خبرنامہ

ڈرون ٹھس ہوگیا

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ڈرون ٹھس ہوگیا

لو جی! ڈرون کی بعث ختم سمجھو۔ حکومت پاکستان نے پارلیمنٹ میں ڈرون کا نشانہ بننے والے افراد کی جو فہرست پیش کی ہے، اس کے بعد اعتزاز احسن نے ہنسی خوشی کہا کہ ایسے ڈرون حملے ہوتے رہیں، ان پر اعتراض کیسا۔مگر پہلے تو آپ کو یہ پتا ہونا چاہئے کہ اوبامہ نے نواز شریف اور ملالہ کی طرف سے ڈرون حملے ختم کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے گزشتہ روز ایک ڈرون حملہ اور کر دیا جس میں تین افرادنشانہ بنے۔ ملالہ اور نواز شریف نے جو درخواست نہیں کی تھی، وہ اوبامہ نے قبول کر لی، پاکستان کے لیے رکی ہوئی امریکی امداد بحال کر دی گئی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ملالہ اور نواز شریف دونوں کے امریکی دورے بے حد کامیاب ہوئے۔ یا یہ کہ بے حد نا کام ہوئے۔
اور یہ بھی آپ نے پڑھ اور سن لیا ہو گا کہ حکومت پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان پر پانچ برسوں میں تین سو اٹھارہ ڈرون حملے ہوئے، ان میں کل 1991 دہشت گرد اور 67 عام شہریوں کی جان گئی۔ تعداد کے بارے میں آپ کنفیوژن کا شکار ہوں گے، میں بھی ہوں لیکن نتیجہ ایک ہے کہ یہ جو ہم نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا کہ امریکہ ڈرون حملوں کے ذریعے بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ اس پروپیگنڈے کے غبارے سے حکومتی اعدادو شمار نے ہوا نکال دی ہے۔ اگر حکومت یہی مقصد حاصل کرنا چاہتی تھی تو وہ ہو گیا لیکن معاملہ اتنا آسان بھی نہیں۔
حکومت پاکستان کے پاس اعدادوشمار کہاں سے آگئے، کیا سی آئی اے نے فراہم کئے۔ اسی نے دیئے ہوں گے کیونکہ ڈرون کی نکیل اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی منتخب کانگرس کو بھی جواب دہ نہیں تو پاکستان کو یہ اعدادوشمارکہاں سے مل گئے، کیسے مل گئے۔ آئیے ذرا حساب لگاتے ہیں۔
ڈرون طیار ہ سی آئی اے کے کنٹرول میں ہوتا ہے، یہی ادارہ فیصلہ کرتا ہے کہ کہاں ٹارگٹ کرنا ہے اورکس کو کرنا ہے، اس ادارے کے پاس تمام زمینی معلومات موجود ہوتی ہیں، ڈرون طیارہ میزائل داغنے سے پہلے موقع کی تصویریں لیتا ہے اور تباہی کے بعد کے مناظر بھی ریکارڈ کرتا ہے، اس کے پاس زندہ انسانوں اور انسانی لاشوں کے انجر پنجر کا حساب ہوتا ہے۔ مگر یہ ادارہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں، نہ کسی کو اعدادوشمارفراہم کرتا ہے، امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کو بھی نہیں۔
اب اگر سی آئی اے نے حکومت پاکستان کو یہ اعدادوشمار دے دیئے ہیں تو کس لیئے تا کہ ڈرون کی بعث ٹھس ہو جائے۔ ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے دو ہزار افراد کے بدلے میں پاکستان کے پچاس ہزار افرادکو شہید کیا گیا، ان میں سے صرف پانچ ہزار وہ لوگ تھے جن کا تعلق مسلح افواج یا سکیوریٹی اداروں سے تھا، ان کا جرم یہ ہو سکتا ہے کہ وہ امریکی افواج کے حلیف تھے لیکن پینتالیس ہزار افراد عام پاکستانی شہری تھے جنہیں گھروں، دفتروں، سڑکوں، اسکولوں مسجدوں، مدرسوں بازاروں، جنازوں، مارکیٹوں، جلسے، جلوسوں، چرچوں میں نشانہ بنایا گیا۔ ان کا جرم بھی یہی تھا کہ وہ ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں جو امریکہ کا حلیف ہے۔ علاقے میں بھارت اور ایران نے پاکستان کی طرح امریکہ کا سرگرم ساتھ نہیں دیا، اس لیئے یہ دونوں ملک اور ان کے شہری مکمل امن میں رہے۔ اس حساب کتاب کا نتیجہ نکلا کہ اگر پاکستانیوں نے بھی امن کی زندگی گزارنی ہے تو امریکی حمایت ترک کر دیں۔ اس حمایت کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب صدر بش نے ایک لکیر کھینچ دی تھی اور خبر دار کیا تھا کہ جو لکیر کے دوسری طرف ہے۔ وہ امریکہ کا دشمن ہے۔ پاکستان لکیر کے اس جانب لپکا جہاں امریکی حلیف کھڑے تھے اور ان میں ساری دنیا شامل تھی، سوائے دو چار ملکوں کے اور امریکہ نے باری باری ان کا فالودہ بنادیا۔ اور فالودہ ہمارا بھی بن گیا۔
