خبرنامہ

ڈھاکہ میں پھانسی کا پیغام

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

ڈھاکہ میں پھانسی کا پیغام

بنگلہ دیش میں پھانسی کا جو پیغام میری سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ جو پاک فوج کا ساتھ دے گا، اس کا | انجام کیا ہوگا۔
یہی پیغام دہشت گردی ایک عرصے سے پاکستان میں دے رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں پاک فوج کا ساتھ دینے والوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں، انہیں بموں سے اڑایا جاتا ہے۔ سوات کی خون آشام فلمیں تو یوٹیوب پر بھی دکھائی گئیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ نہ ماضی میں زرداری حکومت نے ایسے عناصر کی کھل کر مذمت کی، نہ موجودہ شریف حکومت نے دہشت گردوں کی مذمت میں زبان کھولی ہے بلکہ الٹا ان سے کھلی ہمدردی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ن لیگ ہو یاتحریک انصاف، جماعت اسلامی ہو یا جے یو آئی کا کوئی گروپ ہرکوئی ڈرون حملوں کی تو مذمت کرتا ہے مگریہ خودکش دھماکوں کی مذمت نہیں کرتے، پاکستانی فوجیوں اور ان کے حامیوں کے گلے کاٹنے کی مذمت نہیں کرتے۔ منور حسن نے فتوی دیا کہ امریکہ کا ساتھ دینے والے پاک فوج کے لوگ شہید نہیں ہوتے، اس پر فوج نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور جماعت اسلامی سے معافی کا مطالبہ کیا مگر جماعت نے معافی نہیں مانگی، الٹافواج پر سیاست بازی کا الزام دھرا اور وزیراعظم کو اس کی تحریری شکایت کر دی، تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ جماعت اسلامی مستقبل میں پھانسیوں سے بچنا چاہتی ہے۔ بنگلہ دیش کی غلطیوں کو تو واپس نہیں لیا جا سکتا لیکن لگتا ہے پاکستان میں مزید ایسی غلطیاں دہرانے کیلیے جماعت اسلائی تیار نہیں۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ سمجھتی ہے کہ پاک فوج یا ریاست پاکستان، وقت آنے پر اس کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے گی۔ اور کیا وہ اس طرزعمل سے اپنی کھال ہندو بنئے سے بچا پائے گی۔
جماعت اسلائی نے ڈھاکہ کی پھانسی پر عجب ردعمل کا اظہار کیا ہے، سوشل میڈیا پر اس نے راتوں رات اتنی بڑی مہم چلائی ہے جو صرف جماعت اسلامی جیسی منظم جماعت ہی چلاسکتی ہے۔ اس مہم میں جماعت نے فوج کو دو طعنے دیئے ہیں، ایک یہ کہ خود پاک فوج تو سرینڈر اور قید و بند کی ذلت برداشت کر کے مشرقی پاکستان سے جان بچا کر آ گئی (بلکہ بھاگ آئی) مگر جماعت اسلامی اور البدر اور الشمس کے جانثار میدان میں ڈٹے رہے اور اب وہ پھانسی اور عمرقید جیسی سزائیں بھی بخوشی قبول کر رہے ہیں۔ دوسرا طعنہ وہی ہے جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا جوبنگلہ دیش حکومت کا بھی مقصد ہے کہ اب پاک فوج کا ساتھ دینے اور پاکستان کا نام لینے کی کسی کو جرات نہیں ہوگی۔
بنگلہ دیش کی عدالتوں کو پھانسی دینے کی جلدی تھی، ایک عدالت نے حکم امتنائی بھی جاری کیا مگر چند گھنٹوں کے اندر وہ بھی خارج ہوگیا، ہماری عدالتوں نے پچھلے دس برس کی دہشت گردی کی جنگ میں کسی ایک ملزم کو سزا نہیں دی، الٹالاپتا افراد کے معاملے کو خوب اچھالا گیا، اخروٹ آباد اور کراچی کے واقعات میں ایف سی اور رینجرز کوسزاسناڈالی، ہم نے جن دہشت گردوں کو جیلوں میں ڈال رکھا تھا انہیں موقع فراہم کیا کہ وہ جیلیں توڑیں اور بھاگ جائیں۔
