خبرنامہ

کشمیر کے ساتھ یوم یک ج،………اسداللہ غالب

کشمیر کے ساتھ یوم یک ج،………اسداللہ غالب

میرے قلم کی نوک سے خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔
مجھے خوف لاحق ہے کہ کہیں کشمیر کا نام لینے پر مجھے حافظ سعید نہ بنا دیا جائے۔ ان کی طرح مجھے نظر بند نہ کر دیا جائے۔ میری زبان اور میرے قلم پر پہرے نہ بٹھا دیئے جائیں لیکن جب میرے مرشد مجید نظامی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے گرم جوشی دکھاتے تھے اور کسی فرعون و قت سے نہیں ڈرتے تھے تو میں کس سے ڈروں گا کیوں ڈروں گا۔ ڈرتے تو حافظ سعید بھی نہیں وہ دو روز پہلے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی ایک باوقار تقریب میں تشریف لائے، انہیں ورلڈ کالمسٹ کلب نے مدعو کیا تھا، مجھے نوائے وقت کے دیرینہ اور نظریاتی ساتھی دلاور چودھری نے ورلڈ کالمسٹ کلب میں شمولیت کی دعوت دی تھی تو میںنے بے ساختہ کہا تھا کہ میں آپ کے ہر نیک کام کے ساتھ ہوں اور پیش پیش ہوں۔انہوںنے یوم یک جہتی کشمیر کے سلسلے میں لوگوں کا لہو گرمانے کے لئے حادظ محمد سعید کو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے تاریخیٰ ایوان میں مدعو کیا۔ وہاں جذبوں والے شاہد رشید نے میزبانی کی اور حافظ صاحب نے مطالبہ کیا کہ پانچ فروری کو وزیراعظم اپنی کابینہ کے ساتھ اسلام آباد میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے دھرنا دیں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑیںکہ بھارتی فوج ستر برس سے کشمیریوں پر جبر اور ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ اس تجویز پر عمل ہوتا ہے یا نہیں مگر حافظ سعید اگر یہی دھرنا دینے کی کوشش کریں گے تو انہیںدھر لیا جائے گا۔ کون جانے کہ کشمیر کا نام حافظ سعید لیں تو یہ جرم بن جاتا ہے اور اگر قائداعظم فوج کو حکم دیں کہ کشمیر کو بھارتی جارحیت سے آزادکراﺅ یا بھٹو صاحب کہیں کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک لڑیں گے یا محترمہ بے نظیر کنٹرو ل لائن پر نعرءلگائیں کہ آزادی آزادی یا میاں نواز شریف اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی فوج کے جبر کا پردہ چاک کریں تو ان شخصیات کو کشمیریوں کا ہمدرد کہا جاتا ہے اور حافظ سعید کے بارے میں سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہیں جو پاکستان نے ناز نخرے سے انہیں پال رکھا ہے، افسوس! کہ حافظ سعید کے بارے میں ہمارے کچھ رہنما بھارت کے لب و لہجے میں بات کرتے ہیں اور شرماتے بھی نہیں ، ہچکچاتے بھی نہیں۔ گزشتہ برس حافظ سعید نے صرف یہ اعلان ہی کیا تھا کہ سال بھر کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا ظہار کریں گے تو انہیں نو ماہ کے لئے نظر بند کر دیا گیا۔ دوسری طرف کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی آواز بلند کرنے والے سید علی گیلانی کو تین روز قبل شوپیاںمیں پانچ شہید کشمیریوں کے جنازے میں بھی شرکت کی اجازت نہ دی گئی ، خاردار تاریں بچھا کر ان کا راستہ بند کر دیا گیا، بوڑھا اور بیمار علی گیلانی روتا رہا، چیختا رہا، اس کے قلب و جگر فگار تھے، بھارتی گولیوںنے کشمیری نوجوانوں کے سینے ہی چھلنی نہیں کئے اس بوڑھے حریت پسند لیڈر کا سینہ بھی چھلنی کر کے رکھ دیا ہے، پوری حریت قیادت کئی ماہ سے گھروں میں نظر بند ہے، یاسین ملک کی بیگم اور بیٹی پاکستان میں ہیں ، تین سال سے ا نہیں آپس میں ملنے تک نہیں دیا گیا ۔ جبکہ کشمیری نوجوان خالی ہاتھ سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکلتے ہیں ، وہ ایک ہی نعرہ لگاتے ہیںکیا چاہئے! آزادی! آزادی! تو ان پر پہلٹ گنوں کا فائر کھول دیا جاتا ہے، اس گن کا استعمال عالمی سطح پر ممنوع ہے مگر کشمیر میں بھارتی فوج نے تمام عالمی قواعد کو بوٹوں تلے کچل دیا ہے اور پیلٹ گنوں سے کشمیریوں کی آنکھوں پر نشانہ لگایا جاتا ہے جس سے سینکڑوں لوگ بینائی کھوچکے ہیں اور ان میں وہ معصوم شیر خوار نونہال بھی شامل ہیں جو خواتیں نے گود میں اٹھائے ہوتے ہیں۔
