خبرنامہ

ڈاکٹرا ٓصف جاہ کی تھر تھراہٹ…..اسداللہ غالب

ڈاکٹرا ٓصف جاہ کی تھر تھراہٹ

میرا ارادہ ان کی لاہور واپسی کا سواگت کرنے کاتھا، ابھی کوئی ڈیڑھ دوماہ پہلے انہیں اسی شہر سے رخصت کیا تھا، ان کی آنکھیں بھی نم تھیں اور میری آنکھیںبھی نم تھیں۔ انہیں یکا یک لاہور سے فیصل ا ٓباد ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ سرکاری ملازمت میں یہ کوئی انہونی نہیں، روز کی واردات ہے۔مگر آصف جاہ کا لاہور سے چلے جانا یوں تھا جیسے کعبے سے طواف کرنے والوں کو نکال باہر کیا جائے۔ فیصل آباد سے جب بھی ان کا کوئی فون آیا تو انکے لہجے میں آزردگی تھی اور وہ اپنی لاہور کی شاموں کو یاد کر رہے تھے جب وہ اپنے ہسپتال میں سینکڑوںمریضوں کو مفت دیکھتے، اور انہیںدوائی بھی دیتے ،پھر عشا کی نماز باجماعت ادا ہوتی اور اس کے بعد ذکرقرآن ، ترجمہ و تفسیر، یہ رو زکامعمول تھا۔ فیصل آباد میں دل لگانے کے لئے انہوںنے جھٹ پٹ ایک ڈسپنسری قائم کی ۔ کم ازکم دن کے وقت توملازمین کو علاج معالجے کی سہولت حاصل ہو گئی۔ پھر شام میں عام مریضوں کو دیکھنے کے لئے انہوںنے ایک اور ڈسپنسری قائم کی۔ کچھ گہما گہمی چل نکلی۔ مگر ایک روز پھر ان کا گھبرایا ہوا فون آیا کہ لاہور واپس بلا لیا گیا ہے، میںنے کہا کہ اور کیا چاہتے تھے آپ کو کوئٹہ یا پشاور بھجوا دیاجاتا ، اپنے گھر واپس آیئے، آپ کی نیک دل بیوی اور فرمانبردا ر بچے آپ کی شفقت سے محروم ہو گئے تھے، سینکڑوںمریض آپ کے کمرے میں آتے تھے مگر وہاں انہیں آپ جیسا کوئی مسیحا نظر نہ آتا تھا جو نبض پر انگلیاں رکھے تو یوں لگے کہ ان کے زخموں پر کسی نے مرہم رکھ دیا ہے۔میرا خیال تھا کہ وہ لاہور آگئے ہیں تو ان کے ساتھ پھر سے محفلیں جمیں گی مگر نجانے کن خیالوں میں کھو گئے۔ دو دن پہلے ان کا اچانک فون آیا۔ میںنے پوچھا کہ آپ ہسپتال میں ہیں تو میں ابھی ا ٓ جاتا ہوں ، کچھ بلڈ پریشر صبح سے تنگ کر رہا ہے، انہوںنے بتایا کہ وہ تو تھر میں ہیں، یا اللہ ! ایسی بے چین اور بے قرار روح۔ گھر آکر بھی ٹکنے کا نام نہیں لیتے۔میں نے اپنے پوتے عبداللہ کو آواز دی کہ آئو میں ڈاکٹر صاحب پر کالم لکھنے بیٹھا ہوں۔ عبداللہ کالموں کی سرخیاں گھڑنے کا ماہر ہے، ایک بار میںنے ڈاکٹر صاحب کے سفر ترکی کے حوالے سے لکھنا شروع کیا، عبداللہ نفس مضمون پڑھتا چلا گیا ، کالم ختم ہوا تو اس نے کہا سرخی لکھو آصف جاہ، یہ جا وہ جا۔ ادھر جا ادھر جا۔ اب جو میںنے اس کوبتایا کہ وہ تھر میں ہیں تو عبداللہ نے بے ساختہ کہا کہ لکھ دو آصف جاہ کی تھر تھراہٹ۔ تو قارئین کرام ، اس سرخی کے لئے میں اپنے پوتے عبداللہ کااحسان مند ہوں۔