خبرنامہ

کالا باغ ڈیم کے حق میں ایک توانا آواز۔۔اسداللہ غالب

نوائے وقت میں سلسلہ مضامین چلا تو دل و دماغ میں کئی تاثرات اور کئی خدشات پیدا ہوئے اور موہوم سی امید کی کرن بھی روشن دکھائی دی۔
کالا باغ کے حق میں بولنے ا ور لکھنے کے لئے چیتے کا سا جگر چاہئے اور اگر لکھنے والا خود واپڈا کا چیئر مین ہو تو یہ قیامت کی نشانی ہے۔
بے اخیتار دل سے دعا نکلی کہ ان کی آرزو پوری ہو، یہ آرزو پورے پاکستان کی ہے۔ مگرا سکی تکمیل میں رکاوٹیں ہمالیہ سے بلند تر اور سنگلاخ ہیں۔
ایک لمحے کے لئے سوچا ،کیاا نہیں حکومت نے اس کے لئے متحرک کیا ہے ، مگر وہ تو لکھتے ہیں کہ ان کے وزیر نے کہا کہ جب تک یہ منصوبہ مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری نہیں لے لیتا ،اس کا ذکر زبان پر مت لاؤ، چیئر مین موصوف نے اصرار کیا کہ ذاتی رائے کا اظہار کر سکتا ہوں ، سو انہیں اس کی منظوری مل گئی۔ یہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے کہ زبانی کلامی تو کالا باغ کو اشیر باد مل گئی۔
میاں نواز شریف کرنے پرآئیں تو کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ جب انہوں نے بھارتی دھماکوں کے بعد جوابی دھماکے کئے تو ایک تقریر بھی کی جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ کالاباغ ڈیم بنائیں گے۔یہ کیوں نہ بن سکا ،ا سکی وجوہ سے میں آگاہ نہیں۔نواز شریف کے بھائی شہباز شریف بھی کرنے پہ آئیں تو وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جس کی مخالفت میں ایک زمانہ اکٹھا ہو جاتا ہے، لاہور کی میٹرو کے بعد اب اورنج ٹرین کا منصوبہ اس کی واضح مثال ہے، یہ ان دونوں بھائیوں کی خوبی ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے خود ان کا ذہن کسی منصوبے کا حامی ہو۔
ابھی تک حکومت کی طرف سے ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ وہ بھی کالا باغ ڈیم کو بنانے پر تلی ہوئی ہے مگر جس دن اس کیلئے پر عزم ہو جائے گی تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو کوئی نہیں روک سکتا۔
اور ایسے شواہد بھی نہیں ملے کہ کالا باغ ڈیم کے خلاف شور محشر برپا ہو۔ہوا بھی تو واپڈا کے چیئر مین کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکے گا۔پہلے بھی ایک چیئر مین ہو گزرے ہیں جناب شمس الملک جو اس ڈیم کی افادیت کے قائل تھے، ان کا تعلق پشاور سے تھا اور انہوں نے دلیل سے قائل کیا تھا کہ صوبہ خیبر پی کے کو جو خدشات لاحق ہیں ، وہ بے بنیاد ہیں ، ان میں سے نوشہرہ کی غرقابی کے خدشے کو انہوں نے اپنے انجینیئرنگ کے تجربے اور فنی مہارت کی بنیاد پررد کیا تھا۔شمس الملک کو کالا باغ ڈیم کی حمائت کے باوجود پشاور کی نگران حکومت کا وزیر اعلی لگایا گیا۔
کالا باغ ڈیم کی اولیں مخالفت جنرل ضیا الحق کے مقرر کردہ خیبر پی کے، کے فوجی گورنر فضل حق نے کی تھی ۔ کہتے ہیں یہ مخالفت ملی بھگت کا نتیجہ تھی، جنرل ضیا ڈیم بنانا نہیں چاہتے تھے ، سو اپنے گورنر کو آگے کر دیا، خان غفار خاں اور خان ولی خان نے بھی ڈیم کو مسترد کر دیاا ور یہ دھمکی دی کہ اسے بنایا گیا تو بم مار دیں یا بلاٹکٹ بحیرہ عرب بھجوا دیں گے۔میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جنرل ضیا دل سے چاہتے تو ڈیم نہیں بنا سکتے تھے، بھٹو کو انہوں نے پھانسی دینا تھی، ملکی عوام اور عالمی راہنماؤں کی مخالفت کے باوجود پھانسی دے دی۔ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو جلا وطن کئے رکھا۔ریفرنڈم کروایاا ور اپن آپ کو تا حیات وردی میں صدر بنوا لیا، پچاسی کے الیکیشن کروائے اور غیر سیاسی بنیادوں پر کرائے، جونیجو سے ناراض ہوئے تو انکی حکومت توڑ دی۔ اسی طرح مشرف ایک وقت تک کالا بغ ڈیم کے حق میں تھے، انہوں نے کئی نشری تقاریر میں اس کی تعمیر کا عندیہ دیا۔ اب یہ نرا ڈھکوسلہ ہے کہ وہ پشاور، کراچی ا ور کوئٹہ کی حکومتوں یا ان کے عوام کے خوف سے ڈیم نہ بنا سکے۔ مشرف بھی کچھ کرنے پرآتے تو ، کر گزرتے تھے، ایک منتخب وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت توڑ ڈالی،انہیں پابند سلاسل کیا اور انہیں جیل اور قلعوں میں ا ذیت پہنچائی اور آخر کار انہیں جلا وطن کر دیا، کرنے پہ آئے تو ملک کے چیف جسٹس کوبھی گھر کی راہ دکھائی۔مگر صد حیف! وہ کالا باغ ڈیم بنانے سے قاصر رہے۔اور عوام کی خواہشات کے برعکس انہوں نے ملک کوامریکی جنگ کے جہنم میں جھونک دیا۔
آج سیاستدان ایک دوسرے کو احتساب سے بچانے کی خاطر متحد ہیں ، پانامہ میں سبھی پھنسے ہوئے ہیں مگر وقت ٹالنے پر سبھی تیار ہیں۔اور کالا باغ ڈیم کا اشو آئے گا، تو اس پر شورو غوغا مچا دیں گے۔
چیئر مین واپڈا نے اخلاقی دیانت کا مظاہرہ کیا ہے، اپنی رائے کو بلا جھجک سامنے لا رہے ہیں، انہوں نے تاریخ کو کھنگال ڈالا ہے، دنیا کی مثال دی ہے کہ وہ آبی تنازعات کو کس طرح حل کرتی رہی ہے یا ان میں کسیے پھنسی ہوئی ہے۔ہمارے ہمسائے بھارت میں ان مسائل کے حل کے لئے کوئی میکنزم نہیں، جو بنایا جاتا ہے، ناکام ہو جاتا ہے، دریائے نیل پر صدیوں سے جھگڑے چلے آ رہے ہیں یورپ میں دریائے ڈینیوب پر تناز عات چلتے رہے ، دریائے ایمزان کے تنازعات میں کئی ممالک پھنسے رہے۔
میں ایک بار امریکی دعوت پر برکلے یونیورسٹی بھی گیا، میں ا س وقت حیران ہو اجب ہمیں سیاسی جغرافئے کے ڈپارٹمنٹ میں بریفنگ کے لئے لے جایا گیا، میں حیران تھا کہ یہاں کیا بات ہو سکتی ہے مگر بریفنگ دینے والے پروفیسر نے پانچ منٹ کی تمہیدی گفتگو کے بعد سندھ طاس کا ذکر چھیڑ دیاا ور پھر پتہ ہی نہ چلا کہ دن کس وقت ڈھل گیا ، یہیں میری ملاقات ایک ادھیڑ عمر پروفیسر سے ہوئی جس نے بتایا کہ وہ بھٹو کا کلاس فیلو رہا ہے ا ور طلبہ یونین کی صدارت کے لئے ان کی انتخابی مہم زور شور سے چلاتا رہا۔
واپڈا سے بجلی کا اختیار چھینا گیا تو اخبارنویسوں کی دلچسپی اس ا دارے سے کافور ہو گئی۔ کیا وقت تھا کہ ایک سے ایک بڑھ کرا ور دھانسو چیئر مین ہوتے تھے ا ور ان سے گفتگو کا اپنا ایک مزہ تھا، جنرل صفدر بٹ، جنرل زاہد علی اکبر، جنرل ذوالفقار،شمس الملک۔ طارق حمید سے تو ذاتی دوستی کا تعلق استوار تھا۔ اب ظفر محمود آئے ہیں ۔ یہ راوین ہیں اور زبردست لکھاری۔مگر ملاقات کی کوئی سبیل نہ نکلی، ان سے تنویر قیصر شاہد کی گاڑھی چھنتی ہے، ان سے کئی بار فون مانگا مگر وہ طرح دیتے رہے ۔ واپڈا میں رضی ا لدین شیخ، کیپٹن ارشد اور کرنل سفیر تارڑ تعلقات عامہ کے انچارج تھے تو اس دیو قامت عمارت میں داخلے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی تھی۔ہفتے کو لاہور ایڈیٹرز کلب میں تشریف لائے ، ان کو سننے کا موقع ملا ، چند سوال جواب بھی ہوئے ۔ یہ ملاقات اس کالم کا باعث بھی بن گئی۔ دعا ہے کہ کالا باغ ڈیم پر قومی ان بن بھی رفع ہو جائے۔