خبرنامہ

ڈاکٹر آصف جاہ کے لئے ا لوداعیہ بھی اور استقبالیہ بھی…..اسداککہ غالب

ڈاکٹر آصف جاہ کے لئے ا لوداعیہ بھی اور استقبالیہ بھی…..اسداککہ غالب

میں فیصل آباد کے اعزاز کی بات کرنا چاہتاہوں۔یہ شہر اعزازات کی دوڑ میں ہمیشہ پیش پیش رہا، اس لئے کہ اس کے مخیر شہریوں پر اللہ کی بے پایاں رحمت اور اسکے فضل کا سایہ ہے۔

ڈاکٹر آصف جاہ نے اپنے کیریئر کا آغاز اسی شہر سے کیا۔ اب بیس سال بعد وہ پھراس شہر میں پوسٹ ہو گئے ہیں ، اب وہ بہت اعلی افسر ہیں ۔یہ عزت انہیں خدا نے دی ہے اور یہ ان نیکیوں کا صلہ ہے جو آصف جاہ نے اللہ کے بندوں کے ساتھ روا رکھیں۔
پانچ اکتوبر دو ہزار پانچ کو بالا کوٹ، آزاد کشمیر اور شمالی علاقوںمیں تباہ کن زلزلہ آیا۔ پانچ روز بعد ڈاکٹر آصف جاہ بالا کوٹ کے ملبے کے سامنے کھڑا بلک رہا تھا اس لئے کہ یہ تاریخی شہر پورے کا پورا ایک قبرستان میں تبدیل ہو گیا تھا۔ عمارتیںملبے کا ڈھیر بن گئیں اور ان کے مکین ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔پاکستان کو اس تباہی کا علم ہونے میں چار دن لگ گئے۔ یہ ہمارے نظام اطلاعات کی ناقص کارکردگی اور قومی بد قسمتی کا کھلا ثبوت تھایہ ناکامی ایک قومی المئے سے کم نہ تھی۔
آصف جاہ ایک ملبے کے ڈھیر کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر ایک ادھیڑ عمر کا شخص اس کی طرف بڑھا۔ وہ کئی روز سے بھوکا تھا اور نقاہت سے اس کے ہونٹ لرز رہے تھے۔ اس نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بتایا کہ چھت کے نیچے اس کے گھر کے سات افراد بے گورو کفن دفن ہیں ۔ آصف جاہ کی تو جیسے چیخ ہی نکل گئی۔ اس نے فیصل آباد میں مخیر حضرات کوفون کیا کہ بالاکوٹ میں جتنا لٹھا بھجوا سکتے ہو، بھجوا دو اور جلد بھجوا دو تاکہ لاشوں کو کفن تو نصیب ہو سکے ۔، اگلی ہی صبح فیصل آباد سے ٹرکوں کے ٹرک بالاکوٹ پہنچ گئے، یہ سفید لٹھے سے لبا لب بھرے ہوئے تھے۔ڈاکٹرا ٓصف جاہ کی ٹیم نے لٹھے سے کفن تیار کئے اور ملبے کے ڈھیر سے لاشوں کوجیسے تیسے باہر کھینچا، انہیں غسل دیاا ور گڑھا نماقبروںمیں دفن کرنا شروع کر دیا۔
فیصل آباد کو اس نیکی پر سلام ا ور آصف جاہ کی کوششوں کو بھی سلام۔
یہی فیصل آباد کا شہر ہے اور یہی آصف جاہ ہیں جو پھر یک جا ہو گئے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ وہ یک جان ہو گئے ہیں۔
آصف جاہ دکھی انسانیت پر تڑپ تڑپ جاتے ہیں اور میں ان کی تڑپ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ میں وہ نیکیاں تو نہیں کر سکتا جو آصف جاہ کے نصیب میں قدرت نے لکھ دی ہیں کہ میری اپیل پر شاید کوئی ایک دھیلا بھی جیب سے نہ نکالے مگر آصف جاہ کی نیکیوں کا اس طرح حصے دار تو بن سکتا ہوں کہ جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے، ان کی توجہ انسانی المیوں کی طرف مبذول کرواﺅں۔ میرے قلم کی یہی بساط ہے۔
