خبرنامہ

چین میں سی پیک پر ایک مذاکرہ….اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

چین میں سی پیک پر ایک مذاکرہ….اسد اللہ غالب

اس کالم کاا ٓغاز بھی ایک بری خبر کے ساتھ، جب سے نواز شریف کار حکومت سے فارغ کئے گئے ہیں، گوادر کی بندرگاہ میں تعمیر و توسیع کا کام سست پڑ گیا ہے۔
دو محاورے ہیں کہ چراغ تلے اندھیرا اور گھر کی مرغی دال برابر۔ اس کا عملی نمونہ میں اور میرا ایک بھتیجا ہے۔ تفصیل آگے ملاحظہ فرمایئے۔
نوائے وقت کے دفتر کے سامنے ایک پر اسرار سی بلڈنگ ہے، اس میں لیسکو کا ہیڈکوارٹر ہے۔اس میں میرے ایک بھتیجے انجینیئر خالد سعید اختر جنرل منیجر ٹیکنیکل کے عہدے پر کام کرتے ہیں، میں اپنے دفتر بہت کم جاتا ہوں اورا س سے بھی کم لیسکو کے دفتر میں۔ مگر جب بھی جاتا ہوں تو خالد سعید کسی میٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں یا اگلی میٹنگ میں شرکت کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں، ان سے ملنے گھر جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی غیر ملکی سرکاری دورے پر ہیں، اس اتوار کو ان کے گھر کے قریب رہائش پذیر میرے ایک چچا کاانتقال ہو گیا، ان کے خاندان سے مل کر میں اپنے بھتیجے کے گھر چلا گیا، یہ حسن اتفاق ہے کہ خالدسعید گھر میں مل گئے۔ان سے بہت باتیں ہوئیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ چند ماہ پہلے چینی حکومت کی دعوت پر شنگھائی گئے تھے جہاں ساٹھ ممالک کے مندوبین بھی آئے ہوئے تھے۔امریکی، یورپی، عربی ، افریقی اور ایشیائی سبھی کی نمائندگی تھی۔ اس مذاکرے میں اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ سی پیک کے دنیا اور چین پر کیااثرات مرتب ہوں گے، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں کیونکہ مذاکرے کے شرکاء سبھی کے سبھی بجلی کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان میں سے کوئی پندرہ اصحاب نے کانفرنس میںمقالے پڑھے اور سی پیک کے اثرات کا جائزہ لیا۔ یہ اثرات دو طرفہ تھے، ایک تو خود چین کو سی پیک سے کیا فائدہ ہو گا ، دوسرے متعلقہ ملک کو کیا حاصل ہو گا۔ ان مقررین میں خالد سعید بھی شامل تھے، ان کے مقالے کو پہلے تین بہترین مقالوں میں شمار کیا گیا ور انہیں خصوصی انعامات سے بھی نواز گیا۔مجھے دلچسپی پید اہوئی کہ آخر بھتیجا صاحب نے ایسی کیا نرالی باتیں کر دیںجو چینیوں کے دل کو لگیں۔ اور یہ باتیں ہمیں بھی تو معلوم ہوں۔ میںنے ان سے مقالے کی کاپی لی،یہ خالص ٹییکنیکل زبان میں لکھی ہوئی ہے اور سچی بات یہ ہے کہ آدھی سے زیادہ باتیں میرے سر سے گزر گئی ہیں۔ اب جو وضاحت کے لئے انہیں فون کرتا ہوں تو وہ فون نہیں اٹھاتے، ظاہر ہے وہی میٹنگ در میٹنگ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سرکاری دفتروں میں میٹنگیں تو ہوتی ہیں، مگر کام کس وقت ہوتا ہے۔ مگر ظاہر ہے کام ہو رہا ہے تو ملک چل رہا ہے۔
