خبرنامہ

کشمیر کی بندر بانٹ اور رب کعبہ سے دعا

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کشمیر کی بندر بانٹ اور رب کعبہ سے دعا

وزیراعظم نے لندن میں ایک بار پھر کشمیر کی ثالثی کا ذکر چھیڑا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ساٹھ پینسٹھ سال میں تین جنگیں لڑ کے دیکھ لیا ہے، ان سے کچھ نہیں ملا، اب اس مسئلے کے حل کے لیے ثالثی کا تجربہ کر کے دیکھ لینا چاہیے۔
ثالثی کا سیدھا مطلب ہے بندر بانٹ!!
لندن کے ماحول میں پتا نہیں کیا الرجی ہے کہ وزیراعظم نے امریکہ جاتے ہوئے بھی یہیں پرکشمیر میں امریکی مداخلت کی بات کی تھی تا کہ یہ مسئلہ حل کیا جا سکے۔ اس پر بھارت بہت تلملایا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، اس میں کسی غیر کو مداخلت کی جرات کیسے ہوگئی۔ بھارت نے یہ بھی کہا کہ شملہ سمجھوتے کی روسے کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ مسئلہ ہے۔ اس لحاظ سے بھی تیسرے فریق کو مداخلت کا حق حاصل نہیں۔
یہ علم تو وزیراعظم کو ہو گا کہ کیا امریکہ یا برطانیہ نے انہیں کوئی ایسی پیشکش کی ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کرانے میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں، امریکہ کا تو کھلا اعلان یہ ہے کہ برصغیر کے جھگڑے دوطرفہ بات چیت سے پر امن طور پرحل کیئے جائیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے جولائی 1999 میں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلان واشنگٹن میں کہا تھا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیئے ذاتی کردار ادا کریں گے۔ تین ماہ بعد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ گیا اور پھر کسی نے کلنٹن صاحب سے نہیں پوچھا کہ آپ کا ذاتی کردار کہاں گیا۔
وزیراعظم نے ماضی میں ہونے والی جنگوں کو نتیجہ خیز قرارنہیں دیا۔ وہ ایک کاروباری پس منظر کے حامل شخص ہیں، اس لیے نفع نقصان کا حساب بہی کھاتوں کی زبان میں کرنے کے عادی ہیں لیکن اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ 1948 میں کشمیرکا جو جہاد شروع ہوا، وہ اس قدرنتیجہ خیز تھا کہ مجاہدین سری نگر کے ہوائی اڈے تک پہنچ گئے تھے۔ بھارت اور کشمیر کے مابین یہ ہوائی اڈہ ہی واحد رابطہ تھا، اس لیے بھارتی وزیراعظم نہرو پھولے ہوئے سانس کے ساتھ سلامتی کونسل میں جا پہنچے اور سیز فائر کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔
1965 میں کشمیر کے حصول کے لیئے آپریشن جبرالٹر شروع کیا گیا اور پاکستانی افواج برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے اکھنور کے دروازے پر دستک دے رہی تھیں کہ بھارت نے بین الاقوامی بارڈر پر حملہ کردیا، اس کا خیال تھا کہ وہ لاہور پر قابض ہو جائے گا، اپنے بکتر بند ڈویژن کے ہلے سے پسرور، چونڈہ ظفر وال کو روندتے ہوئے جی ٹی روڈ کو گوجرانوالہ سے کاٹ دے گا لیکن سترہ دنوں کے بعد بھارتی لالے کی چیں بول گئی، پاکستانی فوجیں کھیم کرن سے پار جانے کے لیئے پر تول رہیں تھیں مگر بھارتی لالہ ایک بار پھر جنگ بندی کی اپیل لے کر سلامتی کونسل میں جانے پرمجبور ہو گیا۔ 1971 میں لڑائی کشمیر کے لیے نہیں تھی، مشرقی پاکستان کوعلیحدہ کرنے کی سازش کا حصہ تھی جس میں بھارت کو کامیابی مل گئی، اس لحاظ سے یہ جنگ بھی بدقسمتی سے نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ میں کارگل کا ذکر نہیں چھیڑتا، یہ ایک نازک رگ پر ہاتھ رکھنے والی بات ہے لیکن بھارت کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے کہ اس میں دشمن کے مرنے والوں کے لیئے تابوت کم پڑ گئے تھے اور بھارتی جرنیلوں اور اعلی فوجی افسروں کا کورٹ مارشل ہوا۔ جنگ کا اور نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ امریکہ نے اس بار خود مداخلت کی، نواز شریف کو واشنگٹن طلب کیا، اور پاکستانی مجاہدین کو کارگل سے واپسی کے لیے مجبور کیا۔ سیاچین میں بھارت نے جارحیت کی لیکن جس مقام پر پاکستان نے اسے للکارا، بھارت اس سے ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکا۔ سیاچین اور کارگل کی جنگوں نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا اور دنیا کو احساس دلایا کہ کشمیر کے تنازعے کی وجہ سے برصغیر میں ایٹمی تباہی کی نوبت آسکتی ہے۔ اس امکان کو روکنے کے لیئے ٹریک ون، ٹریک ٹو، اور معلوم نہیں کیا کیا جتن کیے گئے، اس سلسلے میں ایک مہم کی کمان ہمارے دوست عطا الحق قاسمی کو سونپی گئی ہے، وہ امن کی آشا کو پروان چڑھانے کے لیے پاک بھارت قلم کاروں، دانشوروں کی ایک دوستانہ محفل الحمرا میں سجانے کے لئے بھاگ دوڑ کررہے ہیں، اللہ کرے اس محفل میں کشمیرکا مسئلہ حل ہو جائے۔ امریکہ اور برطانیہ تو ثالثی کے لیئے تیار نہیں ہیں، قاسمی صاحب کی ثالثی سے کشمیر یوں کا کام بن جائے تو ہم ان کو ڈھیروں دعائیں دیں گے۔
وزیر اعظم جب ثالثی کی بات کرتے ہیں تو وہ اپنے فارن آفس سے ضرور صلاح مشورہ کر لیا کریں کیونکہ جب آپ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے خودہی ہٹنے کا اشارہ دیں گے تو بھارت پہلے ہی ان کو ردی کی ٹوکری میں پھینک چکا ہے۔
ثالثی کا مطلب کشمیریوں کو زندہ درگور کرنا ہے۔
میرا لب ولہجہ بعض حلقوں کو ناگوار گزرتا ہے، اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم لڑکھڑانہ جائیں، اور میرے قلم میں لکنت نہ آجائے۔ اس لیئے قارئین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میری ایک دعا میں شریک ہوکر آمین کہیں۔
زندگی کے اس طویل سفر میں میرے کچھ نظریات پختہ اور مستحکم ہوگئے ہیں، میرے گھر کا پس منظر میرے اساتذہ کی شفقت اور سب سے بڑھ کرمحترم ڈاکٹر مجید نظامی کی رہنمائی میں بعض نظریات سے دست بردار نہیں ہوسکتا، ان کے اظہار میں کبھی کبھار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دعا کے لیے میں نے محمود شام کی ایک نظم کا سہارا لیا ہے۔ مجھے جب بھی ٹھوکر لگتی ہے تو مجھے ایک نیا سبق ملتا ہے۔ اور میں نئے حقائق کو پرکھنے کی کوشش اورجستجو میں مصروف رہناچاہتاہوں۔
میری دعایہ ہے
اس سے پہلے کہ شب تار کو دن لکھنے لگوں
اس سے پہلے گھٹن کو بھی سکوں لکھنے لگوں
اس سے پہلے کہ میں حالات کا دم بھرنے لگوں
اس سے پہلے کہ ستم گر کا بھرم رکھنے لگوں
رب کعبہ مرے ہاتھوں سے قلم لے لینا
انگلیاں شل ہوں مری جسم سے دم لے لینا
اس سے پہلے کہ عقیدوں کی تجارت سیکھوں
اس سے پہلے کہ میں طاقت کی عبادت سیکھوں
اس سے پہلے کہ حقائق کی خیانت سیکھوں
اس سے پہلے کہ تعلق میں رذالت سیکھوں
رب کعبہ مرے ہاتھوں سے قلم لے لینا
انگلیاں شل ہوں مری جسم سے دم لے لینا
اس سے پہلے کہ میں الفاظ کی حرمت بیچوں
فکر کا سودا کروں، ذات کی عزت بیچوں
اس سے پہلے کہ میں ادراک کی دولت بیچوں
رب کعبہ مرے ہاتھوں سے قلم لے لینا
انگلیاں شل ہوں مری جسم سے دم لے لینا
میری یہ دعا، میرے دل کی آواز ہے، حکمرانوں والا سیاسی نعرہ ہیں کہ اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔ (یکم نومبر 2013ء)