یہ سوال اہم نہیں کہ ڈرون حملوں میں کتنے مارے گئے اور وہ کون تھے، اگر دہشت گرد تھے تو ہمیں ان سے کیا واسطہ، پاکستانی تو بہت تھوڑے تھے، آٹے میں نمک کے برابر اصل سوال یہ ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سلامتی، آزادی اور اس کے اقتدار اعلی کو اس طرح پامال کر رہے تھے جس طرح ایبٹ آباد اور سلالہ میں امریکی فوجوں نے ہماری سلامتی کی دھجیاں بکھیر دیں۔ حملہ ایک ہو یا سینکڑوں یا ہزاروں۔ حملہ تو حملہ ہوتا ہے۔ پہلا ڈرون حملہ ہی عزت، غیرت اور حمیت والے کے لیئے کافی ہونا چاہیے تھا، جب ہم نے پہلا حملہ پی لیا تو پھر ہم باقی سینکڑوں حملوں کا کیا بگاڑ سکتے تھے، ایک ایبٹ آباد ہوا، اس کے بعد سلالہ بھی ہوا، ہم با غیرت بنتے ہیں، مگر اس مٹی کے نہیں بنے ہوئے جس سے سلطان میسور کا جسم گندھا ہوا تھا اور جس نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے اور وہ اس اصول پرقربان ہو گیا، وہ ابد تک زندہ رہے گا اور اس کے سینے میں تلوار گھونپنے والا کسی بے نام ونشان قبر کی مٹی میں مٹی ہو چکا ہو گا۔ ہم اس مٹی کے بھی نہیں بنے ہوئے جس سے طارق بن زیاد کا خمیر گوندھا گیا۔ اس نے سمند پار کرنے کے بعد کشتیاں جلا دیں تھیں۔ واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ رہا اوراسپین میں پانچ سو سال تک مسلمانوں کی حکومت کی بنیاد رکھ دی گئی۔ یورپ کونئی روشنی نصیب ہوئی۔ وکیل بتاتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی ایک قرارداد ہے بلکہ کئی ہیں کہ کوئی ملک دہشت گردوں کو پناہ گاہیں مہیا نہیں کرے گا۔ اس قرارداد کا یہ مطلب کہاں سے آ گیا کہ اگر کسی ملک میں مبینہ طور پر دہشت گرد ہوں گے تو امریکہ ان کو نشانہ بناسکتا ہے۔ کارروائی کرنی ہے تو اقوام متحدہ کرے۔ امریکہ کیوں کرے۔ اور اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیر پر بھی کئی ہیں، ان پر نہ اقوام متحدہ عمل کرواتا ہے، نہ امریکہ، نہ بر طانیہ جس نے یہ مسئلہ پیدا کیا۔ نواز شریف نے برطانوی وزیراعظم سے پوچھا تک نہیں کہ سرکار! یہ جو فساد چھوڑ آئے، اس کو ختم کون کرے گا۔
کیانئے اعدادوشمار دیکھنے کے بعد عمران خاں کا جوش وجذبہ ٹھنڈا پڑ جائے گا، کیا اب وہ ڈرون حملوں کے حق میں مظاہرے کرنے لگیں گے۔ اور کیا حکومت یہ سمجھتی ہے کہ سرکاری اعداد وشمار کی بازی گری سے قوم کو بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔ اور وزیر اعظم اب سکون سے میٹرو بس، انڈر گراؤنڈ ریلوے موٹر ویز اور چین پاکستان طویل ترین تجارتی کوریڈور جیسے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پراپنی صلاحیتیں صرف کرنے لگیں گے۔ کیا انہیں پی آئی اے، اسٹیل مل اور درجنوں سرکاری اداروں کو نیلام کرنے کی چھوٹ مل گئی ہے۔ ہو سکتا ہے ان کا خیال درست ہو مگر ملک کی سلامتی اور بقا کے ساتھ ہی سبھی کچھ وابستہ ہے۔ ڈرون حملے ملک کی سلامتی اور آزادی کو تار تار کر رہے ہیں، ان میں دہشت گر د مریں یاعام شہری، یہ حملے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کے منافی ہیں۔ چھ ستمبر65 کی بھارتی جارحیت کی طرح۔ جب ایوب خاں نے کہا تھا کہ لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پرٹوٹ پڑو۔ (3 نومبر 2013ء)