خبرنامہ

کمیٹی کا گھنٹہ گھر

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کمیٹی کا گھنٹہ گھر

کمیٹی بڑی خوش قسمت ہے کہ ادھر اس کی تعمیل ہوئی، ادھر وزیراعظم نے اسے وقت دے دیا۔ ورنہ وزیر اعظم کے پاس پارلیمنٹ کے لیے چھ سات ماہ تک ٹائم نہیں تھا، اپنے وزرا کے لیے ٹائم نہیں ہوتا، پہلے دور میں انہوں نے امریکی سفیر کوکئی ماہ تک انتظار کروایا۔ کمیٹی پر وزیر اعظم نے ایک مہربانی اور کی ہے کہ روزانہ ایک گھنٹہ دینے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔
کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر کے منصب پر عرفان صدیقی کی تقرری عمل میں لائی گئی ہے۔ وہ حکومت اور کمیٹی کے ارکان کے مابین رابط کار کے فرائض ادا کریں گے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمیٹی کے دیگر ارکان کے لیے حکومت کے پاس وقت نہیں ہے۔ طالبان کے ساتھ کون رابطہ کرے گا، اس کی کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی، فی الحال ٹی وی چینل کے ذریعے طالبان کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اپنی شوری کا اجلاس بلائیں اور مذاکرات کے حق میں فیصلہ کر کے اپنی کمیٹی تشکیل دیں۔ دیکھئے طالبان رومل کے لئے کیا چینل استعمال کرتے ہیں، چند ایک دھماکے کرتے ہیں یا امریکہ حسب دستور مذاکرات کو سبوتاڑ کرنے کے لئے ڈرون مارتا ہے یا طالبان کی کوئی ٹیم نذاکرات کے لیے کمر بستہ ہو کر اسلام آبا د پہنچ جاتی ہے۔ درمیان میں بھارت بھی ہے جو شرارت کیے بغیر نہیں رہ سکتا، اسے پاکستان میں امن ایک آنکھ نہیں بھاتا، اس کے را کے دہشت گردایجنٹ بھی کھل کھیل سکتے ہیں۔
طالبان کے جواب آنے تک کمیٹی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہنے پر مجبور ہے۔ یہ نکتہ ہر ایک کی سمجھ میں آتا ہے کہ کمیٹی کے پاس کوئی آپشن نہیں، وہ طالبان اور امریکہ کے ردعمل کی محتاج ہے۔ طالبان اس کے ماتحت تو ہیں نہیں کہ اچھے بچے بن کر اس کے حضور پیش ہو جائیں اور پوچھیں کہ کیا حکم ہے میرے آقا!امریکہ، گوتھکا ماندہ ہے اور ڈرون حملوں کے مضمرات پرسخت پریشان ہے مگر اس کی فطرت تو تبدیل نہیں ہوئی۔ محاورہ ہے کہ کتے کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوتی۔ فی الحال امریکہ نے کہہ دیا ہے کہ مذاکرات کاعمل پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے مگر امریکہ نے پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کا فیصلہ کرلیا تو اسے روکنے کے لئے کمیٹی کے پاس کوئی میزائل نہیں۔
وزیراعظم نے کہہ تو دیا کہ اگر دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا فیصلہ ہوا تو پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔ یہ محض ایک واہمہ ہے فضل الرحمن کہہ چکے کہ امریکی حملے میں کتا بھی مر جائے تو وہ شہید ہے اور منور حسن فرما چکے کہ امریکی فوج کا ساتھ دیتے ہوئے پاک فوج کا جوان یا افسر شہید نہیں کہلا سکتا۔ ان کا تازہ ترین فرمان ہے کہ اسامہ بن لادن لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گا، اس پس منظر میں حکومت نے فوج کوکسی آپریشن میں جھونکا تو دینی جماعتوں کی اکثریت آپریشن کی حمایت نہیں کر سکے گی اور بائیں بازو کی سوچ بھی وہی ہوگی جو مشرقی پاکستان کے فوجی آپریشن پر آج بھی ظاہر کی جاتی ہے کہ فوج نے اپنے عوام پر گولی چلائی اور مظالم کیئے۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے پچھلے سال ہی ہمارے بعض لوگوں کو اعلی ترین سول اعزازات سے نواز ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے فوجی آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ یہ عناصر آج بھی فوج کے خلاف بھی زبانیں استعمال کرتے ہیں،کبھی لاپتا افراد کے معاملے میں، کبھی لال مسجد کے قضیے پر، کبھی بلوچستان میں آپریشن پر، کبھی کراچی میں آپریشن پر۔شمالی وزیرستان کے آپریشن کی یہ کہہ کر بھی مخالفت کی جاتی ہے کہ اس کے لیے امریکہ کا دباؤ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دنیا کی کوئی فوج قبائلی علاقوں سے زندہ نیک کرنہیں آئی۔ کوئی ان علاقوں کو زیر کرسکا۔ ہم تو کشمیر کی کنٹرول لائن کوروتے ہیں لیکن فاٹا اور اس کے پار رہنے والوں نے پاک افغان بارڈر کوبھی تسلیم نہیں کیا، وہ اسے آج بھی ڈیورنڈ لائین کہتے ہیں اور آزادانقل و حرکت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
