خبرنامہ

چڑیا کی چونچ کے قطرے بھڑکتے الاﺅ کو بجھا سکتے ہیں؟ اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

چڑیا کی چونچ کے قطرے بھڑکتے الاﺅ کو بجھا سکتے ہیں؟ اسد اللہ غالب

پہلے تو یہ معذرت کہ میں پٹری سے اتر گیا ہوں، میںنے عہد کیا تھا کہ انیس جولائی تک کشمیر کی تحریک آزادی کے مختلف پہلوو¿ں کو زیر بحث لاﺅں گا، مگر مجھے اجازت دیجئے کہ ساتھ ساتھ جو انہوں نے واقعات اور حاد ثات رونما ہو رہے ہیں ، ان پر بھی اظہار خیال کرتا رہوں۔
میںنے جو سوال ا ٹھایا ہے، اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ مگر بچپن میں میرا یہ شغل جاری رہا کہ اسکول جاتے ہوئے راستے میں جہاں کہیں سرکنڈوں کے جھنڈ آتے تو کسی جھاڑی کو آگ لگا دیتا ، اس شغل میں میرے دوسرے کلاس فیلو بھی شامل ہوتے، ہم الاﺅ کو بھڑکتے دیکھتے، دھواں اٹھتا تو یکا یک کہیں سے چھوٹی چڑیوں کے غول رونما ہوتے اوراس آ گ پر منڈلانے لگتے۔ ہم نے مسجد کے مولوی صاحب کا یہ خطبہ بارہا سنا تھا کہ جب سیدناحضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو یہی چڑیا دور دور سے اپنی چونچ میں پانی کے قطرے لاتی اور آگ بجھانے کی کوشش کرتی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو اللہ تعالی نے اپنے معجزے سے آگ میں جلنے سے محفوظ رکھا مگر اس چڑیا کا ذکر اساطیر میں لکھا گیاا ور نسل در نسل مجھ تک بھی پہنچا۔
مجھے یہ چڑیاا س وقت بہت یاد آئی جب احمد پور شرقیہ کا سانحہ رونما ہوا اور دو سو کے قریب لوگ اس میں سوختہ ہو گئے، یقین سے کہہ سکتا ہوں کی یہ چڑیا دھوئیں کے ا س جہنمی مرغولے پر ضرور منڈلاتی رہی ہو گی جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔
اس سانحے پرہر آنکھ اشک بار ہوئی، خادم اعلی فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچے، پوری پنجاب حکومت کے وسائل ان کی دسترس اور صوابدید میں تھے، میں نے شعیب بن عزیز کو عید مبارک کا پیغام بھیجا مگر جواب آیا کہ وہ تو بہاولپور میں ہیں۔ وزیر اعظم عید منانے لندن میں تھے، ان کے نواسے کی گریجوایشن بھی تھی ا ور انہیں اپناطبی معائنہ بھی کروانا تھا مگر وہ یہ سننے کو تیار نہ تھے کہ جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ نواز شریف ایک انسان کے طور پر رقیق القلب واقع ہوئے ہیں۔ یوں ملک کے تمام سر کاری اور قومی وسائل غمگساری کے لئے دستیاب تھے مگر میںنے فیس بک کی ایک پوسٹ دیکھی کہ ڈاکٹڑا ٓصف جاہ کی کسٹم ہیلتھ کیئر کے نوجوان ڈاکٹر ہسپتالوںمیں مریضوں کی دیکھ بھال میںمصروف ہیں، کہا ںوزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب اور پورے حکومتی وسائل اور کہاں ڈاکٹر آصف جاہ کی ایک منحنی سی تنظیم ، مجھے وہ چڑیا یاد آ گئی جو سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھڑکتے الاﺅ کو بجھانے کے لئے چونچ میں دور دراز کہیں سے پانی کے قطرے لا رہی تھی، تمام حکومتی اور قومی وسائل کے مقابلے میں ڈاکٹر آصف جاہ کی حیثیت اس چڑیا سے زیادہ نہ تھی مگر تحسین اور ستائش کے لائق تو وہ کوشش اور جذبہ ہے جو ان کے دل میں امڈ آیا تھا۔
