خبرنامہ

کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی کاٹرین مارچ۔۔اسداللہ غالب

کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی کاٹرین مارچ۔۔اسداللہ غالب
صرف جماعت اسلامی نے کرپشن کو سنجیدگی سے لیا ہے بلکہ دل پہ لگا لیا ہے۔باقی جماعتیں تو شلجموں سے مٹی جھاڑنے میں مصروف ہیں، جماعت نے یہ سب کچھ اپوزیشن جماعتوں کے اندر گھس کر دیکھا اور جلد محسوس کر لیا کہ وڈیروں ، زمینداروں، صنعتکاروں، نوابوں،خان بہادروں، اورآف شوروں کو کرپشن کے خاتمے سے کوئی غرض نہیں، وہ تو بس آف شور آف شور کھیل رہے ہیں ا ور عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں بلکہ مقتدر قوتوں کو بھی احمق سمجھتے ہیں۔ فوج بری طرح دہشت گردی کی جنگ میں الجھی ہوئی ہے، بھارت نے اپنے را کے ایجنٹوں کا جال بچھا رکھا ہے، افغان ایجنٹ بھی دھڑا دھڑ پاکستان میں درآئے ہیں ، شور تو بہت تھا کہ فوج نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے سرپرستوں ، سہولت کاروں اور سرمایہ کاروں کے خلاف آپریشن کرے گی مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، کرپٹ سیاست دانوں کے اتحاد نے فوج کی ایک نہیں چلنے دی حالانکہ نیشنل ایکشن پلان خود تمام سیاستدانوں کے اتفاق رائے سے بنا تھا، مگر جب ہاتھ خود ان کے گریبانوں تک پہنچا تو وہ چیخ اٹھے کہ تم نے تین سال رہنا ہے ا ور ہم نے ہمیشہ رہنا ہے۔یہ بھی کہا کہ کرپٹ صرف ہم نہیں، تم بھی ہو اور سینتالیس سے تمہاری لسٹیں نکالیں گے تو چکرا کر رہ جاؤ گے، فوج نے اس کے جواب میں اپنا احتساب خود کرنا شروع کر دیا، چھ اعلی افسروں کو سزائیں ہو گئیں اور سابق آرمی چیف کیانی کے بھائی سمیت کئی مقتدر فوجی افسروں کے خلاف انکوائریاں شروع ہو گئیں۔ادھر سویلین کی حالت یہ ہے کہ تجوریاں سونے ڈالروں سے بھری ملتی ہیں مگر کیا مجال کسی ایک مجرم کو سزا دی گئی ہو۔ایان علی اور عاصم حسین کے کیس احتساب کے منہ پہ تھپڑ کے مترادف ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت فوج کو اختیار حاصل ہے کہ وہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں، سرپرستوں ا ور سرمایہ کاروں پر ہاتھ ڈال سکے۔ یہ اختیار خود سیاست دانوں نے اتفاق رائے سے دیا تھا مگر ہاتھ جب انہی کے گریبانوں تک پہنچا تو وہ بوکھلا گئے۔انہوں نے جھٹ پارلیمنٹ کی آڑ لی، کمیٹیاں بن گئیں۔ اور اب یہ کمیٹیاں ہو گی اور نہ ختم ہونے والا مستقبل، یہ کمیٹیاں ایک دوسرے کے تحفظ کے لئے تشکیل دی گئی ہیں اور جھٹ پٹ سے تشکیل پائی ہیں۔کسی نے کسی سے اختلاف نہیں کیا، ہر وہ طریقہ تلاش کیا جارہا ہے ا ور اسے پارلیمنٹ کی چھتری مہیا کر دی جائے گی جس سے ان کی پکڑ دھکڑ نہ ہو سکے۔
جماعت اسلامی نے یہ خوفناک ا ور دل خراش منظر دیکھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ جب ا سکے دامن پہ کوئی دھبہ نہیں تو وہ کاہے کو اس گند کا حصہ بنے۔،سو اس نے کرپشن کے خلاف رائے عامہ کی بیداری کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ جماعت والے ندرت خیالی میں کمال رکھتے ہیں، سیاست میں ملین مارچ کی اصطلاح اسی جماعت نے متعارف کرائی، شاید قبلہ قاضی حسین احمد نے پہلا ملین مارچ کراچی میں نکالاتھا ور اگر میری یادداشت صحیح کام کر رہی ہے تو ان دنوں بھی جماعت کی تشہیر کا فریضہ برادرم امیر العظیم کے سپرد تھا اور آج جب ٹرین مارچ جاری ہے تو بھی اس کی پبلسٹی کے وہی مدارالمہام ہیں ، مگر جماعت والے نہ جانے کیوں اتنے زیادہ مصروف ہیں کہ بات چیت کے لئے بھی پکڑائی نہیں دیتے، میں نے پورے تین ہفتے تک لیاقت بلوچ سے ملنے کی کوشش کی مگروہ پورا پاکستان گھوم گئے ، میرے لئے آدھ گھنٹہ نہ نکال سکے یہ جو سارا ملک گھومنے کی میں نے بات کی ہے،ا س کی گواہی لیاقت بلوچ کا فیس بک اکاؤنٹ دیتا ہے۔