خالد سعیداختر واپڈا میں ایس ڈی او کی حیثیت سے بھرتی ہوئے، اپنی خداداد صلاحیتوں اور محنت شاقہ کے بل پر وہ جنرل مینجر کے ٹاپ کے منصب پر فائز ہوئے،۔ اب ان کی ریٹائر منٹ میں کچھ ہی ماہ باقی ہیں،اور وہ چاہتے ہیں کہ نیک نامی کے ساتھ اس ادارے سے رخصت ہوں۔ میری بھی دعا ہے کہ ان کی دعا قبول ہو۔
گزشتہ دنوں خالد سعید اپنے محکمے کے وزیر اویس لغاری صاحب کے ساتھ گوادر بھی گئے جہاں یقینی طور پر ان لوگوں کا مقصد یہ دیکھنا ہو گا کہ کام کیسے ہو رہا ہے اور اسے کس طرح تیز کیا جائے۔ کراچی سے گوادر تک جانے کے لئے مکران ہائی وے بھی دستیاب ہے اور ایک ہوائی جہاز بھی روزا نہ ا ٓتا جاتا ہے۔مگر اس سے زیادہ ابھی کوئی سرگرمی دیکھنے میںنہیں آتی ، اگلے چند برسوں میں تیز رفتار تبدیلیاں البتہ دیکھنے میں ضرورا ٓئیں گی۔
سی پیک کے منصوبے پاکستان بھر میں زیر تکمیل ہیں۔ابتدا میں اس پراجیکٹ کا تخمینہ چھیالیس ارب ڈالر لگایا گیا جو اب بڑھ کر باسٹھ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ لاگت میں مزید اضافہ ہو گا۔
چین کو اس منصوبے سے کب فائدہ پہنچتا ہے، یہ تو بعد میں پتہ چلے گا مگر پاکستان پر چند برسوں کے اندر انقلابی تبدیلیوں کی بارش ہو رہی ہے۔بجلی کی کمی نے مصیبت ڈال رکھی تھی اور ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا مگر سی پیک کے تحت بجلی کے نئے منصوبے بنے اور ان میں سے کئی تو مکمل ہو چکے اور پیداور دے رہے ہیں جس سے لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
بجلی کے نئے منصوبوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:
کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبوں سے آٹھ ہزار ایک سو میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی،۔ ان میں تیرہ سو بیس میگا واٹ کا ساہیوال کول پراجیکٹ جس سے نصف پیداوار ملنی شروع ہو گئی ہے۔پورٹ قاسم کول پراجیکٹ بھی تیرہ سو بیس میگا واٹ کا ہے۔حب کول پراجیکٹ سے بھی اتنی ہی بجلی حاصل ہو گی۔تھر کول پراجیکٹ کی صلاحیت نو سو میگا واٹ کی ہے۔مائن مائوتھ کول پراجیکٹ بھی تیرہ سو بیس میگا واٹ کا ہے۔اینگرو کول پراجیکٹ بھی تیرہ سو بیس میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا اور گوادر پاور پراجیکٹ سے چھ سو میگا واٹ بجلی ملے گی۔
میںنے خالد سعید اختر سے سوال کیا کہ کیا کوئلے کے ان کارخانوں میں چین کا گھٹیا کوئلہ استعمال ہو گا، ان کا جواب تھا کہ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، ہم کہیں سے بھی کوئلہ منگو اسکتے ہیں، میرا دوسرا سوال تھا کہ کیا کوئلے کے کارخانے ماحول پر برے اثرات مرتب کریں گے، ان کا جواب نفی میں تھا، انہوںنے تفصیل سے بتایا کہ ہر کول پراجیکٹ میں کوئلے کے دھوئیں کو ٹریٹ منٹ کے بعد خارج کیا جائے گا اور اگر کوئی شخص شنگھائی گیا ہو تو وہ آ نکھوں سے وہاں کے کول پروجیکٹ سے سفید دھوئیں کے مرغولے اٹھتے دیکھ سکتا ہے اور آس پاس کے علاقے میں کسی شخص کی صحت پر برے اثرات نہیں پڑے۔ خالد سعید نے کہا کہ یہ صرف پراپیگنڈہ ہے اور منصوبے کی مخالفت کا ا یک بہانہ۔ مگر ظاہر ہے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی بجلی کے ایسے منصوبے ہی لگائے گا جو ماحولیات کے لئے ذرہ بھر نقصا ن دہ نہ ہوں اور ان کے فضلے کو ٹریٹ کرنے پر بھاری اخراجات نہ اٹھانا پڑیں ، اس وقت ہماری ضروت بجلی ہے،۔ اور وہ بھی سستی۔ ہم نے تھرمل منصوبوں کا مزہ چکھ لیا۔
