خبرنامہ

چودھری نثار، پاکستان کا وقار۔۔اسداللہ غالب

چودھری نثار کسی سر پھرے شخص کا نام ہے، اس نے سچ بولنا اپنے ا وپر کیوں واجب کر لیا ہے۔جب ا س کے ساتھی منافقت سے کام چلا رہے ہیں ا ور کامیاب بھی ہیں توچودھری نثار کو حق گوئی کا عارضہ کیوں لاحق ہے۔
یہ ڈھیر سارے سوالات ہیں ، کبھی اس شخص کو ملوں تو ان کاجواب مانگوں۔ ایک بار ان کا فون آیا ،اس میں بھی سچ بولنے سے باز نہ آئے، کہنے لگے ، آپ کے قلم سے کسی کے لئے کلمہ خیر کبھی نہیں نکلا ،ا س لئے آج جو آپ نے میرے بارے میں لکھاہے،ا سکے لئے میرے دل میں آپ کی وقعت بڑھ گئی ہے۔بھلا یہ بھی کوئی انداز ہے کسی کالم کار کا شکریہ ادا کرنے کا مگر چودھری نثار کو کون سمجھائے۔وہ تو وہی بولیں گے جو ان کے دماغ میں ہے اور شاید ان کا دماغ جھوٹ کو ہضم نہیں کر سکتا۔جھوٹ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
اب پھر وہ اپنے جوبن پر ہیں۔ انہوں نے ایک ہی سانس میں بہت کچھ کہہ ڈالا۔
ڈرون حملہ پاکستان کے ا قتدار اعلی پر حملہ ہے۔
جو شخص پوری دنیا گھوم گیا ،ا سے پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہیں ڈرون مارنے کا مطلب سوائے ا سکے کچھ نہیں کہ پاکستان کو دہشت گردی کے لئے مطعون کرناہے۔
امریکہ جس شخص کو مارنے کا دعوی کر رہاہے، ڈرون میں اس شخص کے مرنے کی ہم تصدیق نہیں کر سکتے۔
جس گاڑی پر ڈرون مارا گیا،ا سکے چیتھڑے اڑ گئے، لاشوں کا قیمہ بن گیا، مگر کیا کمال ہے کہ پاسپورٹ کو خراش تک نہیں آئی۔
مرنے والے کو شناختی کارڈ موجودہ حکومت نے جاری نہیں کیا بلکہ اس کا شناختی کارڈ منسوخ کیا گیا۔
.اس کے پاسپورٹ کو بھی منسوخ کرنے کا حکم جاری ہو امگر نامعلوم قوتوں نے ا س حکم پر عملدرآمد نہیں کیا۔
مرنے والے شخص کے شناختی کارڈ کے لئے تصدیق کنندگان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ڈرون فائر کرنے کا مقصد صرف افغان امن مذاکرات کو سبو تاژ کرنا ہے۔
امریکہ کا یہ دعوی غلط ہے کہ ملا اختر منصور امن مذاکرات کا مخالف تھا، یہ شخص تو مری مذاکرات کے پہلے راؤنڈ میں شامل تھا۔
یہ امریکی دعوی بھی غلط ہے کہ حقانی گروپ امن نہیں چاہتا، اس گروپ کے نمائندے مری مذاکرات کی میز پر موجود تھے۔
مری مذاکرات میں فیصلہ ہو گیا تھا کہ اگلے دور میں اس معاہدے پر دستخط کر دیئے جائیں گے کہ کابل غیر متحارب خطہ ہے۔اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ طالبان نے کابل میں جنگی کاروائیوں سے ہاتھ اٹھا لئے ہیں۔
مری مذاکرات کے بعد دوسرے راؤنڈ سے چند روز پہلے ملا عمر کی موت کی خبر افشا کر دی گئی ، جس سے طالبان میں اندرونی خلفشار پیدا ہو گیا۔
کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ کون امن مذاکرات کا حامی ہے اور کون ان کو سبو تاژ کر رہا ہے۔
یہ سب کچھ چودھری نثار نے کہ۔ وہ پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں، ایک ذمے دار منصب پر فائز ہیں، ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ پاکستان کی داخلہ ا ور خارجہ پالیسی پر منفی یا مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے۔بھارت کے ساتھ تعلقات پہلے ہی خراب ہیں،اور خراب ہو جائیں گے تو کچھ فرق نہیں پڑے گا، افغانستان کے ساتھ ہمیں امن چاہئے، مگر ڈرون نے ہماری اس خواہش پر پانی پھیر دیا ہے ، امریکہ کے ساتھ تعلقات کئی وجوہ سے ڈیڈ لاک کا شکار ہیں، امریکہ ایک سپر طاقت ہے مگر چودھری نثار جو بھی بولے، اس کے مضمرات اور نتائج و عواقب کا صحیح صحیح اندازہ لگانے کے بعد ہی بولے ہوں گے۔