آصف جاہ آواران گئے جہاں کسی پاکستانی کا قدم رکھنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے مگر انہوںنے وہاں کے زخمیوں کا علاج کیا، انہیں کھانے پینے کی چیزیں دیں اور ان کے اسکولوں کو کھول کر تعلیم کانئے سرے سے ا ٓغاز کیا، یہ اسکول برسہا برس سے بند پڑے تھے۔
آصف جاہ تھر گئے تو میرا قلم ان کے قدم بقدم ان کے ساتھ رہا۔ انہوںنے وہاں کنویں کھودے، بلا تمیز مذہب اور رنگ و نسل امدادی سامان تقسیم کیا۔ پانی ڈھونے کے لئے جدید مشینیں عطیہ کیں۔ڈسپنسریاں بنائیں اور یہاں مستقل ڈاکٹر تعینات کئے۔ مقامی آبادی کو احساس ہوا کہ ان کے پاس ایک مسیحا ا ٓن پہنچا ہے جو ان کے دکھوں کا درماں کر رہا ہے، ہندو عورتوں کو ان کی پسند کے روایتی پہناوے پیش کئے۔آصف جاہ کہتے ہیں تھر وہ نہیں جہاں سڑکیں جاتی ہیں ، تھر ان سڑکوں سے ا ٓگے ہے جہاںمیل ہا میل تک ریگستان ہے اور پیدل چلنا پڑتا ہے۔ آصف جاہ نے ان دوریوںکو قربتوںمیں تبدیل کیا۔
آصف جاہ نے سنا کہ شام کے مہاجرین پچاس لاکھ کی تعداد میں ترکی کی سرحد پر خیموں میں پڑے ہیں۔ وہ بے چین ہو گے اور ترکی جا پہنچے، کروڑوں کا امدادی سامان ان کے ساتھ تھا۔ وہ پہلے پاکستانی تھے جو سامان کے ساتھ وہاں پہنچے تھے۔ آصف جاہ کہتے ہیں کہ ترک حکومت نے ان مہاجرین کے لئے بہت کچھ کیا ہے مگر سب کچھ کرنا اس کے بس میں نہیں ۔ وہاں قطری حکومت بھی سرگرم عمل ہے اور آصف جاہ ان سے پیچھے نہیں رہے۔
اب روہنگیا پر آفت آئی ہے ، بنگلہ دیش پاکستانیوں کو ویزہ تک دینے کے لئے تیار نہیں مگر آصف جاہ نے کچھ پرانے شناساﺅں کو وہاں کیمپ لگانے پر آمادہ کیاا ور جیسے تیسے وہاں پیسہ پہنچا یاجس سے امدادی سامان مقامی مارکیٹ سے خریدا گیا۔ روہنگیا مسلمانوںکے ساتھ مظالم کا سلسلہ نیا نہیں ۔ برمی حکومت انہیں ستر برسوں سے انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ا ٓنگ سو چی کو امن کا نوبل انعام مل چکا ہے مگر اس نام نہاد جمہوریت پسند حکمران کا دور روہنگیا کے لئے دور ستم بن چکا ہے۔مگر آصف جاہ ہار ماننے والے نہیں ۔ وہ بھی ستم زدگان کے آنسو پونچھنے میں پیش پیش ہیں۔
آصف جاہ نے یہ ساری باتیں ایک الوداعی تقریب میں مختصر طور پردہرائیں ۔ ان کے دوست ان کے لاہورچھوڑنے پر غم زدہ تھے۔ آصف جاہ نیکیاں کرتے تھے اور ہم لوگ ان کی نیکیوں پر انہیں شاباش دیتے تھے، اس سے آصف جاہ کا حوصلہ بڑھتا تھا اور وہ مزید سرگرم عمل ہو جاتے تھے۔ مگر اب وہ فیصل آباد چلے گئے ہیں ۔ ہمیں محسوس ہوا کہ ہمارا ور ان کا ساتھ چھوٹ گیا، اب ان کی زبان سے ان کی نیکیوں اور خلق خدا کے مصائب کو کم کرنے کا میٹھاتذکر سننے کو نہیں ملے گا مگر آصف جاہ نے حوصلہ دیا کہ وہ صرف دو گھنٹے کی مسافت پر ہیں اور دفتری امور کے لئے ہفتے میں ایک دو روز تو ضرور لاہور آتے جاتے رہیں گے۔ آصف جاہ نے بتا یاکہ انہوں نے فیصل آباد پہنچنے کے بعد جو پہلا کام کیا وہ کسٹم ہاﺅس میں ایک ڈسپنسری کے قیام کا ہے۔ اس سے دن کے وقت دفتری عملے کو طبی سہولت مل جائے گی اور شام کو وہ خود اس ڈسپنسری میں عام مریضوں کو دیکھیں گے۔ یوں انسانی خدمت کا دائرہ وسیع ہو جائے گا۔ایک حوصلہ افزاءبات انہوںنے یہ بتائی کہ ان کا محکمہ ان کے اس نیک کام میں قطعی رکاوٹ نہیں ، کوئی ان کی ٹانگ کھینچنے والا نہیں ، ان کے اعلی افسران بخوشی ان کے کاموںمیں ہاتھ بٹاتے ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ انسانی خدمات کے شعبے میں گزشتہ برس انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔
میںنے آصف جاہ کے مستقبل کے ارادوںسے آگاہی حاصل کرنے کے بعد کہا کہ اب ہم اس تقریب کوا لوداعی تقریب نہیں کہتے، اسے ان کے لئے استقبالئے میں بدل رہے ہیں ،اس لئے کہ ہمیں ان کے نیک کاموں کا حصہ بننے اور ان کے ایمان افروز تذکرے قارئین تک پہنچانے کا موقع ملتا رہے گا۔ ویسے ہمارے ایک ساتھی تنویر نذیر جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے، وہ ان کے لئے چناب کلب میںباقاعدہ ایک استقبالئے کاا ہتمام بھی کریں گے۔
ڈاکٹر صاحب سے میں نے کہا کہ رفتید ولے نہ از دلے ما۔ آپ فیصل آباد توچلے گئے مگر ہمارے دلوں سے نہیں جا سکے۔ میںنے اپنا قلم آصف جاہ کی نیکیوں کو آگے بڑھانے کے لے وقف کر رکھا ہے ، مگر ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ میں یہ سلسلہ اپنی بصارت کی کمزوری کی وجہ سے زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رکھ سکوں گا۔مگر میری دعائیں ان کے شامل حال ضرور رہیں گی ۔
میں بہر حال پر امید ہوں اور دعا گو بھی کہ فیصل آباد ایک بار پھر ان کی آواز پر اسی طرح لبیک کہے گا جیسے بالا کوٹ کے لئے ان کی اپیل پر بڑھ چڑھ کر رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ لاہور میں ان کے دست راست اعجاز سکا صاحب تھے اور فیصل آباد میں میں بابائے امن ملک غلام ربانی سے گلاسگو فون کر کے کہوں گا کہ وہ اپنے عزیز حاجی بشیر کو سرگرم عمل ہونے کی درخواست کریں ، فیصل آباد کے گھر گھر میں حاجی بشیر آباد ہیں ، ان کے ہاتھ بھی کھلے ہیں اور دل بھی کھلے، خدا کرے کہ آصف جاہ نیکیوں کا ریکارڈ بنائیں اور ان کے ہاتھوں ہر دکھی انسان کو سکون نصیب ہو۔میں ان کے کارنامے دیکھ یا پڑھ تو نہیں سکوں گا مگر سن تو سکوں گا۔ یہی میری روح کی طمانیت کے لئے کافی ہو گا۔