خبرنامہ

پی ٹی وی بھی چیف جسٹس کے عدل کے انتظار میں…اسداللہ غالب

شہزادے اوئے

پی ٹی وی بھی چیف جسٹس کے عدل کے انتظار میں…اسداللہ غالب

نوائے وقت میں صفحہ اول پر مطبوعہ خبر کے مطابق حکمرانوں اور سیاست دانوں کے بعد اب پی ٹی وی کے لئے عدل کا ترازو حرکت میں آچکا۔

یار لوگ دن گنتے ہیں کہ چیف جسٹس اپنے منصب سے کب رخصت ہوں گے مگر چیف جسٹس کی ایک گھڑی صدیوں کے برابر ہے۔
خاطر جمع رکھیں پی ٹی وی کے ستائیس کروڑ کے ضیا ع کا حساب اور احتساب ہو کر رہے گا۔
پی ٹی وی ایک فیملی چینل تھا۔ اب اس میںکوئی فیملی کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی کہ یہ ادارہ گھر کی لونڈی بنا دیا گیا۔ مجھے کسی ذات شریف سے عناد نہیں مگر اس ادارے کا سربراہ وہ ہونا چاہئے جو جانتا ہو کہ خبر کیا ہوتی ہے، پی ٹی وی نے ایک زمانہ گزر گیا کہ کوئی اچھا ٹاک شو پیش نہیں کیا حالانکہ برسوں تک نشریاتی دنیا میں اسے اجارہ داری حاصل رہی ۔ اس دوران میں بہر حال اس نے اچھے ڈرامے تو پیش کئے مگر لوگوں کو حالات حاضرہ کی پیاس تھی،یہ پیاس پی ٹی وی نہ بجھا سکاا ور اسی خلا کا فائدہ نئے ٹی وی چینلز نے اٹھایا۔یہ درست ہے کہ نت نئے ٹی وی چینلز پر بیسیوں ٹا ک شوز پیش کئے جا رہے ہیں جنہیں سنتے ہی انسان اگلا چینل بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے مگر سلیم بخاری مطیع اللہ جان ، حامد میر، طلعت حسین، ندیم ملک ،جاویدچودھری،نسیم زہرہ اور کامران خان نے اپنا سکہ جمایا۔پی ٹی وی ان کے مقابلے کاایک بھی اینکر پرسن پیدا نہیں کر سکا۔ اس لئے کہ اس کی باگ ڈورپروفیشنل ہاتھوںمیںنہ تھی۔
عطا الحق قاسمی ہمارے سب کے دوست ہیں ،مگر انکی نواز شریف سے دوستی کام آئی اور وہ پی ٹی وی کے مدارالمہام بن گئے۔ نشریاتی دنیا کے داﺅ پیچ کاان کے پا س کو ئی خاص تجربہ نہ تھا۔ وہ الحمرا میں بیٹھے رہتے تو شاید اس ادارے کی کسی شعبے میں تو دھوم مچ ہی جاتی مگر محض تدریس کا تجربہ تو پی ٹی وی جیسے ہاتھی کو ہانکنے کے لئے کافی نہ تھا۔ سفارتی تجربہ بھی ان کے پاس تھا ، مگر ناروے اور تھائی لینڈ کا۔ قاسمی صاحب اچھے ڈرامہ نویس تھے مگر انتظامی امور کے لئے ڈرامہ نویسی کام نہیں آتی۔ اور پی ٹی وی کو جس طرح ن لیگ کے خادموں کا خادم بنا دیا گیا ، اسی وجہ سے ستائیس کروڑ کا ضیاع ہوا۔یہی وہ بابے تھے جن کا ذکر جناب چیف جسٹس کی زبان پر آیاا ور جس کی تصدیق سیکرٹری انفارمیشن نے بھی کی۔
