پچھلے جمعہ کی رات ننکانہ کے مہر سعید ظفر پڈھیار کے بیٹے کا ولیمہ تھا، یوں لگتا تھا کہ ایک خلقت اس فائیو اسٹار ہوٹل میں امڈ آئی ہے ، کھوے سے کھوا چھل رہا تھا، مدھم روشنیوں میں کسی کو پہچاننا بھی ممکن نہ تھا، اچانک کسی نے میرا راستہ روکاا ور خیر خیریت دریافت کی۔ یہ افضل سندھو تھے، پیپلز پارٹی کے سینیئر لیڈر۔ نہ جانے مجھے انہی کے علاقہ کے چودھری عبدالغفور کیوں یاد آ گئے، فروری کے آخر میں انہیں ملنے گیا تھا، وہ برآمدے کی دھوپ میں بیٹھے تھے ا ور مجھے بھی یہ منظر اچھالگا ، کتنی ہی دیر تک ہم زمانے بھر کی یادیں تازہ کرتے رہے۔پڈھیار میرا راوین دوست ہے، اس نے پچاسی میں سیاست شروع کی اور پہلی ہی ا سمبلی میں وزیراطلاعات بن کے بیٹھ گیا،اس کاسارا رعب مجھ پر ہی چلتا تھا، ان کے ولیمے کے اگلے روز میں نے ایک بار پھر چودھری عبدالغفور کے گھر کی طرف جانے کا قصد کیا، ابھی گارڈن ٹاؤن تک پہنچا تھا کہ تیز دھوپ نے میرا ارادہ بدل دیا۔ اس موسم میں برآمدے میں محفل جمانا ممکن نہ ہو گا، میں نے سوچا کہ کسی روزرم جھم شروع ہو جائے تو پھر ادھرآؤں گاا وربرآمدے سے بارش کا دلفریب منظر انجوائے کروں گا۔دو دن بعد ہی صبح سویرے بارش شروع ہو گئی، میری گاڑی کا رخ ماڈل ٹاؤن میں چودھری عبدالغفور کے گھر کی طرف تھا، میں اسی نشست پر جا بیٹھا جہا ں دو ماہ پہلے چودھری صاحب سے خوش گپیاں کی تھیں، مگر اب میرے سا منے چودھری صا حب نہ تھے، بس ان کی یادیں تھیں اور ان کے دو بڑے بیٹے چودھری ظفر اقبال اور چودھری مظہر اقبال۔آسمان رو رہا تھا اور ہم چپ چاپ، خالی خولی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، ان دونوں کاتو باپ اس جہان فانی سے رخصت ہوا تھا اور میں اپنے چالیس سالہ پرانے بھائیوں جیسے دوست سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گیا تھا۔
آج ہر طرف کرپشن کی باتیں ہو رہی ہیں اور ان کا جواب کسی کے پاس نہیں، مجھے یادہے کہ برسوں پہلے میں نے اپنی بھوک ننگ سے تنگ آ کرچودھری صاحب سے کہا تھاکہ آپ کوئی چھوٹی موٹی کرپشن کیوں نہیں کرلیتے،آپ کی حالت بھی سدھرے اور ہم جیسے اہالی موالی بھی فیض یاب ہو جائیں، کسی فیکٹری کے لئے ہی قرضہ لے کر ہڑپ کر لیں، انہوں نے روایتی مسکراہٹ اور سادگی سے کہا تھا کہ مجھے تو یہ فن آتا نہیں ۔بس ساری عمر محنت کی ہے اور جو اللہ نے دیا،اس پر صبر کرنا سیکھا۔
چودھری صاحب ہارون آباد کے چک بیالیس میں پلے بڑھے مگر ماڈل ٹاؤن کے مڑھیاں قبرستان میں ابدی نیند سو گئے، ان کی لوح پر ان کے بیٹے شاید کیا لکھوائیں ، میرا بس چلے تو صرف اتنا لکھواؤں کی ایک سیلف میڈ انسان۔
