خبرنامہ

چودھری سردار محمد کی یاد میں…. اسداللہ غالب

ماہ ستمبر کو ماہ ستم گر کہا جاتا ہے۔ مجھے چودھری سردار محمد یاد آ رہے ہیں جو ا س ماہ میں ہم سے بچھڑ گئے۔ میں تو اداس ہوںمگر ان کے بغیر نظریہ پاکستان کا ادارہ بھی سونا سونا سا لگتا ہے، چودھری سردار محمد میرے مرشد جناب مجید نظامی کی کہکشاں کا ایک روشن ستارہ تھے۔

حج اور عید کی چھٹیوں میں چودھری صاحب کی یاد کسے آتی، مگر ان کے بیٹوں جیسے داماد نوید چودھری نے ان کی یاد میں ایک فورم تشکیل دے رکھا ہے جس کے رفقاءان کے گھر اکٹھے ہوئے، فاتحہ خوانی کی گئی اور چودھری صا حب کی خوشگوار یادوں کو تازہ کیا گیا۔ نوید چودھری ہیں تو ان کے داماد مگر انہوںنے چودھری سردار کو باپ سے بڑھ کر عزت دی ہے۔ انہیں آخری وقت تک اپنے دفتر میں بیٹھنے ا ور لکھنے پڑھنے کے لئے جگہ فراہم کی اور ریسرچ ورک کے لئے ایک ٹیم بھی ساتھ بٹھائی۔ اللہ کو منظور نہیں تھا۔ یہ کام چودھری سردار کی بے وقت ا ور اچانک رحلت کی وجہ سے ادھورا رہ گیا، وہ پاکستان کی تحریک اور بانیان پاکستان پر ایک نئے انداز سے تاریخ لکھوانا چاہتے تھے۔
چودھری سردار محمد منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے۔ وہ مشرقی پنجاب سے اس وقت ہجرت کر کے پاکستان آئے جب وہ سکول کے طالب علم تھے۔ہجرت کے اس عذاب نے ان کی سوچ پر گہرے اثرات مرتب کئے۔لاہور سے بہت دور کسی ریلوے اسٹیشن پر وہ قلی کے طور پر مزدوری بھی کرتے تھے، اس کمائی سے ماں باپ کا پیٹ پالتے ا ور اپنے تعلیمی اخراجات بھی چلاتے۔ اللہ نے ان پر کرم کیا، قلی کے طور پر زندگی کے سفر کاا ٓغا زکرنے والا ملک کے سب سے بڑے صوبے کا آ ٓئی جی پولیس بنا۔ کالم نگار اور نوائے وقت کے سابق کارکن جاوید چودھری ان کی زندگی پر ایک فلم بنانے کا ارادہ رکھتے تھے، نام تھا قلی سے آ ٓئی جی تک ، انہوں نے چودھری صاحب سے اس وقت رابطہ کیا جب وہ صحت کے مسائل کی وجہ سے زیادہ نقل و حرکت کے قابل نہ تھے، یوں یہ فلم خیال اور تجویزسے ا ٓگے نہ بڑھ سکی۔ مگر حقیقت میں یہ فلم ہم سب کے سامنے ہے، چودھری صاحب کی تصنیفات کی شکل میں ان کی ساری زندگی کی فلم ہماری آ نکھوں کے سامنے چل رہی ہے، متاع حیات، جہان حیرت نے ان کی نجی ا ور پیشہ ورانی زندگی کے سبھی پہلووں کا احاطہ کر رکھا ہے، جہان حیرت تو واقعی سے ایک طلسم ہوش ربا ہے، اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ پندرہ سال بیت گئے، اس کا پہلا ایڈیشن ہی فروخت ہو رہا ہے، پبلشر کو نئے ایڈیشن کی تاریخ بھی بدلنے کا وقت نہیں ملتا۔ متاع حیات میں انتہائی سلیس انداز میں انہوںنے اپنی نجی زندگی کو قلم بند کیا ہے ا ور بلا کم و کاست کیا ہے، سادہ ا نداز تحریر قاری کے دل و د ماغ میں اتر جاتا ہے۔
قائد اعظم کی شخصیت نے کسے متاثر نہیں کیا مگر بہت کم لوگوںنے قلم کاغذ پکڑا اور اپنے قائد پر لکھنے کی زحمت گوارا کی، چودھری سردار محمد نے قائد اعظم پر لکھا اور جھوم جھوم کر لکھا، ان کی کتاب قائد کے نظریات اور افکار کی صحیح صحیح عکاسی کرتی ہے اور آج کے دور کا نوجوان قاری اپنے قائد سے محبت کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔
نواز شریف سے چودھری صاحب کی بے حد قربت تھی، وہ ان کے منیٹر کا درجہ رکھتے تھے۔چودھری سردار نے ہمیشہ نواز شریف کواپنا لیڈر سمجھا اور ان کے بارے میں ایک خوبصورت کتاب تحر یر کی۔ نواز شریف پر کم کتابیں لکھی گئی ہیں مگر ان میں سے چودھری صاحب کی کتاب کسی بھی لالچ اور طمع سے پاک ہے۔ انہوںنے اپنے لیڈر کی ایسی تصویر پیش کی ہے کہ نواز شریف قائد اعظم ثانی لگتے ہیں اس لئے کہ ان کے ا رادے فولادی اور عزائم محکم تھے۔
پولیس کے محکمے کے ساتھ بھی چودھری صاحب نے پورا پورا انصاف کیاا ور اس پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی جس میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا نچوڑ پیش کر دیا، چودھری صاحب اس حق میں تھے کہ چھوٹے موٹے جھگڑے تھانوں اور کچہریوںتک نہیں پہنچنے چاہیئں، بلکہ انہیںمقامی طور پر پنچائتی نظام کے تحت حل کر لیا جائے۔ اس سے پو لیس اور عدالتوں کا قیمتی وقت بھی بچ سکتا ہے اور ان کی صلاحیتیں معاشرے کے سنگین جرائم کا قلع قمع کرنے پر صرف ہو سکتی ہیں۔
نظریہ پاکستان کے ادارے میں چودھری صاحب نے ایک فعال کردارا دا کیا۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر تقریبات کاا ٓغاز ہوا، بانیان پاکستان کی ایک جامع فہرست مرتب کی گئی اور ان کی یا دمیں تقاریب کا اہتمام کیا جانے لگا، نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے متعارف کروانے کے لئے سمر سکول کاا جرا کیا گیا، اس اسکیم کے تحت اب تک لاکھوں کی تعداد میںملک کے نونہالوں کو نظریہ پاکستان کی محبت سے سرشار کیا جا چکا ہے۔
نوید کریم چودھری داد کے مستحق ہیں کہ انہوںنے چودھری سردار محمد فورم کی برسوں سے آبیاری کا حق ادا کر دیا ہے، ورنہ معاشرے کا وطیرہ یہ ہے کہ لوگ آتے ہیں۔ چلے جاتے ہیں ، چند دن ان کو یاد رکھا جاتا ہے پھر وہی زندگی کے جھمیلے اور رخصت ہو جانے والے دلوں سے محو ہو جاتے ہیں، مگر نوید کریم چودھری نے اس فورم کو محض فائلوں تک محدود نہیں ہونے دیا اور نہ اپنی یا چودھری سردار کی بے جا پبلسٹی کے لئے اسے استعمال کیا ہے، بس چودھری صاحب کے قرییی رفقا اس کے ماہوار اجلاسوںمیں شرکت کرتے ہیں، حالات حاضرہ پر بے لاگ تبصرے چلتے ہیں اور یوں چودھری صاحب ایک زندہ جاوید شخصیت کے طور پر آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں، ان کی تصانیف بھی انہیں ابدی شہرت بخش رہی ہیں ، جہان حیرت نے تو فروخت کے تمام ریکارڈ مات کئے حالانکہ اس کی بھی کوئی پبلسٹی نہیں کی گئی، بس جو کوئی ا سکے مندرجات کے بارے میں سنتا ہے، وہ اس کتاب کو کہیں نہ کہیں سے خرید لیتا ہے یا کسی لائبریری سے استفادہ کر لیتا ہے۔
چودھری سردار محمد بلا شبہ ایک عظیم انسان تھے، ان کی عظمت کی وجہ ان کے نظریات، افکار اور نامہ اعمال ہے جو ہر ایک لئے قابل تقلید ہے۔ قلی سے آئی جی تک ترقی کرنے والا انسان صحیح معنوںمیں ایک سیلف میڈ انسان تھا۔
٭٭٭٭٭