خبرنامہ

کشمیر میں خوبصورتی کاخون۔۔۔اسداللہ غالب

خون جواں بھی ہوتا ہے،گرم بھی ہوتا ہے، مگر خوبصورت بھی ہوتا ہے۔ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے برہان مظفر وانی کو ایک نظر دیکھ لیجئے، وہ ایک نوخیز کلی کے مشابہ ہے، اس کی آنکھوں میں مستقبل کے سہانے خواب سجے ہیں اورا سکے باریک باریک ہونٹوں کا طلسم جنگلوں کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔ اس کا اکہرا بدن کسی ہرن کی مانند ہے، کون ہے جواس مجسم خوبصورتی کا خون کرنے کا خیال بھی ذہن میں لائے، بھارت کا این ڈی ٹی وی اس کے بارے میں دس حقائق بتانے کے بعد لکھتا ہے کہ آج تک اس نے بھارتی فوج پر کوئی حملہ نہیں کیا ۔ تو پھرا س کاجرم کیا تھا ، صرف یہ کہ وہ سوشل میڈیا پر سرگرم عمل تھا، ایک اسکول ٹیچر کا بیٹا ، سوشل میڈیا پر کونسی قیامت کھڑی کر سکتا ہے، یہ تو اس بھارتی قصاب فوجی کی رائفل کی نالی ہی جانتی ہے جس نے ا سکے چھریرے بدن کو چھید کر رکھ دیا۔بھارتی قابض فوج نے ا سکے جنازے پر پابندی لگا دی اور علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا مگر اس کے پرستار دیوانہ وار گھروں سے نکلے، ایک ٹھٹھ لگ گیا، جنازہ کون روک سکتا تھا مگر بھارتی فوج نے خون کی ہولی کھیلنے کا شوق پورا کیا، اندھا دھند گولی چلائی، اکیس لاشیں تڑپیں، سوسے زائد لوگ زخمی ہوئے، امریکہ میں چنداموات واقع ہوئیں، ساراامریکہ سوگ میں ڈوب گیا اور صدر امریکہ بھی دعائیہ تقریب میں شرکت کے لئے موقع پر پہنچ گئے۔اور ادھر کشمیر میں خون خاک نشیناں تھا ، رزق خاک ہوا۔
کیا برہان مظفر وانی گھس بیٹھیا تھا، کیا وہ لشکر طیبہ کا تربیت یافتہ تھا، کیا اس نے مظفر آباد میں ذکی الرحمن لکھوی سے جہاد کا درس لیا تھا یا مرکز قادسیہ چوبرجی لاہور میں حافظ محمد سعید کی شعلہ فشاں تقریریں سنیں تھیں۔کیا وہ آئی ایس آئی کا ایجنٹ تھا۔ بالکل نہیں ، ایساکوئی الزام اس پر نہیں۔ میں یہاں بھارت کی نہیں، پاکستان کے ایک بزعم خویش نامور کالم نویس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں جس نے لکھا کہ کشمیر کے قبرستانوں میں دفن ایک لاکھ مجاہدین کی قبروں کے سرہانے پتھروں پر جو نام پتے درج ہیں ، وہ سب پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ الزام تو بھارتی فوج بھی نہیں لگاتی جو اس ننگ ملت کالم نویس نے لگا دیا۔ اور برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد تو کسی کو بھی شک نہیں ہو سکتا کہ کشمیر کی تحریک آزادی میں پاکستان کا بھی کوئی عمل دخل ہے، کشمیری جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے پاکستان پر انحصار کر لیا تو وہ بھارت کی محکومی سے کبھی نجات نہیں پا سکیں گے۔کشمیری نوجوان توا سوقت حرکت میں آئے تھے جب مشرقی یورپ میں تبدیلی کی تیز رفتار ہوائیں چلیں، دیوار برلن ٹوٹ گئی اور مشرقی یورپ پارہ پارہ ہو گیاا ور بالاخر سووئت روس کا شیرازہ بھی بکھر گیا، یہی وہ و قت تھا جب کشمیریوں نے بھی اپنے زور بازو پر انحصار کرنے کی ٹھانی، فلسطین کی طرز پر یہاں بھی انتفاضہ کا آغاز ہوا، بھارت کی فوج ا سوقت ستر ہزار تھی جو دیکھتے ہی دیکھتے سات لاکھ سے تجاوز کر گئی ،اس لئے کہ مقبوضہ کشمیر کا ہر گھر آزادی کے مورچے میں تبدیل ہو گیا اور بھارتی فوج نے جہاں گولے بارود سے تحریک حریت کو دبانے کی کوشش کی، وہاں گینگ ریپ کے گھناؤنے جرائم کا بھی ارتکاب کیا،بھارتی فوج کا خیال تھا کہ ایک طر ف وہ کشمیریوں کی نسل کشی کرے، دوسری طرف ان کی نسل بدل کر رکھ دے۔