ہارون آباد کے گاؤں میں پرورش پانے والا انسان کبھی بڑے خواب نہیں دیکھ سکتا، یہ وہ علاقہ ہے جہاں انسان اور مویشی ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں اور یہ پانی گدلاا ور جراثیموں سے اٹا ہوتا ہے۔چودھری صاحب نے روزی روٹی کمانے کے لئے بہاولنگر کی کچہریوں میں ہی پھٹہ لگایا۔پھر اللہ جانے جنرل ضیا الحق کی نظر ان پر کیسے پڑ گئی کہ انہیں جنرل جیلانی کی کابینہ میں شامل کر لیا گیا، اس کابینہ میں بالکل نئے چہرے تھے، میاں محمد نواز شریف، میاں صلاح الدین، ملک اللہ یار خان، حامد ناصر چٹھہ، چودھری پرویز الہی۔یہ کابینہ پچاسی کے الیکشن تک کام کرتی رہی اور غیر سیاسی الیکشن کے بعد یہ چہرے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچ گئے، چودھری عبدالغفور کم و بیش ہر الیکشن میں کامیاب ہوئے اور ان پر اگر جنرل ضیا کے پسندیدہ سیاستدان ہونے کا کوئی داغ تھا بھی تو وہ بار بار کے الیکشنوں سے دھل گیا،وہ صوبے کے علاووفاق میں بھی وزیر بنے، کبھی ان کے پاس زراعت کا محکمہ ہوتا تو کبھی تعلیم کا اور کبھی قانون کا اور کبھی وہ وزیر اعلی معائنہ کمیشن کے چیئر مین بنے۔ان کا بیٹا ظفر اقبال سینیٹر منتخب ہوتا رہا اور پھر اس نے چھوٹا موٹا کاروبار بھی کیا جس کے بل بوتے پر وہ لاہور چیمبر آف کامرس کا صدر بنا، اسی دور میں لاہورکے تاجروں نے کراچی تک ایک بزنس ٹرین چلانے کامنصوبہ بنایا۔ چودھری ظفر اقبال نے ا س کی کامیابی کے لئے دن رات ایک کر دیا، دوسرے بیٹے مظہر اقبال نے آرتھو پیڈک میں مہارت حاصل کی ،کچھ عرصہ سرکاری ہسپتالوں میں ملازمت کرنے کے بعد انہوں نے جیل روڈ پر اپنا آرتھو پیڈک ہسپتال قائم کر لیا۔ اپنے عظیم باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈاکٹر مظہر اقبال نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے ہسپتال کی ساکھ قائم کر لی۔
رشتے ناطوں سے بھی کچھ لوگ بڑے آدمی بن جاتے ہیں مگر میں نہیں سمجھتا کہ جب چودھری عبدالغفور نے اپنے بڑے بیٹے چودھری ظفرا قبال کی شادی میاں ماجد کی طرف کی تو یہ گھرانہ کوئی اتنا زیادہ معروف تھا، ٹھیک ہے کہ چودھری منیر ان دنوں اچھا کاروبار کر رہے تھے اور ابو ظہبی والوں سے ان کے تعلقات استوار ہو گئے تھے اور انکی وساطت سے چودھری منیر کو کنسٹرکشن کا کام مل رہا تھا مگرا س کا حجم واجبی سا تھا، مگر اللہ نے اس خاندان کو اس قدر برکت دی کہ اب چودھری منیر کا ایک بیٹا وزیر اعظم نوازشریف کی نواسی مہرالنساء سے بیاہا گیا ہے، یہ شادی دنیا کے کسی مہنگے تریں مقام پر بھی ہو سکتی تھی مگراس کی رسم نکاح مسجد نبوی ﷺمیں انجام پائی، اور رخصتی جاتی امرا سے بڑی ہی سادگی سے کی گئی۔