خبرنامہ

کشمیر، بھارت کا نہیں، پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کشمیر، بھارت کا نہیں، پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے

وزیراعظم کی زبان پرکشمیر کا ذ کر لندن میں آیا، انہوں نے مسئلے کے حل کے لیئے امریکہ سے مداخلت کی تجویز پیش کی،یہ سن کر بھارت کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہم زبان ہو کر کہا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
پورے پاکستان میں وزیراعظم کی حمایت میں صرف ایک آواز اٹھی اور وہ بھی فارن آفس کے کسی اہل کار کی، یہ اس کی سرکاری ذمے داری تھی۔
کیا ہم کشمیر کو بھول چکے کیا پارلیمنٹ کی کوئی کشمیر کمیٹی نہیں جو وزیراعظم کی تائید کرتی یا بھارت کو منہ توڑ جواب دیتی، کیا کوئی وزیر امورکشمیر موجود نہیں جو اس مسئلے پرزبان کھولتے۔ اور کیا بیسوں سیاسی پارٹیوں کے رہنما گونگے یا بہرے ہو گئے۔
قبرستان کی اس خاموشی میں میرے قائد کی آواز گونج رہی ہے کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ تو آؤان کی آواز میں آواز ملاکر کہیں کہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے، رہے گا اور بنے گا۔
بھارت نے جس منطق کی روسے کشمیر کے مسئلے پر بیرونی مداخلت کو بلا جواز قرار دیا ہے، اس کی روسے بھارت کی حکومت اور اپوزیشن دونوں نے یہ تو مان لیا کہ یہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایک مسئلہ ہے اور شملہ سمجھوتے کے مطابق اسے دوطرفہ بات چیت سے حل کیا جانا ہے۔ یہی بھارت ہمیشہ کہتارہا ہے کہ کشمیرکا تو کوئی سرے سے مسئلہ ہی نہیں۔ اس کا نام بھی نہ لومگر اب اس نے خودہی مان لیا کہ مسئلہ تو ہے مگردوطرفہ۔
ہمارے فارن آفس کے ترجمان نے بھارت کو یاد دلایا ہے کہ دوطرفہ معاہدے سے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کا وجود ختم نہیں ہو جاتا، وہ اپنی جگہ پر ایک اٹل حقیقت ہیں اور بھارت کو ان پرعمل درآمد کرناپڑے گا، جلد یا بدیر کے مسئلے کاحل یہی ہے۔
کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ کیسے ہے، اس فارمولے کی رو سے جو آزادی ہند اور تقسیم ہند کے لیے تمام فریقوں نے قبول کیا۔ اس میں طے کیا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت سے ملحقہ ریاستیں آبادی کی اکثریت کے اعتبار سے دونوں میں سے کسی کا حصہ بنیں گی، یعنی اگر کسی ریاست کی آبادی کی اکثریت ہندو ہے تو وہ بھارت کو ملے گی اور اگر کسی ریاست کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے تو پاکستان کا حصہ بنے گی۔ کشمیر میں غیر مسلم حکمران نے اکثریتی مسلم آبادی والی ریاست کا الحاق بھارت سے کرنے کا اعلان کیا تو بھارت نے اس پرعمل در آمد کے لیے کشمیر میں فوج داخل کر دی۔ پاکستان کے قبا ئلی لشکر نے بھارتی فوج کوللکارا اور قریب تھا کہ وہ پٹھان کوٹ کا رابطہ کاٹ دیتے اور سری نگر ہوائی اڈے پر قبضہ کر لیتے کہ بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو بھاگم بھاگ سکیور ٹی کونسل جا پہنچے، جہاں جنگ بندی اور استصواب کی قرارداد منظور کی گئی، بھارت نے اس قرارداد کوتسلیم کرنے کا اعلان تو کیامگر پھر بھولے سے اس پر کبھی عمل نہیں کیا۔ پاکستان نے 65میں آپریشن جبرالٹر کے ذریے کشمیر میں پیش قدمی کی تو بھارت نے بین الاقوامی سرحدوں پر جارحیت کر دی۔ اگر یہ لڑائی صرف کشمیر کے متنازعہ علاقے تک محدود رہتی تو کشمیر کے قضیے کا فیصلہ اس جنگ سے ہو جاتا مگر ایک بار پھر بھارت نے سلامتی کونسل سے رجوع کیا اور سیز فائر کی بھیک مانگی۔
