خبرنامہ

کشمیر میں بھارتی جمہوریت کی سیاہی کا ماتم…اسد اللہ غالب

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کشمیر میں بھارتی جمہوریت کی سیاہی کا ماتم…اسد اللہ غالب

کشمیر کی سیاہ رات طویل ہوتی جا رہی ہے۔بھارت کے یوم آزادی پر کشمیر کے طول و عرض میں ایک ہو کا عالم تھا۔گلیاں، سڑکیں بازار سب سنسان،قابض سرکار اور بھارتی فوج نے سنگینیں تان کر احتجاجی مظاہرین کو گھروں میں بند کئے رکھا، ٹیلی فون،انٹر نیٹ اور موبائل سب کچھ بند ۔ اگر نئی دہلی کے بس میں ہوتا تو سانس لینے کے لئے آکسیجن بھی بند کر دی جاتی۔ مگر آفرین ہے کشمیریوں پر کہ انہوں نے اکہتر برس سے بھارتی جارحانہ قبضے کو قبول نہیں کیا۔ وہ اپنے غم و غصے کے اظہار کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ بھارتی فوج ان پر تڑ تڑ گولیاں چلاتی ہے ۔ کشمیری جوان، بچے، بوڑھے اور خواتین سینے تان کر بھارتی فوج کو چیلنج کرتے ہیں۔ زخم سہتے ہیں لاشیں گرتی ہیں۔ مگر آزادی کے نعرے بلند ہوتے رہتے ہیں۔ کیا چاہئے آزادی ، کیا چاہئے آزادی کا مطالبہ گونجتا ہے۔شہروں میں،قصبوں میں وادیوں میں اور پہاڑوں میں نعرے گونجتے ہیں۔ان جذبوں کو کچلنا ممکن نہیں، سری نگر کے قبرستان میں ایک لاکھ نئی قبریں اگ آئی ہیں مگر شہادتوں کا سفر جاری ہے اور بھارت کے جبر کے خلاف دنیاکے ضمیر کوبیدار کرنے کی کوشش ہے کہ ختم ہونے کانام نہیں لیتی۔ پاکستان نے کشمیریوں کی امنگوں کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ عمران خان نے وکٹری تقریر کی تو کشمیر میں بھارتی مظالم پر سخت احتجاج کیا۔ پاکستان کا یوم آزادی منایا گیا تو صدر مملکت ممنون حسین نے اپنے غم و اندوہ کا کھل کر اظہار کیا، بھارت کی فوج کے جبر کا ماتم کیا۔ اور کشمیر کامسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا۔ ممنون حسین پانچ برس تک خاموش رہے مگر جاتے جاتے انہوںنے خاموشی توڑی ا ور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے آواز بلند کی۔ مجھے ممنون حسیں بہت بھلے لگے۔
پاکستان بجا طور پر کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر احتجاج کرتا ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ خود پاکستان میں کسی کے حقوق پامال نہ کئے جائیں اور جب ہم بھارت پرتنقید کرتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کوپامال کرتا ہے تو ہمیں خود بھی اپنے ہاں آئین اور قانون کی خلاف ورزی سے گریز کرنا چاہئے۔
میں امید کرتاہوں کہ ہمارے سیاسی ا ور حکومتی عناصرا ور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اپنے رویوں کو جمہوری بنائیں گے تاکہ کل کو کشمیریوں کو ہمارے ساتھ آ ملنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ ہو۔ ہمیں خود کو اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا نمونہ بن کر دکھانا چاہئے تاکہ لوگ ہمارے طرز عمل کی مثال دیں اوراسکی تقلید میں خوشی محسوس کریں۔
میںنے بات کشمیریوں کی سیاہ رات کے طویل ہونے سے شروع کی اور اپنی قوم کی سیاہیوں کا تذکرہ لے بیٹھا۔ بہر حال مقام شکر یہ ہے کہ ہم جیسے بھی ہیں ،کشمیریوں کی طرف سے غافل نہیں ہیں۔ہم ان کے لئے تڑپ رکھتے ہیں۔ ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہیں۔ ان کے مسئلے کو بھارت کے ساتھ دو طرفہ بات چیت سے بھی حل کرنے کے لئے تیار ہیں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کااحترام بھی کرتے ہیں اور ان کے تحت بھی ا س مسئلے کو ایک آزادانہ، غیر جانبدرانہ، منصفانہ استصواب کے تحت حل کرنے کا مطالبہ بھی جاری رکھتے ہیں، عمران خاں نے بھی بھارت کو پیش کش کی ہے کہ وہ کشمیر کے کور ایشو کو حل کرنے کے لئے ایک قدم آگے بڑھائے تو پاکستان دو قدم آگے جانے کو تیار ہو گا۔
بھارت کے یوم آزادی کو کشمیریوںنے یوم سیاہ کے طور پر منایا ، اس سے بھارت کی آ نکھیں کھل جانی چاہئیں کہ اس کے یہ دعوے سب جھوٹ کا پلندہ ہیں کہ وہ دنیاکی سب سے بڑی جمہوریہ ہے ۔ کشمیریوںنے واضح کیا ہے کہ بھارت ایک فاشسٹ ریاست ہے جس کا جمہوری، آئینی اور قانونی اصولوں کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ اس نے مسلسل اکہتر برس تک کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ ان کی نسل کشی کے لئے نت نئے حربے استعمال کئے ہیں۔ کشمیریوںنے ساتھ ہی پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرا کر ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کا حصہ تھے، پاکستان کا حصہ ہیں اور پاکستان ہی کا حصہ بنیں گے۔کشمیر کے مسئلے کا اس کے سوا کوئی اور حل نہیں ، کشمیریوںنے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
بھارت کو صورت حال کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے کہ اب تک کشمیر پر کئی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ مگر اب دونوںملک ایٹمی اسلحے سے لیس ہیں ، اس لئے کسی نئی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس جنگ میں کسی کا کچھ نہیں بچے گااور اگر سب کچھ بچانا ہے تو بھارت کو سیدھے سبھائو میز پر بیٹھ کر کشمیر کے مسئلے کا آبرو مندانہ اور منصفانہ حل تلاش کرنا چاہئے ۔ ایسا حل جسے کشمیری بھی قبول کرنے کو تیار ہوں۔