میرا خیال تھا ، اب ہماری قوم میں سلطان میسور پیدا نہیں ہو سکتا جس کا قول تھا ، کہ شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بدرجہا بہتر ہے۔میرا یہ وہم بھی تھا کہ ا ب ہماری قوم میں کوئی طارق بن زیاد بھی جنم نہیں لے سکتا جس نے جبرالٹر کے ساحل پر اترنے کے بعد کشتیاں جلا دی تھیں، میرا خیال تھا کہ اب ہماری قوم میں نسیم حجازی کے ناولوں کے ہیرو جنم نہیں لے سکتے۔مگر چودھری نثار کی باتیں سنیں تو میرے سارے وہم دور ہو گئے، میں اس گفتگو کے سحر میں جکڑا جا چکا۔ میرے سامنے ایک روشن لمحہ منکشف ہوا اور میں یکا یک ایک بے غیرت قوم سے غیرت مند قوم کا فرد بن گیا۔میرا لمحہ موجود کراں تا بہ کراں روشن تراور تابناک ہو گیا۔
امریکہ آج ایک سپرپاور ضرور ہے، مگر اسے خدائی اختیارات حاصل نہیں ہیں ،اس نے ہمیں پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکی دی، مگر وہ نہ تو یران کی ا ینٹ سے اینٹ بجا سکا ، نہ لیبا کے خلاف پابندیاں عاید کر کے وہ اس قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکا، وہ عراق اور افغانستان کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے میں بھی ناکام رہا،وہ برسوں کی جارحیت سے شام میں کوئی جوہری تبدیلی لانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکا ، اب وہ پاکستان کے درپے ہے، سعودی عرب کے بھی در پے ہے، دیکھتے ہیں کہ وہ کیا غضب ڈھانے پر قادر ہے،
مگر ہم یہ نہیں کہتے ، نہ یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں امریکہ سے کوئی دشمنی مول لینی چاہئے۔
ہم ہمیشہ سے اس کے حلیف چلے آ رہے ہیں۔ ہم نے امریکہ کی خاطر سوویت روس سے دشمنی مول لی ۔ہم نے ایسے معاہدوں میں شمولیت اختیار کی جو امریکی مفادات کو بڑھاوادینے کے لئے تھے۔امریکہ نے پینسٹھ ا ور اکہتر میں ہماری پشت پر چھرا گھونپا، اس کا ساتواں بحری بیڑہ آبنائے ملاکہ ہی میں پھنسا رہا جبکہ بھارت نے روسی بلاک میں شمولیت اختیار کی تھی اورا س بلاک نے بھارت کی مکمل پشت پناہی کی، بھارت نے ایٹم بم بنایا، دنیا نے ا سے ہندو بم نہیں کہا، پاکستان اس راستے پر چلا تو امریکی پابندیوں کا شکار ہو گیا۔ یہ تو اللہ بھلا کرے روسی افواج کا جنہوں نے افغانستان میں مداخلت کی ٹھانی ا ور امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی، اب نائن الیون کے بعد بھی پاکستان ہی امریکہ کے لئے یہی ضرورت ثابت ہوا مگر روس کی شکست کے بعد امریکہ ہمیں بھنور میں پھنسا کر چھوڑ گیا، اب پھر وہی کرتا نظرآرہا ہے۔ ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اور امریکہ کو پاکستان کی فوجی امداد کے لئے شرائط عاید کرنے کا خیال آ گیا ہے۔
میں یقین کامل سے کہتا ہوں کہ اگر چودھری نثار جیسے سرپھروں کو ہمارے فیصلوں کا اختیار حاصل رہا تو ہم امریکہ کے پیدا کردہ ہر بحران سے بچ نکلیں گے۔
ایک باغیرت قوم کو ایک باغیرت لیڈر کی ضرورت ہے، چودھری نثار نے ایک غیرت مند لیڈر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔فیصلے چودھری نثار نے کرنے ہیں، سوشل میڈیا کے بغلولوں نے نہیں کرنے۔سوشل میڈیا کی ا نگیخت پر ہم بے غیرتی کا راستہ اختیار نہیں کر سکتے۔ہمارے سامنے ہیروز کی ایک کہکشاں ہے، چودھری نثار اسی کہکشاں کا تابناک اور درخشاں ستارہ ہے۔