وہ ابھی جماعت ہشتم کا طالب علم ہے اور کالم نویسی یا تجزیہ کاری کے رموز سے آشنا نہیں مگر جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں تو وہ پوچھتاضرور ہے کہ آج کیا لکھنے کا ارادہ ہے۔ یہ جو میںنے جاوید چوہدری کے بارے میں لکھا تو ا سکی سرخی بھی عبداللہ کی تجویز کردہ تھی ۔ جب اس نے کالم میں چوہدری صاحب کے سفر در سفر کاا حوال پڑھا تو کہنے لگا کہ وہ تو پھر کوئی مارکو پولو ہوں گے۔
ورڈز ورتھ کہتا ہے کہ بچہ، انسان کا باپ ہوتا ہے۔انگلش لٹریچر کی کلاسوںمیں مہا تجربہ کار استاد تھے، پروفیسر صدیق کلیم ، ڈاکٹر امداد حسین، شعیب بن حسن، خالد مسعود صدیقی ،آر اے خان مگر وہ ورڈز ورتھ کے اس فلسفے کی تہہ تک نہ پہنچ سکے، اب عملی زندگی سے وا سطہ پڑا ہے اور میں نے ورڈز ورتھ کی سچائی کا قدم قدم پر مشاہدہ کیا ہے تو خدا جھوٹ نہ بلوائے ، تین بار لیک ڈسٹرکٹ جا چکا ہوں۔ ارد گرد کالی چٹانوں کے پہاڑ ہیں اور یخ بستہ راتوں کووادیوں میں سفید دھند چھا جاتی تو ورڈز ورتھ ، کالرج اور ڈوروتھی ورڈز ورتھ اس کثیف سفید چادر میں نجانے کس تلاش میں نکل کھڑے ہوتے میں اس درویش شاعر کی قبر پر حاضری دینے کے لئے کئی مرتبہ جا چکا ہوں۔
تھر میں بچے مرتے ہیں تو ان کی قبریںنہیں بنتیں، انہیں کوے، چیلیں اور گدھ نوچ کھاتے ہیں۔بچی کھچی ہڈیوں کے ڈھانچوں کی تصویریں عالمی میڈیا میں چھپتی ہیں اور پاکستان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے، یہاں کی کل آبادی پچاس ہزار ہے ، کیا ہم سب مل کر ان کے لئے گھر بھی نہیں بنا سکتے۔ جب سے ہم تھر کو رو رہے ہیں ، تب سے اگر ہم نے تھر کے لوگوں کو آباد کاری کا کوئی منظم منصوبہ بنایا ہو تا تو یہاں کسی ڈیفنس کے ایک فیز کی تعمیر کی ضرورت پڑتی اور تھر کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا، مگر لگتا یہ ہے کہ ہم لوگ مسئلے ختم کرنے کے لئے نہیں، مسئلے بڑھانے،انہیں پیچیدہ بنانے اور ان کو طوالت دینے کی تدبیر کرتے ہیں، اسی سے ہماری سیاست چمکتی ہے، بھٹو نے نعرہ لگایا تھا، روٹی کپڑا اور مکان۔ اس کی حکومت ختم ہوئی۔ دو مرتبہ اس کی بیٹی اقتدار میں آئی اور ایک مرتبہ داماد صاحب تو یہی تین چیزیں عنقا ہو گئیں، گوادر کی زمینیں ہم سونے کے بھائو فروخت کر رہے ہیں اور اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں مگر گوادر کے باشندوں کے حقوق کا ہمیں کوئی خیال نہیں، حامد میر کی درد مندی کے باوجو ہم نے ان لوگوںکے لئے کچھ نہیں کیا ۔ اب ہم تھر کا کوئلہ لوٹ رہے ہیں، تھر کول پاور چل پڑا ہے ، اس سے پید اہونے و الی بجلی ن لیگ کو اگلاالیکشن جتوانے میں مد گار ثابت ہو گی، ہمارے آنگنوں کا اندھیرا دور ہو جائے گا ، سیٹھوں کی فیکٹریوں کو جو بجلی ملے گی، ان کی پیداوار بڑھے گی، برا ٓمدات سے وہ نہا ل ہو جائیں گے مگر تھر جہاں سے ہم کوئلہ لا رہے ہیں، اس خطے کی قسمت میںسدا سے بھوک ،پیا س اور موت لکھی ہے۔ اس کی ریت وہی ریت ہے، اسے صوبے کے ذرات میں نہیں بدلا جاسکامگر تھر کا درماں کرنے کے لئے ڈاکٹرا ٓصف جاہ نجانے کتنی بار اس صحرا کا رخ کر چکا ہے، اس کی عمرا للہ دراز کرے اوروہ تھر جاتا رہے، جاتا رہے ، حتی کی تھر والوں کو پانی بھی ملے ۔ ان کو دوا دارو بھی ملے ، وہ بھوک ، پیاس اور موت کو بھول جائیں مگر یہ کام اکیلا ڈاکٹرآصف جاہ تو نہیں کر سکتا۔اس کا ہاتھ بٹانے والے مخیر حضرات ضرور موجود ہیں مگر ان کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ دریائے نیل کے کنارے پیاس سے مر جانے والے کتے کے بارے میں رو زقیامت ان سے سوال ہو گا ، آج کوئی حضرت عمر ؓ تو ہمارے درمیان نہیں مگرجو صاحب حیثیت اور صاحب اختیارہیں، ان کی آنکھوں کے سامنے تھر میںموت کا رقص جاری رہا تو روز قیامت یہ صاحب حیثیت اور صاحب حکومت اللہ کی پکڑ میں آئیں گے۔انہں بھی حضرت عمر ؓ کی طرح حساب دینا ہو گا کہ وسائل اور اختیار ہوتے ہوئے آپ کی آنکھوں کے سامنے تھر کے بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان کی مائیں پانی ڈھو ڈھو کر ہلکان ہو گئیں اور ان کی ریڑھ کی ہڈیاں مڑ تڑ گئیں تو آپ لوگوں نے اپنا کردار ادا کیوںنہیں کیا۔اے لوگو! ذرا سوچو! کہ یہ تھر کے بچے آپ کی اولاد ہوتے، یہ تھر کی ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی خواتین آپ کی بہنیں بیٹیا ںہوتیں تو کیا پھر بھی آپ کی بے حسی کا یہی حال ہوتا۔
ڈاکٹرا ٓصف جاہ کسٹم میں اعلی گریڈ کا فسر ہے، اس محکمے کا تو چپراسی عیش کی زندگی گزارتا ہے مگر آصف جاہ کی روح تڑپتی ہے ، وہ بے کل رہتا ہے،اور جب تک حاجت مند کے دروازے پر ضرورت کا سامان پہنچا نہیں لیتا، اسے چین نہیں آتا۔
اب وہ تھر سے آئے گا تو ترکی چلا جائے گا،جہاں شامی مہاجرین کا بسیرا ہے، وہ پہلے بھی ان کے لئے امدادی سامان لے کر جا چکا ہے، اس کے مشاہدات پر مبنی کتاب حسن صہیب مراد کا علم دوست ادارہ شائع کر رہا ہے، یہ بھی نیکی میں حصہ ڈالنے والی بات ہے،آصف جاہ کو روہنگیا کے مظلوموں کی بھی فکر لاحق ہے جو بنگلہ دیش کے سندر بن کے جنگلوں میں بھٹک رہے ہیں،آصف جاہ صرف ایک فرد ہے مگر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کی مثال بنا ہوا ہے۔