89 میں دیوار برلن ٹوٹی اور مشرقی یورپ کے راستے دنیا میں تبدیلی کی تیز رفتار ہوائیں چلیں تو کشمیریوں کا لہوبھی گرم ہوا اور وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر سڑکوں پر نکل آئے، بھارت نے ان کے جذبہ حریت کو کچلنے کے لیئے اپنی فوجی نفری بڑھانا شروع کر دی، آج یہ تعداد سات لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور پچھلے تیس برس میں بھارتی غاصب افواج ایک لاکھ کشمیری نوجوانوں کو شہید کر چکی ہیں۔
نائن الیون کے بعد بھارت کو موقع مل گیا کہ وہ کشمیر میں جاری جنگ آزادی پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دے۔ امریکہ سے کہلوا کر پاکستان کی آزادی پسند تحریکوں پر پابندی لگادی گئی۔ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات میں اضافہ کرنے کے لیئے بھی بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا ڈرامہ رچایا گیا کبھی سمجھوتہ ایکسپریس کو بموں سے اڑایا گیا کبھی سانحہ بمبئی کا سوانگ رچایا گیا اور پھر پاکستان کی آئی ایس آئی اور لشکرطیبہ کے خلاف الزامات کا طوفان کھڑا کر دیا گیا، جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں تو بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کو دہشت گردی کا منبع کہہ ڈالا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم لوگوں نے منہ میں گھنگھنیاں ڈال رکھی ہیں اور چپ شاہ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے لبوں پر صرف امن کی آشا ہے۔ جبکہ بھارت نے کنٹرول لائن پر گولہ باری اورقتل و غارت کی انتہا کر دی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ صرف یہ کہ کون ہے جو بھارت کو لگام دے سکے۔ وہ بین الاقوامی بارڈر پر بھی ہمیں للکار رہا ہے۔
بھارت سے ہمارا ایک ہی جھگڑا ہے، وہ ہے کشمیر پر بھارت کے جارحانہ قبضے کا امن کی آشاوالے یہ قبضہ چھڑادیں، بھارت سے تجارت کو فروغ دینے کے خواہش مند سری نگر کی بیٹیوں کو بھارتی فوج کی ہوسناک نگاہوں سے محفوظ کر دیں توبھلے وہ بھارت سے تجارت کا شوق پورا کرتے رہیں۔
مسلہ کشمیر صرف دو طرفہ نہیں، اگر چہ گزشتہ روز امریکی ترجمان نے کہہ دیا کہ بھارت جانے اور پاکستان جانے، وہ دونوں مل بیٹھ کر یہ مسئلہ طے کرتے رہیں لیکن شاید یہ امریکی ترجمان نہیں جانتا کہ جولائی 99 کو امریکہ کے یوم آزادی پرصدر کلنٹن نے میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد ایک اعلامیہ واشنگٹن جاری کیا تھا جس میں کلنٹن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیرکوحل کرانے میں ذاتی کردار ادا کریں گے۔ کوئی بھارت اور اب امریکہ کے نئے تر جمان سے پوچھے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ دو طرفہ تھا تو پھر صدر کلنٹن نے ذاتی مداخلت کا کیسے وعدہ کر لیا۔ اور ہمارے وزیر اعظم کو بھی اپنی یادداشت بہتر بنانی چاہئے، انہوں نے جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہہ ڈالا کہ کشمیر کا مسئلہ اعلان لاہور کی روشنی میں حل کیا جائے اور اعلان لا ہور کہتا ہے کہ کشمیرکا مسئلہ شملہ سمجھوتے کی رو سے دوطرفہ بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔ وزیراعظم ایک سانس میں متضاد باتیں کہہ جاتے ہیں، کوئی ان کے اردگرد ایسا مشیر بھی ہے جو انہیں حقائق سے باخبر رکھے۔
ہمیں خودہی مسئلہ کشمیرکو بلڈوز نہیں کرنا چاہئے کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے، بنے گا اور رہے گا۔
حافظ سعید جی! آپ ہی یہ نعرہ گلے کی پوری قوت سے لگادیں کشمیر کے لیئے بدنام ہیں تو زبانی کلامی ہی کشمیر کانام تو زبان پر لائیں۔ (23 اکتوبر 2013ء)