خبرنامہ

کون پاکستان کو چلا رہا ہےََاسداللہ غالب

چوسنی لیڈر شپ کا سرغنہ بلاول بھٹو کہتا ہے کہ ملک وزیر اعظم کے بغیر بھی چل سکتا ہے، بلاول ٹھیک کہتا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اس کے والد زرداری کے بغیر بھی چل رہی ہے، زرداری اپنے وجود کااحسا س دلانے کے لئے پارٹی کے چہیتوں کو کبھی دوبئی بلا لیتا ہے ا ور کبھی لندن۔
کینیڈا کے قادری صاحب اپنی پارٹی کو صرف پاکستان ہی میں نہیں، بلکہ پوری دنیا میں چلا رہے ہیں، ان کا ماٹو ہے، ہر ملک ماست کہ ملک خدائے ماست۔ان کے پاس کینیڈا کا ویزہ ہے جو انہیں ساری دنیا گھمانے کے لئے کافی ہے،ا س ویزے کی برکت سے وہ اسرائیل بھی جاسکتے ہیں۔وہاں قبلہ اول ہے، شاید کبھی قادری صاحب کو اس کا خیا ل آ ہی جاتا ہو گا۔
پنجاب کے ایک ڈائریکٹر اطلاعات ہوا کرتے تھے، انہو ں نے فیس بک پر سوال اٹھایا ہے کہ الطاف لندن میں ہے، واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتا، زرداری بھی بیرون ملک قیام پذیر ہیں، وہ بھی واپسی کا خیال بھول چکے ہیں، اب وزیر اعظم دل کے بائی پاس کامیاب آپریشن کے باوجود واپسی کا کوئی شیڈول نہیں دے رہے اور پھر بھی لوگ طعنہ دیتے ہیں کہ عمران کو سیاست نہیں آتی۔گویا ان لیڈروں کو عمران کی سیاست نے ملک بدری پر مجبور کر دیا ہے حالانکہ الطاف جب بھاگے تھے تو ان کے پیچھے کوئی لٹھ لے کر پڑ گیا تھا، زرداری نے ایک اور لٹھ بردار کو للکارا اور نتیجہ دیس نکالے کی صورت نکلا، نواز شریف کس کے ڈر سے لندن میں براجما ن ہیں ۔ مگر وہ وہیں بیٹھے ہیں اور شہباز شریف، حسین نواز یا مریم نواز شریف کی طرف سے ان کی واپسی کی تاریخ نہیں دی گئی، میری خبر یہ تھی کہ جس روز وہ سانس پھولے بغیرڈیڑھ میل پیدل چلنے لگیں گے تو ڈاکٹر ان کو ہوائی سفر کی اجازت دے دیں گے، یہ تو وزیر اعظم پر منحصر ہے کہ وہ اپنی روائت کے مطابق رمضان کاآخری عشرہ مدینہ شریف گزارنے چلے جائیں ا ور وہاں عید پڑھ کر ایک ا ور عید لاہور میں آکرمنائیں۔
بڑی مہربانی ہے کہ ابھی یار لوگوں نے آرمی چیف کے بیرونی دوروں کو نظر انداز کر رکھا ہے، شاید ان کے ڈر سے یا احترام کے باعث۔ وہ ترکی بھی گئے ، اور اب جرمنی اور چیکو سلواکیہ بھی گئے ہیں مگر ان پر فقرے کسنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔
وزیر اعظم کی بیماری پر چہ میگوئیاں ہوئیں کہ اب قائم مقام وزیر اعظم کون ہے۔ کہتے ہیں پس پردہ مریم نواز شریف کے پاس سارے اختیارات ہیں اورا سحاق ڈار کے ذریعے وہ مملکت چلا رہی ہیں۔اس صغر سنی میں گورننس کی اس قدر مہارت ، اس پر رشک کرنے کو جی چاہتا ہے۔
جماعت اسلامی کے شاید دستور میں لکھا ہے کہ اس کاامیر ملک سے باہر جائے تو قائم مقام جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ سراج الحق عمرے پر گئے ہیں تو برادرم لیاقت بلوچ نے یہ ذمے داری اٹھا لی ہے ا ور اس کے لئے باقاعدہ حلف لیا ہے۔یہ انتظام صرف جماعت اسلامی تک محدود ہے، صرف یہی ایک پارٹی ہے جس کا ایک دستور ہے ا ور اس پر عمل کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان کے آئین میں وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے کی شکل میں کوئی قائم مقام وزیر اعظم بنانے کاحکم نہیں دیا گیا۔ صدر مملکت چلے جائیں تو ان کی جگہ باالترتیب اسپیکر، چیئر مین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر اور ڈپٹی چیئر مین سینٹ قائم مقام صدر کا حلف اٹھاتے ہیں ، اس حلف کا صرف ایک فائدہ ہے ،کہ حلف لیتے ہی پہلا حکم یہ صادر کیا جاتا ہے کہ بغیر ٹیکس اور محصولات کے قیمتی گاڑی امپورٹ کی جائے۔اور افسر شاہی کے الہ دنیی جن یہ حکم بجا لانے میں تاخیر نہیں کرتے، صرف آرڈر پلیس کر دیناہی کافی ہوتا ہے ، خواہ کوئی نصف شب کو قائم مقام بنے ا ور صبح سویرے اصلی صدر کو قلم دان واپس کر دے۔اس دوران میں ایک عد قیمتی مگر سستے داموں گاڑی کے وہ مالک بن ہی جاتے ہیں۔ یہ ہے قائم مقام صدر کا فریضہ جسے وہ خوشی خوشی نبھاتا ہے۔
