خبرنامہ

چودھری سرور، میراا لونگ گواچا۔۔۔اسداللہ غالب

آج چودھری سرور کی اچھائیاں بیان کرنے کو جی چاہتا ہے، پتہ نہیں وہ کہاں گواچ گیا ہے، لاہور میں ہوتے ہوئے دستیاب نہیں، ایک زمانہ تھا کہ گلاسگو جاؤ، تو خبر ملتے ہی وہ ڈھونڈ لیتا اور پھر خان ہوٹل پر چائے، لاک لومنڈ کے کناروں پر مٹر گشٹ اور کبھی وہ زیادہ ہی موڈ میں ہوتا تو اپنی بڑی مرسیڈیز نکالتا، راستے سے بابائے امن ملک غلام ربانی کو ساتھ بٹھا لیتا اور پھر طویل بل کھاتی سڑکیں، چاروں طرف سبزہ اور دور دور تک پہاڑوں کی چوٹیاں۔ وہ پورا سکاٹ لینڈگھوم جاتا اور ایک چھوٹے سے گاؤں میں اپنے بزرگوں کی قبروں پر بھی لے جاتا ، جہاں ہم دعا کے لئے ہاتھ ا ٹھا لیتے۔
محمد سرور مجھے بلا وجہ یاد نہیں آیا، مجھے کسی نے بتایا کہ اس کی خود نوشت My Remarable Journey چھپ گئی ہے اور لندن میں ا س کی مہورت بھی ہو گئی ہے، پتہ نہیں ایک چھپی ہوئی کتاب کو چھپانے کی کیا ضرورت تھی، پاکستان میں محمد سرور نے ا سے ہوا نہیں لگنے دی۔ ہو سکتا ہے صرف مجھے نہ ملی ہو، مگر میں نے ا س کا تذکرہ کسی سے نہیں سنا۔سرور کو یہ کتاب ہزراوں کی تعداد میں تقسیم کر دینا چاہئے تھی۔ لوگوں کے دل میں ابھی وہ محمد سرور زندہ ہے جس نے عالم ا سلام سے باہر کسی بھی غیر ملک کی پارلیمنٹ میں پہلی کامیابی حاصل کی تھی، پاکستان میں تو ا س کی دھوم مچی ہی مچی، عالم عرب میں اس کے فین صحراؤں کی ریت کے ذروں کے برابر ہیں۔محمد سرور سے پہلے ایک معرکہ گلاسگو کے بشیر مان نے مارا، اسے پہلا منتخب کونسلرہونے کا اعزاز حاصل ہے، برطانیہ کے اخباروں نے صفحہ اول کو پورا سیاہ کر دیا تھا ور درمیان میں جس قدر موٹا لکھا جا سکتاتھا، اس میں لکھا کہ ایک کالاان کے نظام میں نقب لگانے میں کامیاب ہو گیا۔ بشیر مان صرف کونسلر تھا مگر محمد سرور ممبر پارلیمنٹ۔ اس کے منتخب ہونے پر تو بجلیاں گر پڑیں اور برطانوی میڈیا اس کا ویری ہو گیا۔ اس کے لئے نقل وحرکت مشکل بنا دی گئی۔ ہر وقت کیمرے ا س کا تعاقب کرتے، مجھے وہ اپنے گھر لے گیا تو گاڑی سے نکلتے ہی منہ نیچے کر کے لابی میں گھسنے کی ہدائت کی تھی۔اس نے کہا کہ باہر سڑک پر درختوں کی گھنی شاخوں کے اندر بھی کیمرے چھپے ہیں۔
میں محمد سرور کا شاہنامہ سننے ا ور پڑھنے کا دلدادہ تھا، مجھے سیرو تفریح سے غرض بہ تھی، میں تو اسے ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا اور جی بھر کے دیکھنا چاہتا تھا۔اس کی روشن آنکھوں سے جھلکتی اس کی کتاب زندگی کا ایک ایک ورق پلٹنا چاہتاتھا۔
ابھی وہ ممبر پارلیمنٹ منتخب نہیں ہو اتھا کہ اس نے وفد کے ساتھ فلسطین جانا شروع کیا، اس کے ساتھ مسلمان ا ور غیر مسلم سبھی ہوتے اور وہ انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرتے، صہیونی لابی بھڑوں کی طرح ا سے چمٹ گئی۔
پتہ نہں محمد سرور کی کتاب میں یہ سب کچھ لکھا ہے یا نہیں ،کیا لکھا ہوگا۔کوئی بیس سال قبل اس نے بتایا تو تھا کہ اس نے کسی کو اس کام پر مامور کر رکھا ہے، بڑے لوگ خود کتابیں نہیں لکھتے، وہ کسی اور سے لکھواتے ہیں، اسکو بہت کچھ ڈکٹیٹ کروا دیتے ہیں، باقی کام دیہاڑی دار کا ہوتا ہے، میں نے مشورہ دیا تھا کہ کتاب کا اردو ایڈیشن بھی ساتھ ہی لانا ، پتہ نہیں اس کے ترجمے کو کوئی بندو بست ہو ایا نہیں۔
