خبرنامہ

چودھری نثار، پھر ایک بار۔۔۔اسداللہ غالب

جی ہاں ، ایک بار پھر مگر آج ان سے مجھے بھرپور اختلاف کااظہار کرنا ہے۔ خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔ایک ولی محمد کے پیچھے بیس کروڑ پاکستانیوں کو مشکوک سمجھ لینا کسی منطق ، کسی قانون ، کسی آئین کی رو سے جائز نہیں۔
اگر یہ منطق درست ہے تو پھر پورے پاکستان کو حوالات قرار دے دو اور ہر دروازے کے باہر ایک پہریدار کھڑا کر دو، جس کا شناختی کارڈ اصلی ہو ،ا سے سانس لینے، دفتر جانے،یا ڈاکٹر کو دکھانے یا دفن ہونے کی ا جازت دی جائے۔
میں اپنا شناختی کارڈ تصدیق کروانے کے لئے نادرا آفس جانے سے انکار کرتا ہوں، میری پاکستانی شہریت کسی نے منسوخ کرنی ہو تو وہ اپنا شوق پورا کر لے۔ خدا کی زمین بڑی وسیع ہے، کوئی ملک تو مجھے قبول کر ہی لے گا ، آخر خدا کا گھر تو ہے جوسب کے لئے جائے اماں ہے، یہ کفار مکہ کے لئے بھی جائے اماں تھا۔
چند برس پہلے پوری قوم کو سولی پر لٹکایاگیاا ور تازیانے برسا کر کڑکڑاتی سردی میں مجبور کیا گیا کہ وہ بنفس نفیس موبائل فون کے دفتروں میں جائیں اور ا پنی سموں کی تصدیق کروائیں۔میں ستر برس کابوڑھا، لاغراور بیمار شخص کبھی ایک دفتر جاتا ، کبھی دوسرے دفتر، صرف میں نہیں بارہ کروڑ لوگ قطاروں میں کھڑے تھے، ایک حشر کا عالم تھا، لوگ مارے مارے پھر رہے تھے، ایک موبائل دفتر سے سم کی تصدیق ہوجاتی تھی، دوسرے دفتر والے کہتے تھے کہ نادرا آپ کے انگوٹھے کی تصدیق نہیں کر رہا، اور یہ میری ہی نہیں ہرا س شخص کی تضحیک تھی جس کو یہ فقرہ سننے کو ملتا تھا۔میں تو سردی سے ٹھٹھر کر تین ہفتے بستر سے چپکا رہا۔ اور وہ اذیت پسندشخص جس نے سموں کی تصدیق کا حکم دیا تھا، وہ ضرور چین کی نیند سویا ہو گا، مگر خلق خداکو اس پل صراط سے گزارنے کے باوجود دہشت گردی ختم نہ ہو سکی ۔
اب شناختی کارڈ چیک کروانے ہوں گے، شکر ہے کہ وزیر داخلہ نے چند ماہ دے دیئے اور پھر اس کرب کا سامنا کرنا ہو گا، ہر اس شخص کو جس کے پاس پاکستان کی شہریت کے ثبوت کی خاطر نادرا کا شناختی کارڈ موجود ہے۔
میں مزید واہی تباہی لکھنے سے پہلے نادرا کی خصوصیا بیان کرنا چاہوں گا، دنیامیں نہ سہی، خطے میں اس سے زیادہ مہارت رکھنے والا کوئی ادارہ نہیں اور جس طرح ایک زمانے میں پی آئی اے کا سلوگن تھا کہ ہم نے دنیا کی ایئر لائنوں کو اڑنا سکھایا، نادرا اس سے بھی بڑا کلیم کر سکتا ہے کہ اس نے تیسری دنیا کو ڈیٹا بیس بنانے کا درس دیا۔ نادرا کی تکنیکی مہارے ہر شک و شبہے سے بالا تر ہے ، یہ بات میں نے نادرا کے ایک سابق چیئر مین علی ارشد حکیم کو اس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک کے سامنے کہی تھی۔پیپلز پارٹی کے وزرا تک رسائی آسان تھی کیونکہ ان کی پسند نا پسند کی لسٹ تھی ہی نہیں ، اب تو سناہے کہ لاہور میں متعین ایک انکم ٹیکس اٖفسر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم کی لاہور کی بر یفنگ میں کس کو جانے دینا ہے۔
میں ایک بات اور کہتا ہوں ، اگرچہ یہ میرا اندازہ ہے مگر مجھے یقین ہے کہ نادرا یہ کام کر سکتا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنے دفاتر میں بلائے بغیراصلی شناختی کارڈوں کی پہچان کر سکتا ہے اور یہ کروڑوں میں ہو ں گے ، باقی جن کی تصدیق ان کا سسٹم نہ کر سکے، ان کو دفاتر میں ہتھکڑیاں لگا کر طلب کر لیا جائے مگر ساری مخلوق خدا کو ایک لاٹھی سے ہانکنا کہاں کا انصاف ہے اور وہ بھی ایک ولی محمد کی خاطر، ایک ایسا شخص جس کی کوئی پہچان ہی نہیں اور اگر کوئی پہچان تھی بھی تو اسے مری مذاکرات میں پوائینٹ بلینک نشانہ لے کر کیوں نہ ختم کیا گیا۔