یہ بحث کیوں شروع ہو گئی کہ بیمار وزیر اعظم کی صورت میں ملک کون چلا رہا ہے، ہمارے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم بھی بیمار ہوئے تھے ا ور ڈاکٹروں کے مشورے پر بلوچستان میں زیارٹ ریذیڈنسی میں آرام کی خاطر چلے گئے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں ملک کو کون چلا رہا تھا، بعد میں ایک گورنر جنرل غلام محمد آئے، نہ بول سکتے تھے، نہ سمجھ سکتے تھے بلکہ بولتے تھے تو گالیوں کی زبان میں اور ان گالیوں کا مطلب ان کی نرس ہی سمجھ سکتی تھی۔
اس ملک میں حکومت کے لئے ایک جنرل ایوب خان آئے، پھر جنرل یحی خان آئے، ان کے بعد جنرل ضیا بھی آئے ا ور ایک وقفے سے جنرل مشرف آئے۔ ان سب کو حکومت کرنے کاکوئی اختیار نہیں تھا۔یہ سبھی غاصب تھے۔ان میں سے ایک نے تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں ہرایا، یہ الیکشن ایسا ہی تھا جیسے جھرلو الیکشن ہوتا ہے، ایک جھرلو الیکشن آئی جی پولیس قربان علی نے بھی کروایا، ان کے نام پر لاہور میں قربان لائنز بنی ہوئی ہے، یہاں سے جوپولیس نکلتی ہوگی وہ جھرلو کے فن میں ید طولی رکھتی ہو گی، ایوب، یحی اور ضیا نے ملک کے فوجی سربراہوں کے دماغ میں اقتدار پر حاوی رہنے کا کیڑا ڈالا۔ جنرل اسلم بیگ،جنرل کاکڑ نے پس پردہ رہ کر اقتدار کی ڈوری ہلائی۔جنرل کیانی نے زرداری حکومت کو مسلسل پریشان کئے رکھا۔
ایک بحث یہ ہے کہ سول حکمران ناکامی سے دو چار ہوئے تو اس کے جواب میں پوچھا جا سکتا ہے کہ فوجی آمروں نے کونسی دودھ ا ور شہد کی ندیاں بہا دی تھیں۔ پاکستان دو لخت ہوا تو ایک فوجی آمر جنرل یحی خان کے ہاتھوں، پاکستان میں ہیروئن، کلاشنکوف اور فرقہ واریت کا مافیا عروج پذیر ہوا تو جنرل ضیا کی برکت سے اور اب پاکستان بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے عذاب سے دو چار ہے تو قبلہ جنرل پرویز مشرف کے کمالات کے نتیجے میں۔
میاں نواز شریف اور بے نظیر کو ٹک کر کسی نے حکومت نہیں کرنے دی، ڈیڑھ دو یا تین برس کی بھی کوئی حکومت ہوتی ہے اور زرداری تو گورننس کی ابجد سے بھی ناواقف تھے پھر بھی ایک آرمی چیف ا ورا یک چیف جسٹس نے اس حکومت کو نشانے پر رکھا، اب خدا خدا کر کے نواز شریف نے تین سال مکمل کئے ہیں مگر کس طرح کہ ایک سال تو دھرنوں کی بھینٹ چڑھ گیا،اب پانامہ سے پانی گدلا کیا جارہا ہے۔ عام حالات میں انتخابی مہم چار سال بعد شروع ہوتی ہے ا ورپانچویں برس الیکشن ہو جاتا ہے، یہاں سیاسی فضا شب و روز انتخابی بخار سے دہک رہی ہے۔
یقین جانئے ہر ملک کو سیاستدان چلاتے ہیں، ہمارے ملک کو بھی چلنا ہے تو انہی سیاستدانوں کے ہاتھوں، یہ غلطیاں ضرور کریں گے مگر اپنی غلطیوں سے سیکھیں گے۔اوراسی طور جمہوریت اور ملک دونوں کو استحکام نصیب ہو گا۔
میں صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہوں گا کہ سول بیورو کریسی ا ور فوج کو ملک چلانے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ اپنے اپنے فیلڈ میں دونوں اداروں کی اہلیت پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی، دہشت گردی کی جنگ پرقابو پا کر فوج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کا لوہا منوا لیا ہے ا ور پچھلے انہتربرسوں کی طوائف الملوکی میں اگر ڈھنگ کے کوئی کام ہو رہے ہیں تو بیوروکریسی ہی کے ہاتھوں۔
تو آیئے منتخب حکومت بلکہ حکومتوں کو ملک چلانے دیں۔
ورنہ یہ ممکت خدادا د ہے اورہم اسی خداپر اس کے چلانے کی ذمے داری ڈال کر خود خواب خر گوش کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔
جو مزاج یار میں آئے۔