خبرنامہ

چھاپوں پر چھاپے اور ہسپتالوں کی حالت….اسداللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

پہلے شہباز شریف چھاپے مارتے تھے، اب بزدار صاحب یہ رسم نبھا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان بھی ہسپتالوں کا معائنہ کرنے میں مصروف ہیں۔شہباز شریف تو ڈاکٹروں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے۔ موقع پر معطلی کے احکامات جاری کرتے تھے اور کسی کسی کو سزا کے طور پرباتھ روم میں بند کردیتے تھے۔ چلڈرن ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر محمود شوکت سے پوچھا کہ مریض بچے کو داخل کیوں نہیں کرتے۔انہوں نے جواب دیا کہ کوئی بیڈ خالی نہیں ، حکم حاکم جاری ہو ا کہ ایک بیڈ پر دو مریض لٹا لو اور علاج تو کرو۔ وہی ڈاکٹر میوہسپتال میں تھے کہ پھر شہباز میاں کا چھاپہ پڑ گیا۔ اب ڈانٹ اس بات پر پڑی کہ ایک بیڈ پر دو مریض کیوں لٹا رکھے ہیں۔ ظل الہی کی سامنے کس کی چلتی ہے۔
لاہور مین صرف ایک نجی ہسپتال ہی گندے نالے پر نہیں بلکہ سرکاری شعبے میں مینٹل ہسپتال ، کارڈیالوجی ہسپتال ، جنرل ہسپتال اور سروسز ہسپتال بھی گندے نالے پرواقع ہیں ، میو ہسپتال کے دو طرف گندے نالے ہیں۔لاہور کی کیمپ جیل بھی گندے نالے پر ہے جبکہ نصف درجن نجی ہسپتال بھی گندے نالے پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ گندہ نالہ اگر اتنا ہی گندہ ہے تو پورا لاہور شہر پانچ گندے نالوں کے کناروں پر کیوں آباد کیا گیا۔ پنجاب میں ایک زمانے میں پانچ دریا تھے۔ راوی کو ہم نے گندے نالے میں تبدیل کر دیاا ور ستلج میں انڈیا نے فیروز پور کا گندہ پانی ڈال دیا ہے۔لاہور کا پانی ا سقدر آلودہ ہے کہ چودھری سرور نے پچھلی ٹرم میں اپنے ہی گورنر ہاؤس میں پہلا فلٹر پلانٹ نصب کیا اور بعد میں اس کا پانی چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ زہریلا ہے۔
صحت ایک بنیادی حق جسے ریاست کو پورا کرنا ہے نجی شعبے کو نہیں گنادے نالوں کی صفائی۸ بھی حکومت ہی کے ذمے ہے مگر لاہور جیسے سوا کروڑ کے شہر میں وہی چار پانچ ہسپتال ہیں جو آج سے تیس چالیس برس پہلے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر آزادی سے پہلے کے ہیں۔ صرف ڈیفنس کے گیارہ فیز مکمل ہو چکے ہیں مگر ریلوے لائن کے پار بی آر بی تک کسی حکومت نے ایک بھی ہسپتال اس علاقے میں نہیں بنایا۔ اس خلا کو نجی ہسپپتالوں نے پر کیا اور ملک بھر میں ان کا جال بچھا ہوا ہے۔ سب نجی ہسپتال کاروبار نہیں کر رہے ،ان میں سے اکثر فی سبیل اللہ چلتے ہیں۔گلی محلوں میں جنرل فزیشن اپنے طور پر صبح شام کلینک پر بیٹھتے ہیں ، کوئی فیس دے جائے تو جزاک اللہ ورنہ ڈاکٹر کا مالک اللہ ۔
موت صرف نجی ہسپتالوں میں نہیں آتی،سرکاری ہسپتالوں سے بھی دن کے چوبیس گھنٹے لاشیں اٹھتی ہیں۔ موت کے فرشتے کو اس امر کا پابند نہیں کیا جا سکتا کہ وہ نجی ہسپتالوں پر ہی ہاتھ صاف نہ کرے۔ نہ مرنے والوں سے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے مرنا ہو تو کسی پارک میں جا کر مریں ۔ موت تو کہیں بھی آ سکتی ہے۔ کہیں ڈاکٹر کی کوتاہی بھی ہوتی ہو گی ورنہ زیادہ تر ہسپتالوں میں مریض کو اس وقت لایا جاتا ہے جب وہ �آخری سانس لے رہا ہوتا ہے۔میرا چھوٹا بھائی قصور کے سرحدی گاؤں فتوحی والہ سے لاہور کے ایک ہسپتال میں لایا گیا۔ جب میں اسے دیکھنے گیا تواس کے سرہانے ایک سرٹی فکیٹ رکھا پایا کہ یہ شخص ہسپتال میں مردہ حالت میں پہنچا۔ گورنر الطاف صوفے پر بیٹھے باتیں کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہو گئے ۔سابق وزیر صحت اور ممتاز سرجن ڈاکٹر محمود چودھری کارڈیالوجی ہسپتال میں مر گئے۔