وزیر اعظم کی نواسی کی رہائش کے لئے کہیں بھی شاہانہ گھر تعمیر کیا جاسکتا تھا مگر چودھری منیر نے اپنے گھر کے ساتھ ہی ایک نیا گھر بنایا اور یہاں نیاجوڑا قیام پذیر ہے، اسی ہفتے کے روز میری ملاقات ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک سعید احمد سے ہوئی، باتیں کرتے کرتے وہ اچانک اٹھے، کیا دیکھتے ہیں کہ مصلے پر کھڑے ہیں، دوگانہ اد اکر کے فارغ ہوئے تو پوچھنے لگے کہ باوا پارک کی ڈائریکشن کیا ہے ، میں دل میں ہنسا کہ سیدھے کہہ دیتے کہ بیٹی مہرالنسا نے ان کے لئے لنچ سجا رکھا ہے۔یہ گھر میرے لئے اجنبی نہیں ہے۔اس کی کہانی بھی سن لیجئے،پچاسی کے الیکشن کے بعد جنرل جیلانی نے وزارت ا علی کے امیدواروں کے درمیان دوڑ لگوا دی تھی کہ اپنی طاقت شو کرو۔اس دوڑ میں میاں محمد نواز شریف بھی شامل تھے اور چودھری عبدالغفور، ملک ا للہ یار خان۔ مخدوم زادہ حسن محمود، پرویز الہی اور چندایک دوسرے۔ میرے صحافتی فرائض میں میاں نواز شریف کی کوریج شامل یھی، ایک روز انہوننے کہا کہ ان کانام فائنل ہو گیا ہے، آیئے ، دوسرے امیدواروں کا شکریہ ادا کرنے چلتے ہیں، ہمارے راستے میں اپر مال پر سب سے پہلا گھر چودھری عبدالغفور کا تھامگر میں نے فون کر کے پتہ کیا ، وہ گھر پر نہ تھے، چودھری منیر کے ہاں بیٹھے تھے، چودھری منیراور میاں ماجد کا گھر ساتھ ساتھ ہے۔ میں میاں نواز شریف کو لے کر سیدھا باوا پارک میں چودھری منیر کے گھر لے گیا ، وہ ایک وسیع تہہ خانے میں بیٹھے تھے ، ہمیں دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے، کہ کھرا کیسے تلاش کر لیا۔میاں نواز شریف نے بڑے مؤدب الفاظ میں چودھری عبدالغفور کو خراج تحسین پیش کیا۔ جنرل جیلانی کی کابینہ کے دور کے بعض واقعات پر قہقہے لگائے۔کون جانتا تھا کہ ایک روز نواز شریف، چودھری منیر اور چودھری عبدالغفور بچوں کی وساطت سے ایک وسیع تر خاندان کا حصہ بن جائیں گے۔
میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا، اپر مال کے سرکاری گھر کو چھوڑنے کے بعد چودھری عبدالغفور نے ماڈل ٹاؤن کے بی بلا ک کے جس مکان میں رہائش اختیار کی، برسوں بعد وہیں سے ان کا جنازہ اٹھا۔نہ وہ کسی ڈیفنس میں گئے، نہ بحریہ میں اور نہ فارم ہاؤس کا شوق پورا کیا۔و ہ ہر انسان کی طرح دنیا سے خالی ہاتھ گئے ہیں،مگر انہوں نے دنیا بھی خالی اور پاک صاف ہاتھوں سے گزاری۔ ایک شفاف کیرئر کے ساتھ۔
پاک آرمی نے ایک لیفٹننٹ جنرل سمیت گیارہ فوجی افسروں کو سزا سنا دی۔ مجھے یقین ہے کہ چودھری غفور زندہ ہوتے تو کسی بے لاگ ا ور بلا امتیازاحتساب میں بھی شفاف ہی ثابت ہوتے۔
اس سادہ منش، سیلف میڈ انسان کی موت پر آسمان بھی آنسو بہا رہا تھا۔