خبرنامہ

کشمیر کی کربلاور وزیر اعظم کا عزم..اسداللہ غالب

کشمیر کے حالیہ70ن اس کے پچھلے انہتر برس پر حاوی ہو گئے ہیں، ایک کربلا کا منظر ہے، چھوٹی سی خوبصورت وادی جسے بھارتی فوج نے اپنے بوٹوں تلے کچل رکھا ہے، میں اپنے اخبارات میں فوجی بوٹو ں کے کارٹون دیکھتا ہوںیا ان کا تذکرہ پڑھتا ہوں مگر کبھی کسی اخبار نے کشمیر کو بھارتی بوٹوں تلے کراہتے نہیں دکھایا۔یہ میرا اپنے میڈیا سے گلہ ہے مگر الزام نہیں ہے، بس سستی ہے ، لاتعلقی ہے اور بے اعتنائی ہے ، مگر یہ سارے گلے وزیر اعظم دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لئے نیویارک جا رہے ہیں اور انکے جانے کا پہلا فیض یہ ہے کہ مودی نیویارک نہیں جا رہا ، شاید وہ کشمیر جائے ا ور موقع پر موجوداپنی جارح افواج کو کچھ ظلم اور ڈھانے کے احکامات جاری کرے۔
پچھلی عید کو یعنی چھوٹی عید کو کشمیریوں نے ایک بڑی قربانی دی، ایک نوعمر ، بلکہ کم سن برہان وانی کی قربانی پیش کی، وانی نے کبھی بندوق نہیں ا ٹھائی مگر وہ آزادی کے ترانے گاتا تھا، جنگلوں کوسناتا اور انکی گونج کشمیری نوجوانوں کو تڑپا دیتی، بھارت کے لئے یہ سب کچھ برداشت سے باہر تھا کہ کوئی اس کے زیر تسلط علاقے میں آزادی کا نعرہ بلند کرے، خالصتان کے نوجوانوں نے آزادی کا نعرہ لگایا تو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سکھوں کے متبرک تریں مقام دربار صاحب امرتسر پر ٹینک چڑھا دیئے اور سنت بھنڈرانوالہ کی آواز کچل ڈالی۔بھارت کے طول وعرض میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور بھارت ہر جگہ فاشزم کا مظاہرہ کر رہا ہے ، جنہیں اپنے عوام کہتا ہے، انہیں گولیوں سے چھلنی کرتا ہے، تو کیا سینوں پر گولیاں کھانے والے بھارتی غلامی کو قبول کر پائیں گے، نہیں ، ہر گز نہیں۔
کشمیر میں وانی کی شہادت کو سو دن ہو گئے، ا سکی ایک شہادت کے بعدایک سوکشمیری مزید شہادت کی راہ پر چل دیئے، شہادتوں کی فصل پک چکی ہے ، اب یہ بر گ و بار لانے و الی ہے، کشمیریوں کے لئے اس کا پھل کھانے کا وقت قریب آ ہی گیا ہے ۔
اور میں کشمیریوں کے خون کا شاہنامہ لکھوں گا، اس خون کی حرارت کو اپنی تحریروں میں سموؤں گا،میں حنائی رنگت کے خون کی کاسہ لیسی کروں گا، مجھے موقع ملے تو میں بھی کسی ایٹمی میزائل کو سینے سے باندھ کر جموں چھاؤنی پر جا گروں مگر میراقلم گواہی دیتا ہے کہ کشمیری اپنے خون سے اپنی آزادی کا چارٹر لکھ رہے ہیں۔اور آزادی کے جھونکے ان کی وادیوں میں اور پہاڑی چوٹیوں پر مستانہ وار جھوم رہے ہیں۔
وزیر اعظم یو این او کے اجلاس میں شرکت کے لئے عازم سفر ہوئے ہیں ،ا ن کے اس عزم نے مودی کو پہلے ہلے میں پچھاڑدیا ہے، بھارت سے خبر آئی ہے کہ مودی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا، وہاں محترمہ سوشما سوراج جائیں گی، حضرت مودی میں ہمت نہیں کہ ساری دنیا کی لعنت پھٹکار کا سامنا کر سکے،اس کے پاس کشمیر میں جبر و ستم کا کوئی جواز ہوتا تو وہ ضرورنیویارک جاتا، سوشما سوراج کو اس نے قربانی کی بھیڈ بنایا ہیا ورا قوام عالم کے طعنے سننے کے لئے ایک خاتون کو جنرل اسمبلی کے ارکان کی تنقیدکے سامنے جھونک دیا ہے ، بڑا دشمن بنا پھرتا ہے۔