میں وزیر داخلہ کو ایک نکتہ اور سمجھنا چاہتا ہوں کہ آپ بیس کروڑ پاکستانیوں کو جیلوں میں بھی ٹھونس دیں تو بھی امریکہ پاکستان کو بخشنے والا نہیں۔اس لئے کہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی ، کوئی افغانی ملوث نہیں تھا، مگر چودہ برس سے پاکستا نی اور افغانی ہی انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں اور آئندہ بھی بنتے رہیں گے، اوباما ا ور جان کیری نے کھلم کھلا دھمکی دے دی ہے۔
کیا نائن الیون کے بعد اور برطانیہ نے سیون سیون کے بعد اپنے لوگوں کی زندگی اجیرن بنائی تھی، ہر گز نہیں، بس ایئر پورٹوں پر غیر ملکیوں اور وہ بھی مسلمانوں کی۔جنرل راشد قریشی اپنے باس صدر مشرف کے ساتھ گیا تھامگرا سکی اس انداز میں تلاشی لی گئی کہ وہ پھٹ پڑا کہ آئندہ کبھی امریکہ کارخ نہیں کرے گا۔
امریکیوں نے اپنے لوگوں کے گرد گھیرا ضرور تنگ کیا مگر صرف ان کا جن پر انہیں شک تھا، ہر ایک کو ہوم لینڈ کے دفاتر کا چکر کاٹنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔امریکہ نے انسانی حقوق کے تما م تر دعووں کے باوجود یہ قانون بنایا کہ وہ کسی گھر کی چار دیواری پھلانگ سکیں گے ا ور بغیر وارنٹ گرفتاری کر سکیں گے۔اس قانون پر عمل ہوتا بھی رہامگر کروڑوں امریکیوں کی زندگی میں خلل ڈالے بغیر، وہاں کسی نے یہ حکم جاری نہیں کیا کہ اپنی شناختی دستاویزات یا سموں کی تصدیق دوبارہ کرواؤ، امریکی حکومت اپنے شہریوں کو پر امن اور محب وطن سمجھتی ہے الا یہ کہ کسی کے خلا ف اس کے پاس کوئی مواد ہو۔
پاکستانی اداروں نے ا س ملک کے عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ لیا ہے۔جب چاہے جو مرضی قانون بنا لیں ، اپنے لئے الگ قانون اور بھیڑ بکریوں کے لئے الگ قانون۔ خود کے لئے قندھار کی اسمگل گاڑیوں کو جائز بنا لیتے ہیں اور غرب آدمی کی موٹر سائیکل کے کاغذات ہر چوک میں چیک کئے جاتے ہیں۔خود کلبوں میں رات گئے تک کھابے کھاتے ہیں اور دن کی روشنی میں پارکوں میں گھومنے والوں سے نکاح نامے طلب کرتے ہیں۔غریب کی800 cc سوزوکی سے عمر بھر کا ٹیکس زبردستی وصول کرتے ہیں اور اپنی لینڈ کروزروں پر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر گھومنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔غریب بجلی کا بل نہ دے تو ا س کامیٹر کاٹ دیا جاتا ہے ا ور سرکاری ادارے اربوں کے نادہندہ ہیں ، وہ خدائی فوجدار بنے بیٹھے ہں، کوئی ان سے پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ اب تو ایک نیا قانون بن گیاہے کہ جس فیڈر پر بجلی زیادہ چوری ہوتی ہے،اس میں بل دینے والوں کو بھی چوروں کی طرح سزا دینے کے لیئے لمبی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔
اس عالم میں وزیر داخلہ کے نئے احکامات پر کوئی زیادہ تعجب نہیں ہوا، وہ بادشاہ ہیں، بلکہ راجہ ہیں اور راجگان کے خاندان سے ہیں، شیر کے نشان والی پارٹی سے ہیں، اس لئے اپنی رعایا سے جو چاہے سلوک کریں۔ان کے پاس ایذا رسانی کا بھر پور مینڈیٹ ہے۔
مگر میں خدا کا و اسطہ دے کر کہتا ہوں کہ صرف اتنی ہی اذیت پہنچائیں جتنی میں اور عام آدمی سہہ سکیں۔ اور امریکی خوشنودی کے لئے تو ذرا بھی اذیت نہ پہنچائیں۔بیس کروڑ لوگوں کو لائن حاضر نہ کریں۔یا پھر پولیو کے قطرے پلانے والوں کی طرح اپنے اسٹاف کو گھر گھر چیکنگ کے لئے بھجو ادیں۔ اور مردم شماری اور خانہ شماری کے لئے بھی تو گھر گھر ہی جانا پڑتا ہے، نئے کام کے لئے بھی کڑوا گھونٹ پی لیں۔ امریکہ سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کھربوں ڈالر کی امدا دمل رہی ہے، کچھ تو مشرف ا ورا س کے ساتھی ہڑپ کر گئے ، باقی سے اسٹاف بھرتی کر لیں اورانگوٹھے چیک کرنے والی مشینیں بھی منگو الیں ، اب تو یہ مشین ہر بینک میں بھی پڑی ہے ،ا س کے بغیر بنک اکاؤنٹ تک نہیں کھلتا۔ میں حیران ہوں کہ آف شور بنکوں والے کونسا شناختی کارڈا ور پاسپورٹ دیکھتے ہیں۔ اور میرے کان میں ذرا بتانا کہ یہ کہاں سے ملتے ہیں