اس بحث کے تناظر میں صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہم ایک ابہام کا شکار ہیں، ہمارے ہاں ایک کنفیوژن کی فضا ہے اور ہم اپنی سکیوریٹی کے مسئلے پر یکسونہیں ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ہمیں دہشت گردوں کا ساتھ دینا ہے یا ان کے خلاف لڑنے والوں کا، ہم نہیں جانتے کہ میں ان لوگوں کا ساتھ دینا ہے جو بلوچستان میں بسیں اور ریل گاڑیاں روک کر اور شناختی کارڈ چیک کر کے گردنیں کاٹتے ہیں اور سینوں میں گولیاں اتارتے ہیں اور قائد ریذ یڈنسی کو شعلوں کی نذر کرتے ہیں، یا ملک کی فیڈریشن کو متحد رکھنے والی قوتوں کا ساتھ دینا ہے، ہم نہیں جانتے کہ ہمیں بنگلہ دیش میں محب وطن پاکستانیوں کی پھانسی پر افسوس کا اظہار کرنا ہے یا بنگلہ دیش حکومت سے سول ایوارڈز لینے والوں کی شان میں قصیدے پڑھنے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ گزشتہ روز پاک فوج کے نئے سربراہ نے بلوچستان میں جن کیڈٹس کو شمشیر اعزاز عطا کی ہے، وہ اپنے وطن کی سلامتی کی حفاظت کے لیئے کب تک ڈٹے رہیں گے اور بی ایل اے کے دہشت گرد کب انہیں پاک فوج کے ساتھی اور بلوچ قوم کے غدار کہہ کر انجام کو پہنچا دیں گے۔ کسی کو نہیں پتا کہ سندھ میں جئے سندھ کا طوفان نئے سرے سے کب کھڑا ہو گا اور وہ کیا سونامی ڈھائے گا، کون جانتا ہے کہ کراچی میں فوج کے آپریشن میں جناح پور کے جو نقشے برآمد ہوئے تھے، ان میں عملی رنگ بھرنے کی کوشش کب شروع ہو جائے گی اور کون جانتا ہے کہ آزاد پختونستان اور ہزارہ کے نعرے کیا اور کب گل کھلائیں گے اور کیا پتا کہ جاگ پنجابی جاگ کا بھولا ہوا نعرہ ہونٹوں پرکب گونج اٹھے گا۔
آج ہر طرف یورپی یونین کی طرف سے پاکستان کو ملنے والے بی ایس پی پلس کے اسٹیٹس پر شادیانے بجائے جارہے ہیں لیکن کیا کوئی جانتا ہے کہ کہ اگر ہم وارآن ٹیرر میں نیٹو کے حلیف نہ ہوتے اور میں نان نیٹو کا اسٹیٹس حاصل نہ ہوتا تو یہ یہ جی ایس پی پلس ہمیں نہ ملتا، یہ خیرات صرف اس لیے ہماری جھولی میں ڈالی گئی ہے کہ ہم امریکہ اور نیٹو کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے ملک میں امریکہ اور نیٹو کے خلاف نعرے بازی ایک فیشن بن گئی ہے مگر دوسری طرف ہر ایک نے سنا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے اربوں کھربوں کی آمدنی کے خواب دکھائے ہیں۔ ایک طرف ہم وار آن ٹیررلڑنے کی کمائی کھا رہے ہیں اور دوسری طرف ہم اس لڑائی کے خلاف نعرے بازی بھی کررہے ہیں۔ میں اسی صورت حال کوکنفیوژن اور ابہام قرار دیتا ہوں جس میں ہم بری طرح مبتلا ہو چکے ہیں۔
یہی ابہام ہے جس نے جماعت اسلامی کو امریکہ کے سامنے ہیں، بلکہ اپنی ہی فوج کے سامنے کھڑا کر دیا ہے، جماعت اسلامی تاریخی طور پر ہماری فوج کی حلیف رہی ہے مگر اب وہ فوج کو ہر طرح کے طعنے بھی دے رہی ہے اور آنکھیں بھی دکھا رہی ہے۔ جماعت اسلامی نے جتنی برق رفتاری سے آنکھیں بدلی ہیں، یہ ہمارے لیئے لمحہ فکریہ ہے۔ اور جماعت کے لیئے بھی، وہ جس پاکستان کا رزق کھا رہی ہے اور جس ملک کی فوج اس کے لیئے جانوں کی قربانی دے رہی ہے، اس کے صلے میں اسے طعن وتشنیع کا جس بھونڈے انداز میں نشانہ بنایا گیا ہے، وہ جماعت کے رہنماؤں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ جنرل راحیل شریف، میجر شبیر شریف اور میجر عزیز بھٹی کو منفی مہم کا نشانہ بنا کر جماعت نے کس کی خدمت کی ہے، کیا یہ خدمت بنگلہ دیش حکومت کی نہیں جس نے عبدالقادر ملا کو پھانسی دی۔ دعا ہے کہ خدا انہیں جنت نصیب کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ پاکستان کے لیئے ان کی قربانی یاد رکھی جائے گی۔ آمین!(14 دمبر 2013ء)