اب دیکھئے کہ ونڈ مل سے کتنی بجلی پیدا ہو گی:
پچاس میگا واٹ دائود ونڈ فارم
سو میگا واٹ یو ای پی ونڈ فارم
پچاس میگا واٹ سچل ونڈ فارم
سو میگا واٹ پاکستان ونڈ فارم ٹو
یہ ملا کر کل تین سو میگا واٹ ہو جائے گی
ہائیڈل بجلی کے منصوبوں میں آٹھ سو ستر میگاواٹ سکی کناری،سات سو میگا واٹ کاروٹ،چار ہزار ایک سوپچاس داسو، گیارہ سو میگا واٹ کوہالہ پراجیکٹ۔ پانی سے بجلی پیدا کرنے والے ان منصوبوں سے کل چھ ہزار آٹھ سو چالیس میگا واٹ بجلی مل سکے گی۔
اور مائع قدرتی گیس کے تین منصوبے ہیں جن سے چھتیس سو میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔
ان منصوبوں کے علاوہ گرڈ اسٹیشن اور سپلائی کا نظام نصب کیا جائے گا۔سال؛ رواں کے آخر تک ملک میں دس ہزار چالیس میگا واٹ اضافی بجلی پیدا ہونے لگے گی۔
اس طرح پاکستان میں صرف توانائی کے شعبے میں اس قدر سرگرمی دیکھنے میں آئے گی کہ انسانی عقل حیران رہ جائے گی۔ یہ سب کچھ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا جو چین کے تعاون سے میسر آ ئے گا۔
خالد سعید اختر کے مقالے میں یہ وضاحت شامل ہے کہ موجودہ قراقرم ہائی وے کی از سر نو تعمیر اور اسے گوادر سے ملانے کے لئے تین الگ الگ شاہراہوں کی تعمیر کے نظام پر بھی کام جاری ہے۔اسی ضمن میں پاکستان ریلوے کے نظام کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے جو اگلے دو سال میں مکمل ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔اس نظام کی وجہ سے ہم ایک سو ساٹھ میل کی رفتار سے ریل گاڑیاں چلانے کے قابل ہو جائیں گے جو کراچی سے پشاور کو آپس میں ملائیں گی۔ ریلوے کے ا س نظام کو توسیع دے کر چین کے شہر کاشغر سے بھی ملا دیا جائے گا۔
ہمارے ناقص انفراسٹرکچر کی وجہ سے ہمیں سالانہ جی ڈی پی کا ساڑھے تین فیصد نقصان ہو رہا تھا جس کی بچت سے ہماری شرح نمو میں قابل قدر اضافہ ہو گا۔
سی پیک کے تحت ہی کراچی لاہور کے درمیان گیارہ سو کلو میٹر طویل موٹر وے تعمیر کی جائے گی۔
میں پورے مقالے کے مندرجات تو یہاںنقل نہیں کر سکتا مگر خلاصہ یہ ہے کہ سی پیک سے بیس لاکھ سے زائد ملازتیں میسرآئیں گی اور یہ مفروضہ غلط ہے کہ ہر کام کرنے کے لیئے چینیوں کو درا ٓمد کیا جائے گا۔؎
خالد سعید اختر کا کہنا ہے کہ چین کی مدد سے سی پیک اور اس سے متعلقہ منصوبوں کو ا س مارشل پلان سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے یورپ میں شروع کیا تھا۔ایک نکتہ اور بھی ذہن میں رکھیئے کہ چین جو سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے اس کی مالیت اس غیر ملکی سرمایہ کاری کے برابر ہو گی جو انیس سو ستر کے بعد سے اب تک پاکستان میں کی گئی ہے۔ انجینیئرخالد سعید اختر نے اطمیان بھرے لہجے میں کہا کہ یہ گیم چینجر نہیں تو اور کیا ہے۔