفر کیا۔اور روشن مستقبل کی سمت جانے والی نئی سڑکوں کا افتتاح بھی ہوا، عمران خان کے دورے سے کوئی کسر رہ گئی تھی تو کوئٹہ شہر میں دہشت گروں نے سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر پوری کر دی، ابھی تو ایک قومی سیمینار میں شرکت کرنے والے دو ایک قلم کاروں نے اپنے تاثرات کا اظہار ہی شروع کیا تھامگر اس سارے منظر نامے کو نظر لگ گئی ا ور وہی صوبہ جو امن و آشتی کی مثال لگ رہا تھا، وہاں خون بہہ نکلا اور دھواں ا ٹھنے لگا۔
پی آئی اے کو لازمی سروس میں شامل کرنے کا اعلان نہ بھی کیا جائے تو یہ لازمی سروس ہی شما ہوتی ہے۔یہ ایک قومی ایئر لائن ہے ، ملک کا پرچم اس پر لہراتا ہے، یہ قومی وقار کی علامت تصور کی جاتی ہے مگر ہمارے پائلٹوں کے نخرے دیکھنے والے ہیں ، کوئی مسئلہ نہ بھی ہو تو یہ نخرہ کرنے لگتے ہیں۔اس نخرے کا کوئی علاج نہیں، یہ نخرہ بڑا ٹیکنیکل نوعیت کا ہوتا ہیا اور سروس رولز اس کی ا جازت بھی دیتے ہیں ، ضرور دیتے ہوں گے مگر مسافروں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں، ان کی بھی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں، کسی کی منزل کھوٹی ہوجاتی ہے،، کوئی اپنے مریض کو بر وقت کسی ہسپتال تک نہیں پہنچ سکتا ،کسی کی انتہائی اہم میٹنگ مس ہو جاتی ہے، ہر مسافر تو کولمبس،مارکو پولو، سند باد جہازی یا ابن بطوطہ نہیں ہوتا کہ محض سیر سپاٹے پر نکلا ہو ،�آج نہیں تو کل سفر شروع کر لے گا۔مگر ان پائلٹو ں کو کون سمجھائے اور اب تو پوری ایئرلائن کے کارکنوں کا مزاج شاہی بگڑ گیا ہے۔چند دنوں کی ہڑتال سے سب کچھ اتھل پتھل ہو کر رہ گیاہے۔پہلے نقصان کروڑوں میں تھا، اب اربوں کو چھو رہا ہے اور کیا پتہ کہ ابھی یہ گڑ بڑ کتنے دن اور چلنی ہے، حکومت نے ا چھا کیا کہ جھکنے سے انکار کر دیا۔ بلکہ یہ دھمکی بھی دی کہ ہڑتالیوں کو گرفتار کر لیا جائے گا، اگرچہ اس پر عمل تو نہیں ہوا مگر حکومت نے زیادہ نرمی دکھائی تو مخالف سازشی ٹولہ شیر ہو جائے گا ۔
عمران خان کو خدا کو خوف ہو یا اسے یہ ا حساس ہو کہ ا س کی پارٹی کو خیبر پی کے پر توجہ دینی ہے، اوریہاں کارگزاری دکھانی ہے، مگر عمران خان اور سب کچھ کرتے ہیں ، ، اپنے زیر حکومت صوبے کی حالت سدھارنے کے لئے کچھ نہں کرتے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ پشاور میں حکمران جماعت کو لاہور کے چیئر نگ کراس میں دھرنا دینے کی ضرورت کیا�آن پڑی ہے۔ اور اسے لاہور کی اورنج ٹرین کے منصوبے کی وجہ سے پیٹ درد کیوں لاحق ہے۔اس پارٹی کو دن میں تارے نظر�آ جائیں گے اگر مسلم لیگ ن نے پشاور میں دھرنے کاا علان کر دیا ۔ لاہور کی بسیں اور ٹرالیاں اٹک پل کو کراس کرجائیں تو پی ٹی �آئی پشاور کے قلعے کو خالی کر کے دریائے آمو کے پار بھاگ جائے گی، اب یہ عمران خان پوچھیں گے کی یہ دریائے �آمو کیا بلا ہے، بھئی، وہ دریا جس کے کنارے �آموں کے باغات اور ان کی ٹھنڈی چھاؤں میں دیسی مرغیاں پلتی ہیں ا ور مسور کی دال اگتی ہے۔ان چیزوں کے ذکر پر عمران کے منہ سے رال ٹپکنے لگی ہے۔
اور یہ جو پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ تقرریں جھاڑ رہے ہیں، ان کے بابائے آدم نے اپنے دور میں تو نجی اداروں، کارخانوں، فیکٹریوں حتی کہ چادل چھڑنے اور آٹا پیسنے والی چکیوں تک کو قومیا لیا تھا، نجکاری کے مقابلے میں قومیانے کا عمل تو کینسر کے متراد ف ہے۔بد قسمتی میں پاکستان ایک تجربہ گاہ بن چکا ہے، تھا تو یہ ایک تجربہ گاہ ہیِ بقول قائد اعظم اور بانیان پاکستان اسے اسلام کی تجربہ گاہ بننا تھامگر اسے بچوں کا کھیل بنا لیا گیا۔ کبھی جمہوریت، کبھی بنانا ری پبلک، دن کو کسی کی حکومت ، رات کو کسی اور کی حکومت، پھر فوج کی حکومت اور نتیجہ یہ کہ ملک آدھارہ گیا ور تجربے ختم نہ ہوئے، بھٹو نے سوشلزم کا تڑکا لگایا، ضیا الحق نے اسلام کا اپنا برانڈ نکالا اور پھر لولی لنگڑی جمہوریت، انتخابات توہوتے مگر نتائج کمپیوٹر میں تیار ہوتے۔اب ایک بار پھر جموریت آ ئی ہے مگر ڈری، ڈری، سہمی، سہمی۔ کسی اور سے نہیں ایک دوسرے سے، کبھی کہتے ہیں کہ مک مکا ہے ، کبھی کہتے ہیں کہ سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔اور کبھی کہتے ہیں کہ نہیں چھوڑیں گے، یہ تو ہواجنگل کا نظام۔
پاکستان کے دشمنوں کی پہلے ہی کوئی کمی نہ تھی، اب ہم خود اپنی جان کے دشمن بن بیٹھے ہیں،چلتے اداروں کا چراغ گل کرنا ہمارا مشغلہ ٹھہرا۔
مجھے وزیر اعظم سے کہنا ہے کہ وہ ا عتماد کے ساتھ �آگے بڑھیں، تیسری مرتبہ کاا قتدار ایک خدائی عطیہ ہے، اپنے تجربے کو بروئے کار لائیں،اپنے تعلقات استعمال کریں ، خود بھی جیءں اور دوسروں کو بھی جینے کا موقع فراہم کریں۔اس وقت وہ اپنے اقتدار کے کلائمیکس پر ہیں۔ ملک کا �آرمی چیف ان کو گاڑی میں بٹھا کر سیر کراتا ہے، وہ خود کہتے ہیں کہ فوج تعاون کر رہی ہے، اس ملک میں خدا کے بعد فوج ہی سب سے موثر طاقت ہے تو وزیر اعظم اورکس معجزے کا انتظار کر رہے ہیں۔اب وہ خود معجزہ دکھائیں اور ایسی حکومت چلائیں کہ لوگ دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی۔