خبرنامہ

ڈاکٹر آصف جاہ چین جا پہنچے ۔۔۔۔اسداللہ غالب۔۔انداز جہاں

بسم اللہ
چین میں تو ہر کوئی جا رہا ہے، مگر ڈاکٹرآصف جاہ کا چین جانا ایک خبر بن گیا۔
میں چنددوستوں کو گھر مدعو کرنا چاہتا تھا، ٖاکٹرجاہ کے نمبر پر فون کیا تو جواب نداراد، ان کے ایک محلے دار اور نوائے وقت کے پرانے کارکن ڈاکٹر شفیق کھوکھر سے معلوم کیا کہ ڈاکٹر صاحب فون کیوں نہیں اٹھا رہے، کہنے لگے وہ تو بیرون ملک دورے پر ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سفر پر ضرور نکلتے ہیں مگر ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں جو کسی قدرتی آفت کا شکار ہوئے ہوں، سوات کا زلزلہ، پنجاب میں سیلاب، تھر میں بچوں کی اموات، آواران کا زلزلہ، شمالی وزیرستان کے مہاجر، گلگت بلتستان میں طوفانی بارشوں سے تباہی ، عطا آباد جھیل کا سانحہ۔
یہ عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر آصف جاہ کی صلاحیتیں کسی قدرتی آفت کی وجہ سے نکھر کر سامنے آتی ہیں اور وہ خدمت انسانیت کی جولانی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مگر چین میں ان دنوں کو ئی آفت نہیں آئی توو ہ وہاں کیسے جا پہنچے، یہ راز تب کھلا جب وہ چین سے واپس آئے، انہوں نے بتایا کہ وہ تو ایک کثیر ملکی وفد کا حصہ تھے جسے چینی حکومت نے مدعو کیا تھاا ور ہمیں ان کے ٹیکس نظام سے آشنائی کاموقع ملا۔ تو گویا یہ اس طرح کا دورہ تھا جیسے ہم لوگ امریکی حکومت کے خرچے پر کبھی کبھار امریکہ کے سٹڈی ٹور پر جاتے ہیں، چین اپنے آپ کو پردہ اخفا سے باہر نکال رہا ہے، برسوں تک چین ایک بند معاشرہ تھا جس کے اندر کوئی تانک جھانک نہیں کر سکتا تھامگر اب چین دنیا کے کونے کونے میں ہے اور دنیا کے کونے کونے کے لوگوں کا خیر مقدم بھی کرتا ہے۔
چین میں نواز شریف ا ور شہباز شریف کئی مرتبہ گئے اور زرداری صاحب نے بھی چین کے ان گنت دورے کئے، ان دوروں کا حاصل سی پیک کی صورت میں سامنے آیا اور ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے دورے کا حاصل ایک سفرنامے کی شکل میں زیر ترتیب ہے۔اس کی ایک ڈمی کی زیارت بھی نصیب ہوئی، عنقریب کتاب، مارکیٹ میں آ جائے گی،
ڈاکٹر آصف جاہ سفر نامے لکھنے میں مہارت تامہ حاصل کر چکے ہیں، اب تک بیسیوں سفرنامے شائع ہو چکے ا ور قارئین سے داد وصول کر چکے مگر ایک سفرنامہ جو انہوں نے حج کے دوران لکھا، وہ سب پر بازی لے گیا،حج کا سفرنامہ انہوں نے مقاما ت مقدسہ کے سائے میں لکھا، خانہ کعبہ کی چوکھٹ کو چھوتے ہوئے بھی وہ اس کی تحریر میں مگن رہے اور گنبد خضری پر سلام بھیجنے کے بعد بھی کاغذ قلم پکڑ کر بیٹھ جاتے، یہی وہ لمحات تھے جب ان پر اللہ، کعبہ اور بندہ جیسا تابناک اور پاکیزہ سفرنامہ ازل ہوا۔اردو ایڈیشن کے بعد اب اس کا انگریزی ایڈیشن بھی شائع ہو چکا ہے ۔میں اس کے صفحات الٹ پلٹ کر کے دیکھ سکتا ہوں مگر پڑھ نہیں سکتا، دیکھئے ، اللہ اسے پڑھنے کی کب توفیق عطا کرتا ہے۔اس کے لئے دعا اور دوا کا طلب گار ہوں۔