دنیا میں بہت جنگیں ہوتی رہی ہیں ، نسل کشی بھی ہوتی رہی مگر نسل بدلنے کا خیال صرف بھارتی فوج کو آیا ،ا س پر کسی اور نے احتجاج نہیں کیاسوائے ایک بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے کے، جس نے گینگ ریپ کی شکار کشمیری خواتین کا نوحہ لکھا۔ پاکستان کے ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے امن کا پرچم سر بلند کیا اور کشمیر میں فائر بندی ہو گئی تو بھارت کو پیش کش کی گئی کہ جو خواتین گینگ ریپ کا شکار ہو کر نفسیاتی مریض بن چکی ہیں ، ان کی بحالی کے لئے پاکستان مدد کر سکتا ہے، تفو بر تو اے چشم گردوں تفو! ایک فوجی ڈکٹیٹر کو کشمیری خواتین کی مدد کا خیال آیا بھی تو کیا ندرت خیالی کا نمونہ پیش کیا گیا۔یہ فوجی ڈکٹیٹر ایٹمی اسلحے سے لیس تھا، کیا اس کے بس میں ، بس یہی کچھ تھا۔
بر صغیر میں کشمیر ایک شعلہ جوالہ ہے، اس کی وجہ سے بار بار جنگ چھڑ چکی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل میں ایٹمی جنگ نہ چھڑ جائے مگر اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کا خیال کسی کو نہیں آیا، آتا بھی ہے تو صرف یہ کہ پاکستان کشمیر کو بھول جائے، کیا یہودیوں نے فلسطین کو بھلا دیا تھا ، کیا امریکہ نے افغانستان کو ، عراق کو بھلا دیا تھا، کیا قذافی کے لیبیا کو دنیا نے بھلا دیا تھا، اور کیا اب کوئی بشارا لاسد کے شام کو بھولنے کے لئے تیار ہے۔او ر تو اور یوکرین کو کسی نے نہیں بھلایا۔تو کشمیر کوکیسے بھلا دیاجائے۔
کشمیر پاکستان کے لئے شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے، یہ پاکستان سے ملحق مسلم اکثریتی ریاست ہے،ا سے برصغیر کی آزادی کے فارمولے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھامگر بھارت نے ا س پر جارحانہ قبضہ جما لیا۔ اس نے کشمیر کے قدرتی وسائل پر بھی قبضہ جمالیا ، جس کے نتیجے میں پاکستان پانی سے محروم ہو کر بنجر ہوتا جارہا ہے۔
کشمیر کی وجہ سے بھارت ا ور پاکستان کے مابین اسلحے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، دونوں ملکوں کے عوام فاقوں کا شکار ہیں مگر ایٹم بم بن رہے ہیں ا ور میزائل بن رہے ہیں، اب سیارے چھوڑے جا رہے ہیں، انسان کا پیٹ خالی ہے ا ور اسلحہ خانوں کا پیٹ اپھارے کا شکار ہے۔یہ سب بھارتی ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے جو کشمیرکا مسئلہ نہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرتا ہے، نہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے، اس کے دماغ پر مہا بھارت کا بھوت سوار ہے۔اور وہ کشمیر تو کیا، پاکستان کو بھی پر کاہ کے برابر اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں، اورادھر ہم ہیں کہ ایک دوسرے کو لتاڑکر فاتح سومنات کہلوانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کشمیر سے غافل ہے تو کیا ہوا، سارا کشمیر آج سراپا احتجاج ہے، کرفیو کی پابندی کو کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں، انٹرنیٹ ا ور ٹیلی فون کی سروس بند ہے اور ہندووں کی مقدس تریں امرناتھ یاترا بھی بند پڑی ہے۔
کیا یہ استصواب نہیں، کیاا س سے کشمیریوں کی رائے سامنے نہیں آ گئی۔
کشمیر خوبصورت ہے،کشمیر کے بیٹے خوبصورتی میں ثانی نہیں رکھتے، ان کاخوبصورت خون بھارتی سنگنیوں کی زد میں ہے۔