خبرنامہ

کا کول کی دھول

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کا کول کی دھول

نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد کسی فارمولے اورکسی تجزیئے کی رو سے حکومت اور فوج میں محاذ آرائی کا امکان نہیں تھا۔ جنرل راحیل شریف کو کیوں منتخب کیا گیا، اس فیصلے کے میرٹ کا اندازہ وزیراعظم یا ان کے اصلاح کاروں کو ہوگا۔ عام آدی یہی خیال کر رہا تھا کہ ایک تو وزیراعظم نے ان جرنیلوں کو منتخب نہیں کرنا تھا جن کے ساتھ ان کا جھگڑا ہو چکا ہے، دوسرے راحیل شریف کی شہرت ان کے نشان حیدر پانے والے بھائی میجر شبیر شریف سے تھی۔ اسی خاندان میں ایک نشان حیدر اور بھی تھا اور پینسٹھ کی جنگ کے حوالے سے قوم کا بچہ بچہ ان کی عزت کرتا ہے، وہ ہیں میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر۔ وزیراعظم کا بھی خیال ہوگا کہ آخری نمبر سے ترقی پانے کی بنا پر جنرل راحیل شریف ان کے ممنون بھی ہوں گے۔ یہ وہی نکتہ ہے جو بھٹو نے ضیاالحق اور نواز شریف نے جنرل مشرف کومنتخب کرتے ہوئے مدنظر رکھا تھا۔
مگر سب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اس لیئے کہ نواز شریف تو وہی تھے۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مسئلے پرفوج نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور امن کو موقع دینے کے نظریے کی حمایت کی۔ اس دوران فوج کو بہت مار پڑی اور ایک جرنیل کی شہادت بھی ہوئی۔ منورحسن اور فضل الرحمن نے فوج کے شہیدوں کی تحقیربھی کی۔ فوج نے منور حسن سے معافی کا مطالبہ کیا مگر جماعت اسلامی کی شوری اپنے امیر کے پیچھے ڈٹ گئی اور الٹا وزیراعظم سے کہا کہ فوج کے خلاف کارروائی کی جائے۔
یہ فوج کی پہلی کھلی تضحیک اور تذلیل تھی۔
جنرل مشرف پر غداری کا کیس چلا۔ فوج نے اپنے سابق آرمی چیف کو عدالت میں حاضری سے بچانے کے لیئے اپنے ہسپتال میں داخل کر لیا۔ دنیا بھر میں پیشی سے بچنے کے لیئے ہرملزم مختلف ہتھکنڈے اختیار کرتا ہے، کوئی انہونی نہیں تھی مگر فوجی ہسپتال، فوجی ڈاکٹروں اور خود جی ایچ کیو کے خلاف طعنوں کا طوفان چل پڑا۔ اسی دوران وزیر دفاع نے فوج کے ایک اہلکار کے خلاف پرچہ درج کروایا، ایک ٹی وی انٹرویو میں فوج کے خلاف ریمارکس دیئے۔ ٹی وی چینل میں ہر طرح کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے وزیردفاع کی ایک پرانی وڈیو چلا دی جس میں وہ فوج کو بے نقطہ سنارہے تھے۔ وزیر ریلوے بھی میدان میں آن دھمکے۔ نوائے وقت کے اداریے میں ان دونوں صاحبان کے پرمغز نکات بیان کر دیئے گئے ہیں، میرا حوصلہ نہیں پڑتا کہ انہیں یہاں دہراؤں کہ فضا پہلے ہی مکدر ہے۔
حکومت اور اس کے وزرا جو کچھ کہہ رہے تھے اور کر رہے تھے ہوسکتا ہے وہ اس میں حق بجانب ہوں مگر غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے نئے آرمی چیف کے مزاج کو سمجھنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ میں نے ان کالموں میں کھلے اشارے کیے مگر کالم اور الم غلم کوئی پڑھنے کا تر ددہی نہیں کرتا۔ بہرحال ایک بات یہاں پھر دہراتا ہوں کہ آرمی چیف نے سلیمانی سیکٹر کا دورہ کیا۔ یہ محاذ ان کے لیئے جذباتی حیثیت رکھتا ہے، وہاں ان کے بڑے بھائی داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے اور انہوں نے بھارتی علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے معرکہ سبونہ کے ہیرو کا درجہ پایا۔ جنرل راحیل شریف نے سلیمانکی میں ایک کھلے دربار سے خطاب کیا۔ نئے اور پرانے سبھی فوجی جمع تھے۔ جنرل نے ایک ہی نکتے پر زور دیا کہ وہ پاک فوج کے وقار پر حرف نہیں آنے دیں گے۔ اسی بات کو انہوں نے تربیلا میں کمانڈوز بیس پر اپنے خطاب میں دہرایا۔ میرا احساس یہ ہے کہ وہ میڈیا پر شور و غوغا سے نکونک آ چکے تھے۔ انتہائی اختصارگر بلاغت کے ساتھ انہوں نے اپنے مافی ضمیر کا اظہار کیا۔ کور کمانڈرز کے اجلاس میں بھی یہی جذبات دیکھنے کو ملے گواس سلسلے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا اور مصلحت کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ فوج اپنا نکتہ نظر بیان کر چکی، اب اسے خاموش رہ کر حالات میں بہتری کا انتظار کرنا تھا۔
خدا کا شکر ہے کہ حکومتی صفوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا غلطی تھی کہ مشرف کے مقدمے کی آڑ میں فوج کو بحیثیت ادارہ ہدف تنقید بنایا جارہا تھا۔ یہ ایک بیرونی ایجنڈا تھا۔ حکومت اس ٹریپ سے باہرنکل آئی۔ خیر سگالی کے اشارے ملے اور ایک خوشگوار ماحول میں وزیراعظم اور آرمی چیف نے کاکول کا رخ کیا۔
بہار کی خوشبوؤں سے لبریز ماحول میں وزیر اعظم نے دل کھول کر فوج کے کردار کی تحسین کی۔ مور اوور انہوں نے جنرل راحیل کی شان میں ڈونگرے بھی برسائے اور یوں پاکستانیوں نے سکون کا سانس لیا کہ ایک سنگین سازش دم توڑ چکی تھی۔
اتفاقات ہیں زمانے کے۔ اور خاص طور پرٹامس ہارڈی کے قارئین جانتے ہیں کہ تقدیر کس طرح ایک سواسی ڈگری کا موڑ کاٹتی ہے۔
کاکول کے الفاظ ابھی فضا میں تحلیل بھی نہ ہونے پائے تھے کہ قوم کے اعصاب پر ایک نئی بجلی آن گری۔ یکا یک پہلے سے زیادہ پرخطر اور شوریدہ سر طوفان نے سر اٹھایا۔ فوج ایک نئے بحران کی زد میں تھی۔ اب فوج کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ اس کا اصل حریف کون ہے۔ کیا بھارت اس کے مد مقابل ہے، کیا اسے دہشت گردوں کا سامنا ہے۔ کیا اسے امریکی چالوں سے نبٹنا ہے یا اسے آگے چل کر افغانستان کے تلاطم کو ٹھنڈا کرنا ہے۔
کاکول نے مطلع بالکل صاف کر دیا تھامگر اب ہر طرف دھول ہی دھول ہے۔ دوست اور دشمن کی تمیز باقی نہیں رہی۔ حالیہ اپریل کے موسم کی طرح پاکستان کا مطلع کالی سیاہ گھٹاؤں میں گھرا ہوا ہے۔ یا کوئی لاواہے جو پھٹ پڑا ہے۔ اس ملک میں قتل و غارت کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے وزیر اعظم شہید ہوئے، پہلے منتخب وزیر اعظم پھانسی چڑھے، ایک فوجی ڈکٹیٹر کا جہاز ہوا میں پھٹ گیا محترمہ بے نظیر کو ایک ہجوم کے سامنے شہید کر دیا گیا، پچھلے دس بارہ برس میں ساٹھ ہزار پاکستانی جو بالکل بے گناہ تھے، زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال تڑپ رہا ہے کہ ہمیں کس جرم کی پاداش میں شہید کیا گیا۔ بے بس لوگ دو دوسو لاشیں لے کر یخ آسمان کے نیچے رکھ کر احتجاج کرتے رہے مگر کبھی یوں آسمان گرا تھا، نہ زمین شق ہوئی تھی۔ مگر کاکول سے نکلنے کے بعد جو شام آئی، وہ طویل ہوتی چلی جارہی ہے، اندھیرے پھیلتے جارہے ہیں۔
تاریخ میں ہمارے جیسی بد نصیب کوئی قوم نہیں آئی جس نے اجتماعی خودکشی کا تہیہ کر رکھا ہو۔ ہم نے ایک دوسرے کا گریبان پکڑ لیا ہے۔ ہر شخص نے جسم پر خودکش جیکٹ پہن رکھی ہے اور ہمارا خیال ہے کہ بٹن دبائیں گے تو فریق مخالف ہی کے چیتھڑے اڑیں گے۔ اور تاریخ میں ایسا بھی کم ہوا ہے کہ کسی قوم کو اپنی تباہی کے لیے بیرونی دشمن کی ضرورت نہ ہو، ہم اس معاملے میں بھی خودکفیل ہیں۔
دعا کریں کہ کوئی مسیحا آسمانوں سے اترے۔ (22 اپریل 2014ء)