خبرنامہ

کیانی کی جولانی

اندازِ جہاں از اسد اللہ غالب

کیانی کی جولانی

انہیں الوداعی ضیافتوں میں شرکت کرنا چاہیے تھی مگر وہ وزیراعظم کو عزم نو مشقیں دکھارہے ہیں، کراچی میں قیام امن پر بریفنگ لیتے دکھائی دیتے ہیں اور آواران میں زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ میں کئی ماہ باقی تھے کہ ان کے جانشین کا اعلان کر دیا گیا، یہ اقدام اسلم بیگ کے پر کاٹنے کے لیئے کیا گیا۔ جنرل کیانی نے تو اپنے پرخودہی کاٹ لیئے اور اعلان کر دیا کہ وہ 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے کوئی اور ہوتا تو اس اعلان کے بعد ٹھس ہوکر رہ جاتا۔
کیانی پتانہیں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ پہلے سے زیادہ متحرک ہو گئے، چین کے دورے پر چلے گئے۔ چین ایسا ملک نہیں کہ محض سیروسیاحت کے لیئے اس کا رخ کیا جائے، یہاں تو راز و نیاز کی باتیں ہوتی ہیں اور اسٹریٹیجک پلان تیار کیئے جاتے ہیں۔
یہ ریٹائرمنٹ کا اعلان تھایا از سر نوتقرری کا۔ ویسے کسی نے بھی اس اعلان کو سنجیدگی سے نہیں لیا حکومت کو بھی یقین نہیں آیا کہ کیانی ریٹائر ہورہے ہیں، اس کا ثبوت حکومت کی بے عملی ہے کہ ابھی تک ان کے جانشین کی نامزدگی عمل میں نہیں آسکی۔
ریٹائرمنٹ کے از خود اعلان نے کیانی کو تازہ دم کر دیا ہے۔ عدلیہ از خودنوٹس لیتی ہے اور ملک میں بھونچال برپا ہوجاتا ہے۔
عزم نومشقیں دکھانے کے لئے کیانی نے وزیراعظم کو جیپ میں بٹھایا اور خود ڈرائیور بن گئے۔ یہ کس بات کی علامت ہے، ایک آرمی چیف ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جائے تو اس کا کیا مطلب نکالا جا سکتا ہے، جو مرضی نکال لیجئے۔
وزیراعظم گیلانی نے بھی عزم نومشقیں دیکھی تھیں مگر فوج نے ان کی ایسی ناز برداری نہیں کی تھی، اس کی کوئی وجہ ہوگی، فوج کو گیلانی صاحب کے نظریات کی بھنک پڑ گئی ہوگی کہ وہ ریاست کے اندر ریاست کو برداشت نہیں کر سکتے۔
نواز شریف کی خصوصی آؤ بھگت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اور ریاست کے اہم ترین دفاعی ادارے کے مابین کوئی فاصلہ نہیں، یہ باہمی اعتماد کی معراج ہے۔
یہی نواز شریف ایک بار گجرات کے دورے پر گئے تو چناب کا پل پارکرنے کے بعد انہیں ایک جیپ میں بٹھایا گیا اور یہ جیپ چودھری برادران نے کندھے پر اٹھالی۔ چودھری برادران نے پتا ہی نہ چلنے دیا کہ وہ جیپ کو کندھوں سے کب الٹ دیں گے۔ اور جب الٹا تو ایسے الٹا کہ نواز شریف کی نہ حکومت رہی، نہ ان کو ملک میں رہنا نصیب ہوا۔ مشرف کے ساتھ بھی چودھر یوں نے یہی سلوک روارکھا، برملا کہا کہ مشرف کو وردی میں دس مرتبہ صدر منتخب کروائیں گے مگر چند ماہ بعد اس طرح در دی اتر والی جیسے مرغی کی کھال ایک جھٹکے سے اتار دیتے ہیں۔ مشرف نے بہت کہا کہ وردی ان کی کھال ہے مگر یہ کھال ادھڑ گئی۔ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔
خیر پور ٹامیوالی کیسی جگہ ہے کہ یہاں تاریخ بنتی ہے اور بگڑتی ہے۔ جنرل ضیاالحق آخری سفر پر یہیں سے اڑے تھے۔
جنرل کیانی کو اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کا اچھی طرح اندازہ ہے لیکن وہ آخری لمحے اور آخری سانس تک دشمن پر ہیبت طاری کرنے کے عزم سے سرشار ہیں، وہ بھارت کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ پاک فوج دنیا کی مانی ہوئی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔
ملک میں ڈرون کی بحث چھڑی ہوئی ہے، وزیر اعظم کی خواہش ہے کہ ڈرون حملوں کا خاتمہ ہو جائے، کیانی نے اپنے وزیراعظم کو جتلا دیا کہ پاک فوج ان کے ایک اشارے کے منتظر ہے۔ وزیراعظم نے ڈرون کی تباہی کا منظر دیکھا ہوگا توان کا دل باغ باغ ہو گیا ہوگا۔
کیانی نے امریکہ کوبھی بتادیا کہ ڈرون کا کیا حشر ہوسکتا ہے، وہ بھی کسی ایف سولہ کے ذریعے نہیں بلکہ محض ایک سادہ باز وکا، کے نشانے سے۔ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔
کیانی کے جاتے جاتے امریکہ ایک بار پھر پاکستانیوں کی نفرت کا نشانہ بن گیا ہے۔ وزیراعظم نے صدر اوبامہ سے درخواست کی تھی کہ امن مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کیئے جائیں، ان کی بات نہیں مانی گئی، امریکہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا، پاکستان میں ایک ایسا شخص ہیرو بن گیا جو پچاس ہزار بے گناہوں کا قاتل ہے۔ دوسری طرف ایک ایساشخص ٹھکانے لگا دیا گیا جو پاکستان کے لیے مسلسل آزار بنا ہوا تھا۔ اس کا نائب لطیف اللہ محسود بھی امریکیوں کی قید میں ہے۔ وہ مکافات عمل کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کی حیثیت صرف یہ تھی کہ وہ حکیم اللہ کا ڈرائیور تھا لیکن اس قدر چہیتا کہ اسے ایک لحاظ سے جانشین نامزد کر دیا گیا۔ اس ایک فیصلے نے طالبان کی صفوں میں دراڑیں ڈال دیں۔ ایک معمولی ڈرائیور کی عزت افزائی کو جغادری طالبان برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اب کیا پتا کہ کسی ناراض ساتھی نے ہی حکیم اللہ کی گاڑی میں چپ نصب کردی ہو یالطیف اللہ کی مدد سے امریکیوں نے حکیم اللہ کی نقل و حرکت کا سراغ لگا لیا ہو۔ جو کچھ بھی ہوا، جیسے بھی ہوا، کیانی کے سر سے ایک بھاری بوجھ اتر گیا۔ کیانی کے کسی ایک کارنامے کا نام لینا ہو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بارہ اکتوبر ننانوے کی مانوس یادوں کو پس پردہ دھکیل دیا ہے۔ نواز شریف ماضی قریب تک انہیں ذہن سے کھرچنے کے لیے تیار نہ تھے، انہوں نے کیانی کی پہلی توسیع کی مخالفت کی تھی مگر اب ان کے وزیر داخلہ پاک فوج کے لیئے رطب اللسان ہیں۔ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج امن مذاکرات کی حامی ہے حتی کہ فاٹامیں معمول کی فوجی نقل وحرکت کو بند کر دیا گیا تھا تا کہ طالبان کی بداعتمادی کا شکار نہ ہوں۔
اور اگر انٹرنیٹ پر پھیلی ہوئی خبروں پر یقین کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے ڈرون حملے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا۔ میزائل اس وقت مارا گیا جب حکیم اللہ کی گاڑی اس کے باغات میں گھرے سوا کروڑکے محل کے دروازے پر پہنچی، چندلمحو ں کی تاخیر سے میزائل مارے جاتے تو اندر بیٹھی پوری طالبان قیادت کا صفایا ہو سکتا تھا، امریکہ کو شاید اندازہ تھا کہ اتنے بڑے نقصان پر طوفان کھڑا ہو جاتا۔
اب طالبان قیادت کو اپنا چیف مقرر کرنا ہے اور حکومت پاکستان کو ان کے مقابلے کے لیے فوج کے چین کا تقرر کرنا ہے۔ جنرل کیانی اپنا دور گزار چکے۔ آخری وقت تک ان کی توقیر اور نیک نامی میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کومل گیا۔ (7نومبر 2013ء)