امن مذاکرات میں ایک فریق وہ بھی ہے جو پچھلے بارہ برسوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بنا ہے، سول اور فوج کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں شہید ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں اپاہج ہو گئے۔ لاکھوں گھرانے اجڑ گئے۔ کوئی ان کے آنسو پونچھنے والا نہیں، کمیٹی کے ایجنڈے پران خاندانوں کا ابھی کوئی ذکر تک نہیں۔ ان سے مذاکرات کون کرے گا، وہ جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیا کیا ہم ا نہیں پس پشت ڈال دیں گے۔
اور ایک فریق پاکستانی عوام بھی ہیں جو بد امنی کی وجہ سے بھوک، باری، مہنگائی اور بدحالی کا شکار ہیں۔ جن کی قسمت میں لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے ہیں۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں لیکن ان کے لیے کہیں نوکری نہیں، اندرونی اور بیرونی سرمایہ کار نے ہاتھ کھینچ لیا ہے، کیا ان کروڑوں لوگوں کے دلوں کی بے ترتیب دھڑکنیں بھی کمیٹی کی ایکو کارڈیو گرام مشین پرنمودار ہو پائیں گی۔ اور کیا ان کی ذہنی جھلاہٹ کا ارتعاش کمیٹی کی سی ٹی اسکین کی فلم پر ظاہر ہو سکے گا۔ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ آخر ہوا کیا کہ حکومتی پارلیمانی پارٹی نے فوجی آپریشن کے حق میں رائے دی، میڈیا نے بھی سخت اور فوری ایکشن کی فضا تیار کی مگر وزیر اعظم نے قبلہ بدل لیا انہیں ایک بار پھر ذہنی نابالغ بلاول بھٹوزرداری کا یہ طعنہ سننا پڑا کہ وہ چرچل بننے کی بجائے چمبرلین کی طرح بھیگی بلی بن گئے اور طالبان کی خوشنودی کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ کمیٹی کے کو آڑ دی نیٹر نے بصد افتخار اعلان کیا ہے کہ ا نہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی آشیر باد حاصل ہے مگر کیسے مان لیا جائے کہ جنہوں نے سرعام کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو طالبان نے شہید کیا، وہ ان سے ہاتھ ملانے کے لیئے تیار ہو گئے ہیں، ہرکوئی کہہ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی بالآخر وزیراعظم کوفوجی آپریشن پراکسائے گی تا کہ حکومت اور فوج ایک سنگین جنجال میں پھنس کر رہ جائیں۔ کئی لوگوں کی زبان سے یہ سننے کوبھی ملتا ہے کہ وزیراعظم سجی دکھا کر کھبی مارنا چاہتے ہیں، اور ان کی اصل منزل فوجی آپریشن ہی ہے۔ کبھٹو نے اکہتر میں کیا کھیل کھیلا تھا۔
کراچی کے حالات بھی حکومت کے لئے پریشان کن ہیں۔ یہ ایک الگ منظر ہے جس کا طالبان یا افغانستان کی صورت حال سے قطعی تعلق نہیں لیکن کراچی کا مسئلہ امن کمیٹی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ لندن سے اچھے اشارے نہیں مل رہے۔مذاکرات اور سفارت کاری گل، دھیما پن، بردباری، سنجیدگی اور راز داری کی متقاضی ہے لیکن کمیٹی کے اعلی حضرت کو آرڈی نیٹر پہلی پریس بریفنگ میں پندرھویں سوال پر جھلاہٹ کا شکار ہو گئے اور یہ کہہ اٹھے کہ اگر آپ لوگ شور کرتے رہیں گے تو میں اٹھ جاؤں گا۔ اور ان کی سیماب صفت طبیعت سے کچھ انداز ہ نہیں ہوسکتا کہ وہ کمیٹی کے گھنٹہ گھر سے کب گھر کی راہ لیں گے۔
کمیٹی کے گھنٹہ گھر کو یہ توفیق یا جرات نہیں ہوئی کہ وہ دہشت گردوں سے یہ کہہ سکیں کہ اللہ کے بندو!خود کش دھماکے تو بند کرو۔ (یکم فروری 2014)