ڈاکٹرآصف جا ہ نے جس چین کا نظارہ کیا، یہ اس سے قطعی مختلف ہے، جو ابن انشا نے دیکھااور جس کے بارے میں ایک سفرنامہ لکھ کر دعوت دی کہ چلتے ہو تو چین کو چلئے۔ چین کاایک سفرنامہ میرے استاد ارشاد احمد حقانی نے لکھاا ور اب تو ہر کوئی چین جاتا ہے ا ور سفرنامہ لکھ ڈالتا ہے، نہیں لکھا تو شعیب بن عزیز نے نہیں لکھا بلکہ ا س پر ایک شعر تک نہیں لکھا حالانکہ وہ ترکی گئے تو یہ شعر ان پہ نازل ہوا:
ابو ایوب استنبول میں ،لاہور میں داتا
مجھے مولی نے ہر جا اپنی نگرانی میں رکھا ہے
آصف جاہ نے سفرنامے میں کیا لکھا ہے، یہ تو کتاب شائع ہونے پر حقیقت کھلے گی، وہ مارکو پولو سے کچھ قدم آگے نکلتے ہیں یاابن انشا کے قدم بہ قدم رہتے ہیں، سب کچھ سفرنامہ پڑھنے پر آشکارا ہو گا مگر انہوں نے کچھ باتیں زبان سے بیان کی ہیں ، یہ کہ چین ایک ترقی پذیر ملک ہے، خود چین یہی سمجھتا ہے کہ وہ ترقی یافتہ ملک نہیں، صفائی پر دل عش عش کر اٹھتا ہے، کسی چینی کے چہرے کوپڑھنا ممکن، ا سکی عمر کا اندازہ لگاناتو ہر گز ممکن نہیں، آپ جسے بچہ سمجھتے ہیں ،ہو سکتا ہے وہ ادھیڑ عمر کا ہو مگر چہرہ مہرہ پھول کی طرح کھلا ہوا، ہونٹوں پر مسکان اور عاجزی کے پیکر۔کسی دکان سے کچھ خریدیں، پسند نہیں آئی تو واپس جائیں اورواپس کر آئیں، دکاندار آپ سے کچھ سوال جواب نہں کرے گا کہ کیوں واپس کرتے ہو بھئی، نہ پیکنگ کھول کر دیکھے گا کہ خریدی ہوئی چیز کس حالت میں ہے۔چین لے لوگ پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں، سی پیک اور سلک روٹ کے چالو ہونے پر وہ پھولے نہیں سماتے، پاکستان کو بہترین دوست سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ دوستی نبھانے کے عہد پر کاربند ہیں۔کوئی چینی فارغ بیٹھا نظر نہیں آتا، کام ، کام اور کام جیسے انہوں نے کہیں سے قائد اعظم کا یہ قول سن لیا ہو اور اسی پر کاربند ہوگئے ہیں، بچے، جوان بوڑھے، اور عورتیں، سبھی کام میں مصروف رہتے ہیں۔وہ چینی جو افیمی کہلاتے تھے، عنقا ہو گئے ، اب چینیوں سے زیادہ کوئی قوم چوکس نہیں۔ مگر ان کی مصنوعات کی بات کریں تو انسان متفکر ہو جاتا ہے، چینی ایک نمبر یا دو نمبر مال بنانے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ویسے وہ دھوکہ نہیں کرتے کہ دو نمبر کو ایک نمبرکہہ کر آپ کے سر مڑھ دیں۔انڈر انوائسنگ اور اوور انواسنگ کو وہاں برائی تصور نہیں کیا جاتا ، یہ تجارتی اخلاقیات کا حصہ ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ باتیں سن کر مجھے چین کوئی زیادہ اچھا نہیں لگا۔ ہم اس کے تنڈر طیارے اور الخالد ٹینک استعمال کرتے ہیں، شاید ہماری فوج ان سے مطمئن ہو، مگر میری تو تسلی نہیں ہے، میں کھری بات کروں گا، میں نے ڈاکٹر صاحب کو ایک مشینری کا کتابچہ دکھایا ، یہ مشین کیلی فورنیا کی بنی ہوئی ہے، مجھے ڈاکٹر صاحب نے جھٹ سے مشورہ دے ڈلا کہ اس کا چینی ماڈل منگوا لیتے ہیں ،مگر میں نے ارادہ بدل لیا ہے، منگواؤں گا تگو کیلی فورنیا ہی سے، کم از کم ایک نمبر تو ہو گی، خواہ قیمت کچھ زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ یورپ میں آپ کو دو نمبر شے نہیں ملتی، ہر چیز کی گارنٹی اورو ارنٹی ہے، میں نے گزشتہ دنوں مال روڈ سے ایک گھڑی خریدی، اس کی دو سال کی عالمی سطح کی وارنٹی بھی ساتھ ملی، کسی زمانے میں ایک پین خریدا کرتا تھا تو ا سکی لائف ٹائم اور عالمی سطح کی وارنٹی تھی، میں نے اس وارنٹی میں اسے کئی بار مفت میں ٹھیک کروایا۔چینوں کی چیز خراب ہو جائے تو اسے بھاڑ میں ہی جھونکا جا سکتا ہے۔
آپ میری رائے پر مت جایئے، چینی مصنوعات،امریکہ اور یورپ کی منڈیوں پر حاوی ہو گئی ہیں، امریکی اور یورپی صنعتکار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور چین تیزی کے ساتھ ان کی مارکیٹیں قبضہ کئے چلے جا رہا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ گوجرانوالہ کے ایک صنعتکار نے مجھ سے روتے ہوئے کہا تھا کہ چین کہتا ہے کہ ا پنے کارخانے کو تالے لگا دو اور یہ تالے بھی چینی ساختہ ہوں۔تو مطلب یہ ہوا کہ چین ہمیں صارف کے درجے پر لے آئے گا، کر لو جی اور سی پیک۔
ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنے پیشے کی آنکھ سے چینیوں کو دیکھا اور پرکھا، انہیں ہر طرف صحت مند چہرے نظر آئے، خوش باش اور خوش حال، ٖغربت وہاں ہے مگر چین نے اسے پردے میں چھپا رکھا ہے۔
چینی مسلمانوں کی مساجدا ور ان کے گھروں میں بھی ڈاکٹر صاحب کو جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ لوگ بے حد مطمئن زندگی گزار رہے ہیں مگر چین نہیں چاہتا کہ اس کے ہاں اسلامی مبلغ آئیں، اورمچی دھماکوں کے بعد سے چین کی حساسیت بڑھ گئی ہے، اس موقع پر چین کے صدر نے کہا تھا کہ خنجراب کی بلندیوں پر کانکریٹ اور سیمنٹ کی ایک دیوار آسمان تک چن دی جائے تاکہ دہشت گردوں کی در اندازی کا امکان ختم ہو جائے۔اسی اورمچی دھماکے کے نتیجے میں پاک فوج نے ضرب عضب کا آپریشن شروع کیا تھا۔
بھائی یہ کیا، امریکہ بھی ہم سے نالاں اور چین بھی ہمیں شک کی نظر سے دیکھتا ہے ا ور ہم نے اسے مطمئن کرنے لے لئے پاک فوج ک دو خصوصی ڈویژن کھڑے کرنے کی حامی بھری ہے، یعنی تجارت چین کرے گاا ور باڈی گارڈ ہم ہوں گے، میرے ان شکوک و شبھات کا جواب شاید ڈاکٹرآصف جاہ کی کتاب میں موجود ہو۔، اس کی اشاعت کاانتظار کرتے ہیں۔