میں نے انٹر نیٹ پر سرور کی کتاب کا نام لکھا ، ایک لنک ملا جو لندن کے اردو اخبار میں شائع ہوئی،اس میں کتاب کے جن مندرجات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ محمد سرور کے کارنامے تو ہیں مگر برطانوی عوام کی نظر میں۔کل شام کو مانچسٹر سے چودھری غلام محی الدین کا فون آیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ کتاب پڑھی ہے، کہنے لگے،صرف سناہے کہ چھپی ہے اور اس کی افتتاحی تقریب بھی ہو گئی ہے مگر کتاب ابھی تک دیکھی نہیں۔
یہ عالم شباب کے دن تھے ا ور ذہن ایک سے ایک بڑھ کر تصورات سے اٹا ہو اتھا، میں نے ایک روز مانچسٹر کے اسی چودھری غلا م محی الدین اور چودھری منظور( یہ دونوں ا س زمانے میں عمران خان کے شیدائی تھے ) کو ساتھ لیا، کئی گھنٹوں کی ڈرائیونگ کے بعد ہم ا س کے گھر پہنچ گئے، ایجنڈے پر ایک ہی نکتہ تھا کہ محمد سرور کوئی بڑا کام کر گزرے۔ سی این این اور بی بی سی کے مقابلے میں مسلمانوں کوئی چینل بنائے،کوئی تھنک ٹینک تشکیل دے اور عالم ا سلام کے نوجوانوں کی فکری رہنمائی کرے جو بڑی تیزی سے مولوی نما انتہا پسندوں کے حلقہ اثر میں پھنستے اور دھنسے چلے جا رہے تھے۔ جی ہاں ، یہ بات تو پرانی ہے مگر ہے درست۔ ہم سب کو یہ تشویش لاحق تھی کہ ا نتہا پسندی ایک زہر ہے اور کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
میں واپس چلاآیا، حالات سے کٹ گیا۔محمد سرور اپنے جھگڑوں میں الجھا رہا، اور بالآخر وہ سرخرو ہوا، اس پر کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا۔اس کے خلاف مہم چلانے والا اخبار اپنی موت مر چکا ہے، یہ نیوز آف دی ورلڈ تھا۔پتہ نہیں اسے اخبار کون کہتا تھا، یہ تو چیتھڑا تھا۔
مجھے گمان ہے کہ یہ ساری تفصیل تو کتاب میں موجود ہو گی مگر جو کچھ ہم پاکستانی جاننا چاہتے ہیں، وہ اس میں نہیں ہو گا۔اس کے لئے محمدسرور کو ا س کا پاکستانی ایڈیشن لکھواناا ور چھپوانا پڑے گا، جس میں لکھا ہو کہ اس نے کس طرح گیلو وے کو جتوانے کے جتن کئے۔وہ اپنی پارٹی کا باغی تھا، سرور کھل کرا س کاساتھ نہیں دے سکتا تھا مگرا سنے برطانوی مسلمانوں کو گیلو وے کی حمائت میں منظم کیا۔ اور یہ بھی لکھا جانا چاہئے کہ محمد سرور کو یہ جان کر کس طرح دھچکا لگا کہ اس کا دوست ٹونی بلیئر مساجد کو سرکاری خطبہ جمعہ کا پابند کرنا چاہتا ہے۔ محمد سرور جانتے تھے کہ اس فیصلے کے مضمرات کیا ہیں، مسلمان ا س فیصلے کو کسی قیمت پر قبول نہیں کر سکتے تھے اور وہ تھے بھی زیادہ تر ٹونی بلیئر ہی کی حکومت کے حامی مگرا س اقدام سے وہ مخالف صف میں کھڑے ہو سکتے تھے۔ محمدسرور نے پورے ملک سے چیدہ چیدہ ،جدید پڑھے لکھے، با ریش، سوٹڈ بوٹڈنوجوانوں کو جمع کیا، ایک وفد بنا کر ٹونی بلیئر سے ملا قات کروائی۔ دیکھنے والے ششدر رہ گئے کہ ٹونی بلیئر ان کی باتوں سے مسحور ہو کر کس طرح اپناقلم دانتوں میں دبا کر، ان نوجوانوں کو ٹکٹکی لگا کر، دیکھتا رہا۔اور دیکھتا چلا گیا۔ اور اپنا حکم جاری کرنا بھول گیا۔ نوجوانوں نے اس کے سامنے اسلام کا روشن، لبرل، پر امن چہرہ پیش کیا تھا۔
محمد سرور نے اپنی کتاب چھاپ لی مگر چھپا لی۔محمد سرور کہاں ہے۔
میرا گواچا لونگ تلاش کرنے میں کوئی تومیری مدد کرے۔
اے کاش! وہ پی ٹی آئی کے پھندے سے نجات حاصل کر لے۔