چند برس قبل ان کی والدہ کی وفات ہو گئی، میں اپنی بیگم صاحبہ کے ہمراہ تیسرے دن ان کے گھر پہنچا، سوچا ، اتوار کی وجہ سے گھر مل جائیں گے مگر ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ تو ساہیوال میں ایک خطاب کے لئے صبح سویرے روانہ ہو چکے ہیں۔بہر حال جماعت والوں پر جماعت حاوی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے، یہ کیا ہوا کہ لیڈر اپنے کارکنوں اور جماعت ہی کو گھاس نہ ڈالے ا ور انکے دکھ سکھ میں شریک نہ ہو۔
جماعت کے ٹرین مارچ کی خبریں دوسرے قارئین کی طرح میں نے بھی اخبارات میں پڑھی ہیں۔، پشاور سے کراچی تک سراج الحق نے ہر بڑے ا سٹیشن پر خطاب کیا، جماعت کی اعلی قیادت بھی ا ن کے ساتھ تھی۔ اگرچہ ریلوے اسٹیشن پر بڑا ہجوم تو اکٹھا نہیں ہو سکتا مگر پورے ملک کو جگانے کے لئے یہ ایک تیز رفتار ترکیب ضرور ہے، جماعت کو عمران اور نواز شریف کی طرح جہازوں کا بیڑہ میسر نہیں۔اس لئے انہیں جو میسر تھا،اسی پر تکیہ کیا، اس ٹرین مارچ پر سب سے زیادہ خوشی ریلوے منسٹر خواجہ سعد رفیق کو ہوئی ہو گی کیونکہ انہیں مفت کی پبلسٹی مل گئی کہ ریلوے کا پہیہ تورواں دواں ہے۔یہ کام ان کا بائیس گریڈ کا کوئی پی آرا و بھی نہ کر سکا۔
جماعت اسلامی کو میں پورے نمبر دوں گا۔ اس نے کرپشن کے خلاف ایسی مہم چلائی ہے کہ نیچے سے لے کرا وپر تک کرپشن کرنے والوں سے لوگ متنفر ہو گئے ہیں ۔ یہ ایک لاگ بحث ہے کہ کرپشن پہلے کہاں سے شروع ہوتی ہے، نیچے سے یااوپر سے، زیادہ تر لوگوں کاخیال ہے کہ اوپر سے مگر میں جس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اور جس میں میری ساری زندگی گزری ہے، وہ کرپشن سے لتھڑا پڑا ہے ا ور یہ انتہائی نچلا طبقہ ہے، ایک غریب تریں کسان ہل چلاتے ہوئے کوشش کرتا ہے کہ وہ دوسرے کے کھیت کا کچھ حصہ اپنے کھیت میں شامل کر لے، میری زمینوں کے سارے درخت آہستہ آہستہ دوسروں کے قبضے میں چلے گئے، میں تھانے جاتا ہوں تو مجھ سے رشوت مانگی جاتی ہے، آپ مجھے بہت طاقتور سمجھتے ہوں گے مگر یقین جانئے کہ میں ستر برس میں ا پنے پٹواری سے نہیں مل سکا، میرے پاس رشوت کے لئے پیسے ہوتے تو یہی پٹواری اپنا بستہ ا ٹھا کر میرے گھر چلا آتا، مجھے لاہور کی ضلع کچہری میں ایک فیصلے کی نقل کے لئے مجسٹریٹ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے اہل مد کو تین سو روپے دینا پڑے تھے۔یہ ہیں وہ حالات جن کو دیکھ کر میاں شہباز شریف وارننگ دیتے ہیں کہ اگر آوے کاآوا بگڑا رہا تو اس ملک میں خونی انقلاب آئے گا، میری خواہش ہے کہ شہباز شریف ا س انقلاب کی قیادت کریں۔ میں ان کی کامیابی کی دعا کروں گا، ہم نے فوجی ا نقلاب بھی دیکھ لئے ایوب، یحی، ضیاا ور مشرف سبھی نے احتساب کا نعرہ لگایا ، یہ ایک ڈھونگ ثابت ہوا،ا نہوں نے مہا کرپٹ لوگوں کو ساتھی بنا لیا۔اب جمہوری تماشہ بھی دیکھ لیا کہ آف شور میں ہر قابل ذکر شخص ملوث ہے مگر سبھی ایک دوسرے کو بچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
خدا کرے جماعت ا سلامی عام آدمی کے مصائب کی بات کرتی رہے، شاید اسے کرپشن کے خاتمے میں کامیابی نہ مل سکے مگر لاکھوں لوگ ایسے ضرور تیار ہو جائیں گے جو کرپٹ لوگوں کے منہ پر تھوکیں گے۔ امریکی صدور کو تو جوتے پڑتے رہے۔ مگر پاکستان میں بھی جماعت ا سلامی کی بیداری عوام مہم کے نتیجے میں کرپٹ عناصر پر جوتے پھینکنے والے سامنے آ جائیں گے۔ خونی انقلاب کے بغیر ہی یہ جماعت کی بڑی کامیابی ہو گی۔ اور میں ا س مہم پراسے ایک بار پھر مبارک باد دیتا ہوں۔