وزیر اعظم نوازشریف نے یو این او کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے بھر پور مشاورت کی ہے، وہ آرمی چیف س جنرل راحیل ؂شریف سے بھی ملے اور کشمیر میں بھارتی جارحیت کے ایک ایک پہلو پر بریفنگ لی، انہوں نے کشمیری قیادت کو بھی اعتماد میں لیا، مظفر آباد گئے اور کشمیر کیس پر مشاورت کا عمل مکمل کیا ، انہوں نے جو اعلانات کئے ہیں ، وہ خاصے حوصلہ افزا ہیں۔کہتے ہیں کہ کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہو کررہے گا، طاقتور ممالک بھی حریت کی تحریک نہیں دبا سکتے۔بھارت جتنی مرضی فوج لا کر کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑ لے، فتح آخر حق کی ہو گی، ہر فورم کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔عالمی برادری کو خاموشی توڑناپڑے گی۔مسئلہ کشمیر منطقی انجام تک اپہچائیں گے۔ یہ سب کچھ میرے اخبار نوائے وقت کی شہہ سرخیوں میں چھپا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے احساسات ا ور جذبات کو چھپا نہیں رہنے دیا، دل کی بات زبان پر لانا ان کا فرض منصبی ہے۔اور مجھے یقین ہے کہ اس سے کشمیریوں کو حوصلہ ملے گا، ان کے نعرے زور پکڑیں گے، کیا چاہئے، آزادی، کیا مانگیں آزادی! برہان وانی نے کشمیریوں کو یہی ایک نعرہ دیا اورا س پر کشمیری متحد دکھائی دیتے ہیں، کشمیری قیادت کو بھی اس نعر سے مفر نہیں ، وہ ا س نعرے کو پس پشٹ ڈالنے کاسوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ نعرہ ہر کشمیری کے دل کی دھڑکن بن گیاہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ امریکہ نے اس موقع پر کشمیریوں کی پشت میں چھرا گھونپا ہے،اس کے ایک ترجمان نے کل ہی کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر امریکی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، پاکستان ا ور بھارت کو یہ مسئلہ دو طرفہ بنیاد پر حل کرنا ہو گا۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے ایک اسامہ بن لادن سے نبٹنے کے لئے عالمی فورس بنائی اور افغانستان اور عراق کاکچومر نکال دیا، بھلا اس نے اسامہ سے براہ راست بات کر کے اپنا مسئلہ حل کیوں نہ کرایا،ا سامہ تو ایک فرد تھا جبکہ بھارت ایک ملک ہے اور کشمیر میں کھلے عام ریاستی دہشت گردی کا مجرم ہے۔اور اقوام متحدہ گواہ ہے کہ کشمیر کامسئلہ استصواب رائے سے طے ہونا ہے، اس کا فیصلہ خود کشمیریوں کو کرناہے کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اور کشمیریوں نے اپنا فیصلہ مخفی نہیں رہنے دیا،و ہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں۔ پاکستان کے یوم آزادی پر گھروں میں چراغاں کرتے ہیں ا ور بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔بھارتی وفود سے ، بھارتی حکام سے، بات چیت گورا نہیں کرتے، تو فیصلہ ہو چکا ، اب امریکہ اس کے علاوہ کیا فیصلہ چاہتا ہے ، بھارت کی پیٹھ ٹھونکنے کو امریکہ نے اپنے ایمان کا حصہ کیوں بنا لیا۔بھارتی افواج دن دیہاڑے کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہی ہیں،اس پر آ نکھیں کیوں بندکر رکھی ہیں، وزیر اعظم نواز شریف نے اسی پس منظر میں کہا ہے کہ عالمی برادری کو خاموشی توڑنا پڑے گی تاکہ کشمیریوں کے ہاتھ پاؤں سے آزادی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں۔
آیئے، کشمیریوں کے شاہنامے لکھیں، ان کی جد وجہد آزادی کو خراج تحسین پیش کریں۔برہان وانی کے جذبوں کو سلام! برہان وانی کے رستے پر چلنے والے کشمیری نوجوانوں کا سلام !
کشمیر میں ہر صح جو سورج طلوع ہوتا ہے،ا س کے ماتھے پر برہان وانی کا نام لکھا ہے اورا سکی کرنوں سے برہان وانی کاخون ٹپکتا ہے، یہ خون کشمیریوں کا لہو گرما رہا ہے۔
نئے دور میں آزادی کا دوسرا نام برہان وانی ٹھہرا۔