کیا ہسپتالوں کا نظام چھاپوں سے درست ہو سکتا ہے۔ دعا تو یہ ہے کہ ہو جائے مگر ہسپتالوں کوٹھیک کرنے کے لئے ہمیں اپنا صحت کا نظام ٹھیک کرنا ہو گا ، کوئی ہیلتھ پالیسی لانا ہو گی۔ علاج معالجے کے لئے بجٹ دینا ہو گا۔ ڈبلیو ایچ او کی شرط ہے کہ ہر ملک کم از کم جی ڈی پی کا دو فی صد صحت کے لئے مختص کرے۔ ہمارے ہاں اعشاریہ آٹھ فی صد ہے۔ مرض کو پیدا ہونے سے روکنے کی ذمے داری ریاست کی ہے۔ ملاوٹ سے پاک غذا اورصاف ستھرا ماحول ۔ پاکستان کی ریاست یہ ذمے داری ادا نہیں کرتی۔ ریاست پر چھاپہ کون مارے گا۔کیا صحت کے عالمی انسپکٹر یہ کام کریں گے۔
حکومت کی طرف سے پابندی ہے کہ کوئی سرکاری ہسپتال ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کو چیک کرائے بغیر دوائی جاری نہ کرے اور حالت یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے اسٹور میں دوائیں پڑی رہ جاتی ہیں مگر ٹیسٹنگ والوں کے پاس ٹائم ہی نہیں نکلتا،ایساکیوں نہیں کیا جاتا کہ یہ ٹیسٹنگ دوائی بنانیو الے کارخانوں کے گیٹ پر کر لی جائے۔
علاج کا مطلب یہ نہیں کہ کھانسی، نزلہ ،زکام، بخار۔ شوگرا ور بلڈ پریشر کے مریضوں کا میو ہسپتال میں جمگھٹا ہو جائے، ان امراض کے لئے ہمیں صحت کے بنیادی مراکز بی ایچ یوز کو زندہ کرنا ہو گا،جہاں وڈیروں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ صرف پنجاب میں ان کی تعداد پچیس سو ہے مگر حکومت یہاں کسی ڈاکٹر کو تعینات نہیں کرتی، نہ وہاں ادویہ فراہم کی جاتی ہیں۔ نہ کوئی مشینری دی جاتی ہے۔
تحصیل کی سطح پر بھی ہسپتال موجود ہیں اور ہر ضلع میں بھی سرکاری ہسپتال موجود ہیں۔ ان پر صرف چھاپے پڑتے ہیں اور ڈاکٹروں کو ڈانٹ ڈپٹ پڑتی ہے، ،دوائیں تیار کرنوالوں کی کوٹھیاں جی او آر میں ہیں اور ان دواؤں کو استعمال کرنے والے میانی صاحب میں۔ حکومت کا حکم ہے کہ دوائی ٹنڈر کے ذریعے خریدی جائے یعنی جس کا ریٹ کم ہو، صرف اسی سے۔ اس طرح حکومت خود چاہتی ہے کہ ہسپتالوں میں گھٹیا اور غیر معیاری ادویہ سپلائی ہوں۔پھر لوگ مریں گے نہیں تو کیا عمر خضر پائیں گے۔میں پچھلے کئی برسوں سے ڈیفنس کے ایک نجی ہسپتال میں علاج کے لئے جا رہا ہوں۔انہی
برسوں میں ہسپتال میں ایسی توسیع ہوئی کہ انسان دیکھ کر دنگ رہ جائے، صرف گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے دو کنال کا پلازہ تعمیر ہوچکا ہے۔ ابھی انتظار گاہ کے لئے ایئر کنڈیشنڈ ہال کی تعمیر پر غور ہو رہا ہے اس کے لئے محمود بھٹی عطیہ دیں گے۔ میں نے اس قدر صاف ستھرا لش پش کرتا کوئی فائیو اسٹار ہوٹل بھی نہیں دیکھا، ان دنوں پھر یہاں دن رات جا رہا ہوں۔ میرا پوتا بیمار ہے ۔ ایک نوجوان چائلڈ اسپیشلسٹ اسے اپنابچہ سمجھ کر علاج کرہا ہے۔ دس دنوں میں اس نے صرف ایک بار معمولی فیس لی ہے۔ میرے بار بار کے پھیروں پر نہ منہ بنایا ہے نہ بل بنایا ہے۔ایک رات شور اٹھا کہ چھاپہ پڑنے والا ہے ۔ میں نے ساڑھے گیارہ بجے تک انتظار کیا کہ دیکھوں یہاں سے کیا خرابی نکلتی ہے۔ اگلی صبح پھرگیارہ بجے تک ہسپتال رہا ۔ رات کو گیا تو پتہ چلا کہ چھاپہ دوپہر کو پڑا۔ میں پچھلے کئی روز سے ڈاکٹر آفتاب کو چٹ بھیج رہا ہوں کہ ان سے معلوم کروں چھاپے میں کیا گزری مگر وہ بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ پیرس کے مشہور عالم ڈریس ڈیزائنر محمود بھٹی کا کوئی تعلق واسطہ اس ہسپتال سے ہے ۔مجھے پتہ چلا تھاکہ وہ ان دنوں پاکستان میں ہیں، میں نے انہیں اپنے میڈیا کے چند دوستوں کے ساتھ جمعرات کی سہہ پہر چائے کی دعوت دی۔ مگر جب انہیںیاد دہانی کرانے کے لئے فون کیا تو انہوں نے محفل میں آنے سے معذرت کی اور کہا کہ وہ ذہنی طور پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ میرے میڈیا کے دوستوں کو ان کے نہ آنے کی خبر ہوئی توا نہوں نے مجھے بتایا کہ وہ تو ہسپتال پر چھاپے کی وجہ سے دل برداشتہ ہیں۔ سچی بات ہے مجھے پوری کوشش کے بعد بھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس ہسپتال میں کیا خرابی نکل آئی۔ اب کوئی عدالتی رپورٹ سامنے آئے تو حقیت حال کا پتہ چلے مگر میں اسا مر کی گواہی ضرور دوں گا کہ عمران خان کے کینسر ہسپتال ہوں یا پشاور سے لے کر کراچی تک کی شاہراہ کے کنارے اور دور دیہات تک نجی ہسپتالوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے جو مقدور بھر انسانیت کی خدمت کر رہا ہے۔ ان میں سے بیشتر ہسپتال اوور سیز پاکستانیوں کی مدد سے چلتے ہیں ۔شکاگو کے چودھری رشید ہوں ، یا گگو منڈی کے چودھری منظور، گلاسگو کے چودھری سرور اور ملک غلام ربانی یا چودھری یعقوب ہوں یا لندن کے سر انوار پرویز یا پیرس کے محمود بھٹی ۔ یہ فراخدلی سے وطن عزیز کی خدمت میں مصروف ہیں۔میں پچھلے دنوں پچاس برس بعد اپنے ہائی سکول گنڈا سنگھ والہ گیا تو اس میں خاصی توسیع دیکھی۔ پرنسپل صاحب نے بتایا کہ آپ کے ایک کلاس فیلو ڈاکٹر ظفر امریکہ میں ہوتے ہیں، وہ جب بھی آتے ہیں تو دو چار کمرے بنوا جاتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے پیش کش کی کہ میں اذاتی لائیبریری اسکول کے لئے ہدیہ کرتا ہوں کہ میرے پاس یہی مال و متاع ہے۔
مجھے لاہور کے دو مہنگے تریں ہسپتالوں میں جانے کااتفاق ہوا۔ ڈاکٹر سرور مجھ سے فیس نہیں لیتے۔میں نے ان سے علاج کروانا چھوڑ دیا ہے۔ ڈاکٹڑ شہباز سرور سے رجوع کرتا ہوں،۔ وہ فیس تو لیتے ہیں لیکن اسی فیس میں ایک مشین سے دل کا معائنہ بھی کر لیتے ہیں۔ ڈاکٹر سرور نے تین سال قبل میری بیگم صاحبہ کو چار اسٹنٹ ڈالے ۔ دس لاکھ کا بل تھا ۔ انہوں نے اس کا تقاضہ نہیں کیا۔ پھر اسی ہسپتال میں بیگم صاحبہ کا بائی پاس ہوا جس میں وہ جانبر نہ ہوسکیں، بہت بڑا بل بن چکا تھا مگر ڈاکٹر سرور نے کہا کہ صرف سرجن کی فیس دے دیں اور جائیں۔ ڈیفنس کے ہسپتال میں گردن کے مہرے اور سر کے چکروں کے علاج کے لئے ڈاکٹر حیدر مجھ سے فیس نہیں لیتے،میرا مشاہدہ ہے کہ یہ مہنگے تریں ہسپتال بھی مریض اوراس کے لواحقین کی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہیں۔میری بڑی بھابی کی طبعیت خراب ہے،وہ ہیما ٹالو جسٹ ڈاکٹر نگہت کو دکھانا چاہتی ہیں جن سے اگلے تین ماہ تک ٹائم نہیں مل سکتا۔ میں نے ان کے ریسپنشٹ کو صورت حال کی سنگینی سے آگاہ کیا تو تین دن بعد کا ٹائم مل گیا۔
کیا آپ کو یقین آ گیا کہ ڈاکٹر ربوٹ نہیں، انسان ہی ہیں ۔ ان میں انسانیت کامادہ بھی موجودہے۔ڈاکٹر علی حیدر تو ایک فرشتہ تھے۔