سید علی گیلانی کی ایک تازہ ترین وڈیو جو انٹرنیٹ پر وائرل ہو چکی ہے، اس کے مطابق ستر برس میں بھارتی فوج چھ لاکھ کشمیروں کو شہید کر چکی ہے یہ تو سیدھی سیدھی نسل کشی کے مترادف ہے ،فلسطیں میں اسرائیل نے تین نسلوں کا خاتمہ کر دیا ،کشمیر میں بھارتی درندہ صفت فوج دو نسلیں قبروںمیں اتار چکی ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ اس کے لئے وہ لاکھوں کی تعداد میں ہندو¶ں کو جموں کے علاقے میں آباد کر رہی ہے تاکہ اگر کسی وقت استصواب ایک مجبوری بن جائے توا سکا نتیجہ بھارت کے حق میں نکلے۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ کشمیریوں کے اس قتل عام پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ قائداعظم کے بقول کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ پاکستان میں کاف لا حرف کشمیر کی علامت ہے۔ کشمیر سے چناب اور جہلم کے دریا بھی پاکستان کی طرف آتے ہیں جن کا پانی بھارت نے مختلف ڈیم بنا کر روک لیا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان پانی کی کمیابی سے بنجرا ور ریگستان میں تبدیل ہو جائے اورا سکی زراعت برباد ہو جائے اور یہ سستی ہائیڈل بجلی پیدا کرنے کے قابل نہ رہے۔
تنازعہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں کئی مرتبہ جنگ چھڑ چکی ہے مگر اب خدشہ یہ ہے کہ کوئی چنگاری بھڑک اٹھی تو کہیں ایٹمی جنگ کی نوبت نہ آجائے۔ یہ خطے کی بدقستی کا باعث ہو گی کیونکہ اس جنگ میں کسی کو فتح نہیں مل سکتی ، بلکہ پورا خطہ بھسم ہو کر رہ جائے گا، اس خطرے سے بچنے لے لئے پاکستان پورے تحمل سے کام لے رہا ہے جبکہ بھارت ہمہ وقت چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے،۔ وہ آئے روز ورکنگ باﺅنڈری اور کنٹرول لائن پر اندھا دھند فائر کھول دیتا ہے جس سے پاک فوج کا بھی نقصان ہوتا ہے ا ور سرحدی دیہات بھی متاثر ہو رہے ہیں ، ہم روز ان شہدا کے جنازے پڑھتے ہیں۔ بھارت ہمارے تحمل کو ہماری کمزوری پر محمول کر رہا ہے، ہمارے دفاعی اورخارجہ ماہرین کو کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہیے کہ بھارت اپنی شیطنت سے باز رہے۔ پاکستان ا ور بھارت کے درمیان کئی معاہدے ہیں جن کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کیا جاسکتا ہے، سلامتی کونسل کی قراردادیں جن میں استصواب کا صول طے کیا گیاہے، تاشقند اور شملہ معاہدوں کی بھارت یہ تشریح کرتا ہے کہ کشمیر کامسئلہ دو طرفہ ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ وہ مذاکرات کی میز کا رخ بھی نہیں کرتا۔ بھارت بڑی عیاری سے کشمیر کے نام لیوا حافظ سعید کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہاہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ باقی لوگ بھی اس پروپیگنڈے سے ڈر کر کشمیر کا نام لینا چھوڑ دیں ۔ بھلے پاکستان میں کوئی کشمیر کا نام نہ بھی لے مگر بھارت ان کشمیریوں کا کیا کرے گا جو ہر سانس کے ساتھ آزادی مانگ رہے ہیں۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی سے متاثر ہو کر بھارت میں فری آسام ، فری ناگا لینڈ اور فری خالصتان کے نعرے لگ رہے ہیں ۔ بھارت کشمیریوں کو دبانا چاہتا ہے مگر اس کے کئی صوبے اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ بھارت کوکشمیر میں ظلم و ستم گھاٹے کا سودا ثابت ہوا ہے، اب نہ صرف کشمیر کی آزادی کا دن قریب آ رہا ہے بلکہ بھارت کے مزید ٹکڑے ہونے کی نوبت بھی آ گئی ہے۔