مصر کے بازار میں ایک پھول گلابوں جیسا بچہ یوسف بکنے کے لئے آیا تو ہر کوئی سوناا ور چاندی کے بدلے تول کر اسے حاصل کرنے کی آرزو سے سرشار تھا مگر ایسے میں ایک جھونپڑی میں چرخہ کاتنے والی بڑھیا کوبھی یہ بچہ پسند آ گیاا ور وہ بھاگ کر گھر گئی، ایک سوت کی اٹی پکڑے وہ بولی دینے کے لئے آئی تو لوگ ہنس دیئے مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا، بڑھیا نے بے تابی سے کہا کہ میری سوت کی اٹی دوسرے ترازو میں تو رکھو، اور وہ ہو گیا جس کی کسی کو توقع نہ تھی، سوت کی اٹی والا پلڑا بھاری ہو گیاا ور بڑھیا چاند سے زیادہ تابدار یوسف کو گود میں لئے شادا ںو فرحاں اپنی جھونپڑی کی طرف چل دی۔
نیکیوں کو ترازو میںنہیں تولا جا سکتا۔ روز حشر کو ترازو ضرور رکھا جا ئے گا مگر کسی کی ایک یہی نیکی کہ اس نے پیاس سے ہانپتے ایک کتے کو پانی پلایا تھا، اس کی سار ی زندگی کے گناہوں پر بھاری ثابت ہو گی۔
جب ضرب عضب آپریشن شروع ہوا تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین نے مردان ا ور نواحی علاقوں کا رخ کیا ، ان کی دیکھ بھال کے لئے خیبر پی کے کی حکومت، پوری فوج اور حکومت پاکستان چاق و چوبند ہو کر امدادی کاموںمیںمصرف تھی ، اس وقت بھی میںنے دیکھا کہ ایک تہی دست شخص جس کا نام مجھے ڈاکٹڑ آصف جاہ بتا یا گیا، انتہائی بے تابی سے وانا کی سرحد پر طبی کیمپ لگا چکا تھا، یہ خطرناک علاقہ تھا مگر میلوں پیدل چل کر پھولے سانس کے ساتھ ایک باحیاا ور باعفت خاتون ڈاکٹرا ٓصف جاہ کے کیمپ میں آئی،، وہ چند گھڑیوں کی مہمان لگتی تھی مگر آصف جاہ نے ساری رات آ نکھوں میںکاٹی اور اسے نئی زندگی کا تحفہ دیا۔
ایوان صدر میں آصف جاہ کو انسانی خدمت کا ستارہ امتیاز عطا کیا گیا تو تقریب کے بعد آصف جاہ نے جنرل راحیل شریف کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ میرا نام ڈاکٹرا ٓصف جاہ ہے، آرمی چیف نے شائستگی سے جواب دیاڈاکٹر صاحب آپ کو اپنا تعارف کروانے کی چنداں حاجت نہیں، آپ کا کام بولتا ہے اور آپ کے تعارف کے لئے کافی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جنرل راحیل نے ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا تذکرہ میری کتاب ضرب عضب میں پڑھا تھا۔ مگر وہ درجنوں کتابیں جو خود ڈاکٹر صاحب نے تصنیف کیں، سوات اور ما لاکنڈ کے بے گھروںپر،بالا کوٹ ا ورا ٓواران کے زلزلے پر،پنجاب کے تباہ کن سیلاب پر اور تھر کے پیاس کے مارے بچوں پر۔ یہ سب کتابیں ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور ان کے تعارف کے لئے کافی ہیں۔
ایک تہی دست فرد، جو اپنی نوکری بھی دل جمعی سے کرتا ہے اور خلق خدا کی خدمت میں بھی دن رات ایک کئے رہتا ہے، وہ نام کی حد تک آصف جاہ ہے مگر کردار کے لحاظ سے کوئی ملکوتی مخلوق ہے، وہ تو کسی الف لیلی کا کردارلگتا ہے۔
لیجیئے صاحب ، میں اپنے اصل موضوع کو نہیں بھولا ۔ میںنے ڈاکٹر صاحب سے ایک پیغام میں دریافت کیا ہے کہ کیا کبھی وہ شکر گڑھ، ناروال، بجوات اور کنٹرول لائن پر ان خون سے لتھڑے بے گناہوں کی دست گیری کے لئے بھی پہنچے ہیں جو آئے روز بھارتی گولہ باری کا نشانہ بن رہے ہیں، یقین کیجئے ہماری فلاحی این جی اوز نے ان لوگوں کو مکمل طور پر فراموش کر رکھا ہے اور انہیں بھارتی توپوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، ڈاکٹر آصف جاہ نے فون پر بتایا ہے کہ آپ کا تاثر درست ہے اور یہ ہماری کوتاہی ہے مگر ہفتہ کی صبح ان کا پروگرام احمد پور شرقیہ جانے کا ہے تاکہ قدرت کے غضب کا شکار خاندانوں کی خود جا کر دل جوئی کر سکیں اور پھر پہلی فرصت میں وہ ورکنگ باﺅنڈری اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کا نشانہ بننے والو ں کی خدمت کے لئے کمر کس لیں گے۔