میں جب کبھی اسلام آباد گیا۔ سیکرٹری انفارمیشن کو ضرور ملتا رہا،وہ میرے پروفیشن کے آدمی تھے۔، اور میں نے جب بھی ان سے کوئی ملاقات کی تو پی ٹی وی کے دفتر میں ان کے لئے مخصوس کمرے میں ملاقات کی اور یہ ملاقات شام کے وقت ہوتی تھی جب وہ اپنا فالتو کام وہاں سکون سے کرنے کے لئے بیٹھے ہوتے تھے مگر اب تو سیکرٹری انفارمیشن کو پی ٹی وی سے الگ تھلگ کر دیا گیا۔یہ ایسے ہی ہے جیسے اس ادارے کا سر کاٹ دیا جائے۔ مگر اب جو سپریم کورٹ میں جواب دہی کا وقت آیا ہے تو یہی بے چارے سیکرٹری انفارمیشن ہی کٹہرے میں ہیں اور وہ بھی بلحاظ عہدہ ورنہ پی ٹی وی کے کسی بھی اچھے برے بلکہ برے ہی برے افعال سے سیکرٹری حضور کا کیا واسطہ۔ وہ تو ناکردہ گناہوںکو بھگت رہے ہیں۔وہ نوائے وقت کے دیرینہ کالم کار اور میرے مرشد محترم مجید نظامی کے قریبی ساتھی سردار اسلم سکھیرا کے صاحبزادے ہیں ، جنہوںنے نوائے وقت میں شائع ہونے والے کالموں پرمشتمل پانچ کتابیں شائع کی ہیں اور ان میں ایک دور کی تاریخ سمٹ آئی ہے اور ان کا لب و لہجہ حمید نظامی اور مجید نظامی کا سا ہے جو کلمہ حق جابر سلطان کے سامنے برملا کہتے تھے۔ سردارا سلم سکھیرا کے کالموں کی کتابیں ایسے ہی کلمات حق سے آراستہ ہیں۔
میں اب عملی صحافت سے دور ہوں اس لئے کبھی اسلم سکھیرا کے بیٹے احمد نواز سکھیرا کو نہیں ملنے گیا۔ ان سے ملنا اس لئے بھی مشکل ہے کہ سول سیکرٹریٹ کی راہداریوں اور بھول بھلیوںمیں میں انہیں تلاش نہیں کر سکتا تھا، ہاں وہ اپنے ایک پیش رو انور محمود کی طرح پی ٹی وی میں اپنا دفتر شام کو جمائے ہوتے تو ضرور ان سے مل لیتا مگر گزشتہ عید کے روز میں اسلم سکھیرا صاحب سے عید ملنے گیا، اصل میں تو ان کی تیمارداری کے لے گیا تھا کہ وہ میرے نوائے وقت کے دور کے ساتھیوں میں سے ہیں۔اور ایسے ساتھی اب کم کم ہیں۔ میم شین سے لے کرخواجہ افتخار تک سبھی چل بسے۔سردارا سلم سکھیرا نے ایک فون ملایا اور میری طرف بڑھا دیا ، کہنے لگے یہ میرا بیٹا ہے اورا ٓپ کے شعبے کا سیکرٹری ہے، احمد نواز سکھیرا کی آواز میں رس تھا ، محبت تھی اور قربت کا رشتہ تھا، انہوںنے مجھے اپنا انکل کہا تومجھے یوں لگا جیسے میں ا ن کے خاندان کا ایک فرد ہوں۔انہوںنے مجھے عزت دی، خدا انہیں عزت دے اور ان گناہوں کی جواب دہی سے محفوظ رکھے جو ان سے سرزد نہیںہوئے۔وہ خاموشی سے کام کرنے کے عادی ہیں صرف پرنٹ میڈیا کے ساتھ ان کا ایکٹو رشتہ ہے اور میں سمجھتا ہوںکہ ان کے دور میں پرنٹ میڈیا کی کوئی شکائت سامنے نہیں آئی، اصولی طور پر سرکاری ا ور غیر سرکاری ٹی وی چینلز بھی ان کی نگرانی میں ہونے چاہیئں، پیمرا کا ادارہ الگ کھڑا کرنے کی ضرورت نہ تھی، زیادہ سے زیادہ اسے وزارت اطلاعات کے ایک ڈویژن کی حیثیت دی جانی چاہئے تھی۔ پیمرا سے لوگوں کو شکایات ہیں اور چینلز کو چینلز سے بھی شکایا ت ہیں اور ان کا ایک انبار لگا ہوا ہے، پیمرا بھی اسی لئے نہ چلاکہ اس پر سیاسی تقرری ہوئی ایک پروفیشنل کو ہٹا کر کسی لاڈلے کو اس کے سر پہ بٹھا دیا گیا۔ غیر پیشہ ور افراد ایسے ہی ہیں جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا دے دیاجائے۔
چلئے اب ا حتساب کادور آیا ہے اور ہر کسی کے سامنے ا سکا نامہ اعمال رکھا جا رہا ہے۔ پی ٹی وی کے بابوں کے گینگ کو نواز شریف نے کروڑوں کی سلامی پیش کرنا ہی تھی تو ذاتی جیب سے عطا فرماتے ، سرکاری ادارے کا خزانہ تو نہ لٹاتے۔عطا الحق قاسمی قلم کار بھی ہیں ، قلم کار بڑا حساس واقع ہوتا ہے، انہیں تو یہ منصب قبول ہی نہیں کرنا چاہئے تھا ۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے اور ن لیگ کے لکھاری گینگ کو بہتی گنگا میں اشنان نہ کرواتے۔کوئی ٹوٹی پٹڑیوں والی ریلوے میں جا بیٹھا، کسی نے نیشنل بک فاﺅنڈیشن کو شکنجے میں لے لیا ، اورجو کوئی ان پڑھوں کی پنچائت میں بات نہیں کر سکتا ، اسے پی ٹی وی کا اینکر پرسن بنا دیا گیا اور کسی کے لئے نرالے سے نرالا منصب گھڑ لیا گیا۔ مقصد قومی خزانے کو چونا لگانا تھا، اب یہ الزامات ہیں اور اگر یہ نرے الزامات ہی ہیں تو قاسمی صاحب با عزت بری ہو جائیں گے۔ وہ منصب تو خود ہی چھوڑ آئے ہیں۔ باقی دیہاڑی دار بھی اپنی اپنی کرسیاں چھوڑ رہے ہیں مگر انہیں حساب دینا ہو گا ۔، وہ ان کرسیوں تک کیونکر پہنچے اور کیا گل کھلائے۔ میںمانتا ہوں کہ امریکی صدر عہدہ سنبھالتے ہی سینکڑوںلوگوں کو مختلف عہدوں پر بٹھا لیتے ہیں مگر ان میں سے ہر کوئی اپنے شعبے کا مسلمہ ایکسپرٹ سمجھا جاتا ہے ، اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پاکستان میں جو سیاسی ریوڑیاں بانٹی جاتی ہیں وہ عقل کے اندھوں میں بانٹی جاتی ہیں۔
یہ قائداعظم کا پاکستان تھا، کسی کا زر خرید ملک نہ تھا۔ چیف جسٹس کسی اور کاا حتساب بعد میں کریں ، پہلے ان لکھاریوں اور دانشوروں کااحتساب کریں جنہیں پتہ تھا کہ کرپشن کیا ہوتی ہے اور یہ ملک کے لئے کس قدر خطرناک سرطان کی حیثیت رکھتی ہے۔عقل سلیم کے مالک ہی اگر عقل کا ساتھ چھوڑ دیں اور حرص کے پجاری بن جائیں تو گھوڑوں کی طرح بکنے والے ارکان اسمبلی کے ٹولے سے کونسی نیکی سرزد ہو سکتی ہے۔
میری رائے ہے کہ سارے بابے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور قوم کو لوٹی ہوئی دولت واپس کر دیں ، یقین کیجئے ، معاشرے میں ان کی عزت پھر سے بحال ہو جائے گی۔
٭٭٭٭٭